فیض حمید براہ راست ٹی ٹی پی سے مذاکرات کا حصہ تھے، تجزیہ کار
سینئیر تجزیہ کار عامر رانا کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ کافی عرصے سے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کا ٹارگٹ رہی ہے، پچھلے کچھ عرصے سے جو ویڈیوز جاری ہو رہی ہیں اس میں پارلیمنٹ کو دکھایا جارہا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ٹی ٹی پی میں اتنی صلاحیت ہے کہ وہ پارلیمنٹ یا ہائی سکیورٹی زون میں گھس کر کارروائی کرسکے؟
آج نیوز کے پروگرام ”اسپاٹ لائٹ“ میں میزبان اور سئینر صحافی منیزے جہانگیر کے سولات کا جواب دیتے ہوئے عامر رانا نے کہا کہ ابھی تک جو تحقیقات ہوئیں اسلام آباد آئی ٹین واقعے کی اس کو دیکھ کر یہی لگتا ہے کہ وہاں آس پاس کوئی سکیورٹی انسٹالیشنز تھیں جنہیں نشانہ بنایا جانا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ پنڈی اور اُس علاقے میں ٹی ٹی پی کا ایک گروپ بہت ایکٹیو ہے اور اس کا دعویٰ ہے کہ وہ افغانستان میں مارے گئے محمد خالد خراسانی کے سیکشن سے تعلق رکھتا ہے۔
کیا سیکیورٹی اسٹبلشمنٹ نے غلط امید لگائی تھی کہ کابل میں طالبان حکومت ٹی ٹی پی کو بھی قابو کرسکے گی؟ اس سوال کے جواب میں پشتون قوم پرست رہنما افراسیاب خٹک کا کہنا تھا کہ جی بالکل غلط امید تھی۔ یہ فلم ہم پہلے بھی دیکھ چکے ہیں، ضیاء الحق کے دور سے یہ قصہ شروع ہوا اور اس میں اب تک تبدیلی نہیں آئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ افغان طالبان اور ٹی ٹی پی ایک ہی لوگ ہیں، ہماری پالیسیاں اس ملک کے مفاد کی پالیسیاں نہیں ہیں، یہ بڑی طاقتوں کی پالیسیاں ہیں۔
افراسیاب کا کہنا تھا کہ امریکہ، برطانیہ اور دوسرے ملک چاہتے ہیں کہ وہ چین کا راستہ روکیں، مرکزی ایشیا میں روس کیلئے ایک اور محاذ کھولیں، اس کیلئے وہ چاہتے ہیں کہ دہشتگردی کے خلاف ایک نئی جنگ ہو اور اس کیلئے پہلے دہشتگردی چاہئیے اور اسی لیے ٹی ٹی پی کو یہاں لایا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ کوئی یہ سوال نہیں اٹھاتا ٹی ٹی پی اندر کیسے آئی، سوات تو ڈیورنڈ لائن سے دور ہے، یہ کیسے پہلے باجوڑ اور دیر میں داخل ہوئے اور وہاں سے چلتے ہوئے سوات میں آگئے اور پھر پورے صوبے میں پھیل گئے، ہمارے سکیورٹی ادارے کہاں تھے۔
افراسیاب نے کہا کہ ان کو لایا گیا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک بڑے کھیل کا حصہ ہے، اور اب کہا جارہا ہے کہ امریکہ سے پیسے آئیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ طالبان کیلئے کہا جارہا ہے وہ اور امریکا مل کر داعش کے خلاف لڑیں گے، یہ ایک نیا کھیل ہے اور بدقسمتی سے ہم دوبارہ فرنٹ لائن اسٹیٹ بننے جارہے ہیں، اس کیلئے اِدھر اُدھر کی باتیں کی جاتی ہیں اور اصل بات کوئی کرنے کو تیار نہیں۔
اس سارے معاملے میں سیاسی قیادت کے کردار کے سوال پر سابق سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر کا کہنا تھا کہ سلامتی کونسل کی میٹنگ میں ”معلومات کی ضرورت“ کی پالیسی کے تحت پارلیمان کو بریفنگ دی جاتی ہے، ان کو ایک محدود حد تک بتایا جاتا ہے کہ کیا ہورہا ہے، طالبان سے مذاکرات کی پالیسی میں پارلیمان سے اجازت نہیں لی گئی، کوئی رائے نہیں لی گئی، اور جب بنا اجازت طالبان کو سیٹل کرنا شروع کیا تو لوگوں کی جانب سے ردعمل آنا شروع ہوا۔
انہوں نے کہا کہ اس سارے عمل کی قیادت پارلیمان کو کرنی پڑے گی، ہدایات پارلیمان کو دینی پڑیں گی اور وہ ہدایات ہماری اسٹبلشمنٹ اور سکیورٹی اداروں کو فالو کرنی پڑیں گی، سیاستدان ہی اس کا بہتر حل نکال سکیں گے۔
منیزے جہانگیر کا کہنا تھا کہ نیکٹا کی رپورٹ ہے کہ ٹی ٹی پی نے مذاکرات کا فائدہ اٹھایا، اس کا استعمال کرتے ہوئے دوبارہ اپنی گروہ بندی کی اور اب وہ پورے پاکستان میں حملے کر رہے ہیں، تو کیا یہ مذاکرات ٹی ٹی پی کی طرف سے ایک چال تھی کہ پاکستان حکومت کو بیوقوف بنایا جائے؟
منیزے کی بات کے جواب میں عامر رانا نے کہا کہ مذاکرات کرنے والے جو پاکستان کے لوگ تھے وہ کافی سنجیدہ تھے کہ مذاکرات کے ذریعے یہ مسئلہ حل ہوسکتا ہے، عمران خان جس سیاق میں بات کر رہے ہیں وہ یہ ہے کہ جنرل فیض براہ راست اس مذاکراتی عمل کا حصہ تھے، وہ ٹی ٹی پی کے لیڈر کو بھی ملتے تھے اور وہ ہی بات چیت کو آگے بڑھا رہے تھے۔ جب انہیں کور سے ہٹایا گیا اور ایک دم سے پریشر بڑھا تو اس کے بعد کہا گیا کہ دہشتگردی بڑھ رہی ہے۔
عامر رانا کا کہنا تھا کہ ان کو لگتا تھا ٹی ٹی پی کا جو سربراہ ہے وہ کافی نرم مزاج ہے اور بہت سی چیزیں حل ہوجائیں گی۔
سینئیر تجزیہ کار نے بتایا کہ اس پورے مسئلے کے تین پہلو ہیں، پہلا یہ کہ اسٹبلشمنٹ کا طالبان اور افغانستان کے بارے میں نظریہ بہت ہلکا ہے، ہر بندہ جو اس میں شامل ہوتا ہے وہ سمجھتا ہے کہ حل میرے پاس ہے، ایک کرنل لیول کے بندے کا کام لیفٹیننٹ جنرل کرنے لگے تو اسی طرح کے نتائج سامنے آئیں گے۔
ان کے مطابق دوسرا مسئلہ یہ کہ سکیورٹی ادارے کبھی بھی سیاستدانوں ، سویلین اور پارلیمنٹ کے اوپر بھروسہ نہیں کرتے۔ سیاسی اداروں میں بھی اتنی سکت نہیں کہ جو پالیسی یا گائیڈ لائنز آئیں گی ان کو سیاسی طور پر دیکھ سکیں یا ان کا مقابلہ کرسکیں۔
عامر نے کہا کہ تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ آپ کا جو جیوپولیٹکل ماحول ہے اس کا حساب بہت خفیہ انداز میں ہوتا ہے، خٹک صاحب اس کی طرف اشارہ کرچکے ہیں کہ پورا جنگی تھیٹر تبدیل ہورہا ہے، تو یہ مسئلہ بظاہر پاکستان میں دہشتگردی کا نہیں بلکہ بہت پھیلا ہوا مسئلہ ہے اور اس پر یہ کہنا کہ سیاستدان اسے حل کرسکتے ہیں تو بہت ہی بچکانہ نظریہ ہوگا۔
افراسیاب خٹک کہتے ہیں کہ کہا گیا حامد کرزئی اور اشرف غنی کی حکومتیں ٹھیک نہیں تھیں، طالبان کو اچھا کہا گیا اور جب طالبان آئے تو افغانستان کی جیلوں سے ڈھائی ہزار ٹی ٹی پی کے قیدی رہا ہوئے، اتنے قیدی پاکستان کی جیلوں میں نہیں تھے جتنے وہاں رہا ہوئے، اور ہم کہتے ہیں وہ حکومتیں ہماری مخالف تھی جنہوں نے انہیں قید کیا تھا۔
اداروں سے اس بارے میں سوال پوچھنے کی بات پر مصطفیٰ نواز کھوکر نے کہا کہ مجھے پارلیمنٹ میں یہ قابلیت نظر نہیں آتی کہ وہ سکیورٹی اداروں سے جواب لے سکیں، ٹی ٹی پی کے زیر حراست ترجمان ہماری قید سے فرار ہوجاتے ہیں اور ان کی دنیا کے دوسرے ممالک سے تصاویر سامنے آتی ہیں جہاں وہ بڑے آرام سے مزے کرتے ہوئے تشریف فرما ہیں، تو ہم تو اس کا جواب طلب نہیں کرسکے۔
ٹی ٹی پی کے مسئلے کا حل بتاتے ہوئے عامر رانا نے کہا کہ افغانستان میں طالبان ایک حقیقت ہیں اور فی الحال ہمیں انہیں اپنی ایک پراکسی سمجھنا بند کرکے ریاستی سطح پر ٹی ٹی پی کے مسئلے پر بات کرنا ہوگی۔ اب مذاکرات ٹی ٹی پی سے نہیں طالبان کی حکومت سے کرنے ہوں گے۔
Comments are closed on this story.