گوٹھ کی زمینوں پر قبضے کے کیس میں سندھ ہائیکورٹ کا بڑا حکم
سندھ ہائیکورٹ نے کراچی کے علاقے شاہ لطیف ٹاؤن میں گوٹھوں کے خلاف آپریشن نہ کرنے کا حکم دے دیا ۔
سندھ ہائیکورٹ میں شاہ لطیف ٹاؤن کی زمینوں پر قبضے کے کیس کی سماعت ہوئی۔
ڈپٹی کمشنر ملیر اور ایم ڈی اے حکام نے رپورٹ پیش عدالت میں کردی۔
عدالت نے شاہ لطیف ٹاؤن میں گوٹھوں کے خلاف آپریشن نہ کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ آئندہ سماعت تک تجاوزات کے خلاف آپریشن نہ کیا جائے۔
رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ 2 شہریوں کو متبادل پلاٹس دیے جا رہے ہیں۔
عدالت نے ڈپٹی کمشنر ملیر سے استفسار کیا کہ خالی کروانے والاعلاقہ کتنا ہے؟ جس پر ڈپٹی کمشنر ملیرنے بتایا کہ 12ایکٹر اراضی پر گوٹھ بنایا گیا۔
درخواست گزار محمد عثمان نے کہا کہ 12 نہیں 85 ایکٹر پر قبضہ ہے، عدالت نے قبضہ خالی کروانے کا حکم دیا۔
ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ چیف سیکرٹری نے رپورٹ دی کہ گوٹھ ریگولرائزڈ ہوچکے ہیں۔
سرکاری وکیل نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ ریگولرائزڈ گوٹھ کو کیسے ختم کیا جائے؟۔
درخواست گزار محمد عثمان نے کہا کہ 17 مارچ 2020 کو تمام قبضے ختم کروانے کا حکم دیا گیا۔
سلیم منگریو ایڈووکیٹ نے کہا کہ گوٹھ قانونی پوزیشن اختیار کرگئے، ختم نہیں کیے جا سکتے۔
جس پر عدالت نے ایم ڈی اے حکام سے پوچھا کہ آپ بتائیں اصل مالکان کو متبادل پلاٹس دینے میں کیا پیش رفت ہوئی؟۔
جس پر ایم ڈی اے حکام نے بتایا کہ متبادل پلاٹس دیے گیے مگر درخواست گزار مطمئن نہیں۔
درخواست گزار محمد عثمان نے کہا کہ نئی ملیر اسکیم میں متبادل دیے جا رہے ہیں جو جنگل ہے، ہم نے گوٹھ میں پلاٹ نہیں اسکیم میں لیے، گوٹھ میں 2 پلاٹس خالی کروا کر دیے جا رہے ہیں، گوٹھ کا مطلب آج ہمیں قبضہ دیں گے کل پھر قبضہ ہو جائے گا، گوٹھ پورا خالی کرائیں اور اسکیم بحال کی جائے۔
جسٹس ندیم اختر نے درخواست گزار سے استفسار کیا کہ کیا آپ کے لئے پورا گوٹھ خالی کروا لیں؟ جس پر محمد عثمان جواب دیا کہ جی بالکل! اسکیم کو اصل حالت میں ہی بحال کیا جائے، 1984 میں پلاٹ کا الاٹمنٹ آرڈر جاری ہوا، قبضے والی اراضی پر ایم ڈی اے نے اسکیم جاری کردی، جب خریدار پہنچے تو پتہ چلا اراضی پر پہلے سے قبضے ہیں، ایم ڈی اے نے متبادل پلاٹ کا وعدہ کیا جو آج تک پورا نہیں ہوا، پوری سوسائٹی پر الگ سے قبضے ہیں۔
Comments are closed on this story.