ایم کیو ایم کے اکٹھے ہونے سے پی ٹی آئی پریشان؟
سابق مئیر کراچی اور متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے رہنما وسیم اختر نے اتوار کو کی جانے والی پریس کانفرنس کے حوالے سے کہا کہ پہلی دفعہ ہم نے اپنے تحفظات کیمرے کے توسط سے عوام تک نہیں پہنچائے ہیں، بارہا اس طرح کی پریس کانفرنسز ہوئی ہیں۔
آج نیوز کے پروگرام ”روبرو“ میں میزبان اور سینئیر اینکر شوکت پراچہ سے گفتگو میں پریس کانفرنس کی وجہ بیان کرتے ہوئے وسیم اختر نے کہا کہ وجہ کی بات کروں تو جس وجہ سے ہم نے پیپلز پارٹی اور ن لیگ کا ساتھ دیا وہ معاہدے کی شکل میں کاغذ پر موجود ہے اور اس میں سے کسی ایک شق پر بھی عمل نہیں ہوا۔
انہوں نے کہا کہ آج جو پریس کانفرنس ہوئی وہ بلدیاتی الیکشن کے حوالے سے تھی کہ صاف شفاف اور پرامن بلدیاتی انتخابات ہونے چاہئیں۔
سابق مئیر کا کہنا تھا کہ کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے، دو بندرگاہیں ہیں، ساڑھے 3 کروڑ لوگ ہیں، سب سے زیادہ ٹیکس یہ شہر دیتا ہے، اس کا الیکشن بھی اگر اپنی مرضی کی حلقہ بندیوں، ووٹر، سینسس لسٹ، آبادی کو آدھا گن کر کرایا جائے گا تو اس کا مئیر بے اختیار ہی ہوگا، تو کیا فائدہ ایسے الیکشن کا۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن کل کروا لیں ایم کیو ایم تیار ہے، ہم الیکشن سے نہیں بھاگ رہے لیکن صاف اور شفاف الیکشن اسی صورت میں ممکن ہے جب حلقہ بندیاں درست ہوں۔
حلقہ بندیوں کی صورت میں انتخابات نہ ہوسکنے کے سوال پر وسیم اختر نے کہا کہ اسلام آباد میں وفاقی حکومت نے الیکشن سے پہلے ہی دو دن میں حلقہ بندیاں کیں، ہم بھی یہی چاہ رہے ہیں کہ ٹھیک طرح سے حلقہ بندیاں ہوں۔
انہوں نے بتایا کہ ہم پچھلے چھ مہینے سے پیپلز پارٹی کے لوگوں کے ساتھ رابطے میں ہیں، ہمارا یہ مطالبہ آصف زرداری صاحب کے لوگوں نے بھی قبول کیا تھا اور شہباز شریف صاحب کے لوگوں نے بھی، انہوں نے ہی ہمیں ہدایت کی تھی آپ سندھ میں ہماری مقامی قیادت سے بات چیت کرکے معاملات طے کرلیں۔
وسیم اختر بتاتے ہیں کہ ہم مقامی قیادت کے ساتھ پہلے آرٹیکل 140 اے کے ساتھ بیٹھے، پھر اس کے بعد حلقہ بندیوں پر بیٹھے، ہم نے ان کے سامنے بات رکھی کہ تقریباً 72 یوسیز ایسی ہیں جن پر ہمیں اعتراض ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ یہاں غلط طریقے سے غیر قانونی یوسی بنائی گئی ہے، اپنی یوسی 25 ہزار لوگوں کی بنا دی ہماری یوسی 90 ہزار لوگوں کی بنا دی۔
ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کے کہنے پر ہم 70 سے 60 یوسیز پر آگئے، آخری میٹنگ میں پھر ان کے کہنے پر 60 سے 50 یا 52 یوسیز میں تبدیلیوں پر ہمارا اتفاق ہوا۔
ایم کیو ایم رہنما کے مطابق سندھ حکومت نے یوسیز کے معاملے پر الیکشن کمیشن کو خط بھی لکھا، لیکن اب کل کی پریس کانفرنس سے یہ شک جارہا ہے کہ پیپلز پارٹی حلقہ بندیوں پر اتفاق نہیں کر رہی۔
وزیراعظم شہباز شریف کی آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمان سے رابطے پر ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کا خالد مقبول صدیقی سے رابطہ ہوا ہے، ان کی مہربانی ہے کہ وہ کچھ وزراء ہمارے تحفظات دور کرنے کیلئے کراچی بھیج رہے ہیں۔
ایم کیو ایم کے پھر سے اکٹھا ہونے کے سوال پر مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سابق گورنر سندھ محمد زبیر کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم کو احساس ہوچکا ہے کراچی اور سندھ کے شہری علاقوں میں ان کی طاقت کم ہوتی جارہی ہے ، تو یہ اچھی بات ہے کہ وہ اب خود اکٹھے ہو رہے ہیں۔
فواد چوہدری کی ایم کیو ایم کے اکٹھے ہونے پر کی جانے والی تنقید پر ان کا کہنا تھا کہ وہ بھول گئے ہیں مارچ 2022 تک وہ خود ایم کیو ایم کے ساتھی تھی اور بقول عمران خان یہ تو بڑے نفیس لوگ ہوتے ہیں، اب ایم کیو ایم کا مقابلہ الزامات لگانے کے بجائے سیاسی طور پر کریں۔
انہوں نے کہا کہ میں گورنر بنا تو تنقید کے باوجود میرے ایم کیو ایم سے زبردست تعلقات تھے، میرا اس وقت بھی موقف تھا کہ اگر وہ الطاف حسین کو چھوڑ کر مین اسٹریم میں آرہے ہیں تو انہیں ویلکم کرنا چاہئیے۔ خود خالد مقبول صدیقی ایم کیو ایم کی طرف سے الطاف حسین کے بیان اور 27 مئی کے واقعات پر معافی مانگ چکے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے 2018 میں انہیں کابینہ کا حصہ اس لئے نہیں بنایا کہ ہمیں کراچی میں آپریشن کرنا تھا۔ یہ جب کابینہ میں ہوتے ہیں تو اپنے ساتھ ہوئے ظلم کو لے کر روتے رہتے ہیں کہ جی ہمارے ساتھ یہ ہورہا ہے ہمارا یہ مطالبہ نہیں مانا گیا، جب معاہدے ہوتے ہیں تو آپ کو بلیک میلر کے طور پر حکومت کا حصہ نہیں بننا چاہئیے۔ یہ بہت حساس معاملہ ہوتا ہے اور اسے بہت محبت سے حل کرنا چاہئیے۔
پی ٹی آئی کو ایم کیو ایم سے خطرے کے سوال پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما علی نواز اعوان کا کہنا تھا کہ اس وقت پاکستان کی ساری اشرافیہ کو خطرہ صرف ایک شخص سے ہے اور وہ عمران خان ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم کے اکٹھے ہونے سے کیا خطرہ ہے اور اسے کیوں اکٹھا کیا جارہا ہے؟ کہ عمران خان نہ آجائے۔
انہوں نے کہا کہ خطرہ نہ ایم کیو ایم سے ہے اور باپ (بلوچستان عوامی پارٹی) سے، باپ کے باپ سے خطرہ ہے ، جو کہہ چکے ہیں کہ ہم 21 فروری 2017 سے غیر سیاسی ہو چکے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اکٹھے ہونے والوں سے نہیں اکٹھا کرنے والوں سے خطرہ ہے۔
انتخابات کی صورت کراچی کے مسائل ٹھیک ہونے کی بات پر ان کا کہنا تھا کہ اگر لوگوں کی، جمہور کی بات مانی گئی تو کراچی کے مسائل کا حل بھی نکل آئے گا ، نیا تجربہ کیا گیا تو کراچی جیسا ہے ویسا ہی رہے گا۔
Comments are closed on this story.