Aaj News

منگل, نومبر 05, 2024  
02 Jumada Al-Awwal 1446  

پاکستان میں معذوری کا سرٹیفیکٹ کیسے حاصل کیا جائے

ایسے افراد کو فضائی، ریلوے اور روڈ ٹریول میں 50 فیصد ڈسکاؤنٹ دیا جائے گا
شائع 14 دسمبر 2022 03:57pm
سندھ میں ڈی ای پی ڈی کے ذریعے معذوری کی تشخیص کا سرٹیفکیٹ
سندھ میں ڈی ای پی ڈی کے ذریعے معذوری کی تشخیص کا سرٹیفکیٹ

فائزہ خان کی عُمر 30 سال تھی جب وہ سعودی عرب گئیں۔ کمر سے نچلا دھڑ مفلوج ہونے کے باوجود فائزہ نے محسوس کیا کہ یہ تجربہ بہت اچھا رہا کیونکہ مقدس شہرمکہ وہیل چیئراستعمال کرنے والوں کے لیے بہت دوستانہ تھا۔

یہیں پران کی ملاقات اپنے جیسے ہی حالات کا سامنا کرنے والے دیگر لوگوں سے ہوئی جنہوں نے فائزہ کو ’معذوری سرٹیفکیٹ‘ کے بارے میں بتایا۔ یہ دستاویز کئی سہولیات کو یقینی بناتی ہے جس میں فضائی سفرپرچھوٹ بھی شامل ہے۔ فائزہ کے گھر والوں نے اس کے فوائد دیکھ کراُن کے بڑے بھائی کے لیے درخواست دی جو اعصابی کمزوری کے ساتھ ساتھ جزوی طور پرفالج کا بھی شکار ہے۔

فائزہ کی خالہ، جو ان بہن بھائی کو رجسٹریشن کے لیے لے کر گئی تھیں، نے بتایا کہ وہ محکمہ صحت میں ایک رشتہ دار کی مدد کے بعد ہی سرٹیفکیٹ حاصل کر پائی تھیں۔ فائزہ کے مطابق ، ”میرا بھائی اس عمل میں کامیاب رہا۔ ورنہ، آپ جانتے ہیں کہ یہ چیزیں کیسے کام کرتی ہیں“

اُس وقت صوبہ سندھ میں محکمہ سماجی بہبود کے تحت معذور افراد کی بحالی کے لئے صوبائی کونسل اتھارٹی سرٹیفکیٹ جاری کرتی تھی۔ 2018 میں سندھ امپاورمنٹ آف ’پرسنز ود ڈس ایبلٹیز‘ ایکٹ کی منظوری کے بعد اس میں تبدیلی آئی۔ اس کے بعد 2020 میں سندھ پرسنز ود ڈس ایبلٹیز پروٹیکشن اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا۔

معذور افراد کو بااختیار بنانے کے محکمہ نے جون 2021 سے معذوری کے سرٹیفکیٹ جاری کرنا شروع کیے، محکمہ کے ڈائریکٹرجنرل غلام نبی نظامانی نے آج ڈیجیٹل کو بتایا کہ 2022 میں اب تک 11 ہزار270 افراد کو یہ سرٹیفکیٹ جاری کیے جاچکے ہیں۔

معذوری کا سرٹیفکیٹ کیسے حاصل کیا جائے

خصوصی ضرورت کے حامل شخص کے کسی رشتہ دارکا درج ذیل دستاویزات کی 5 کاپیوں کے ساتھ گلستان جوہر میں واقع محکمے میں ان کے ساتھ جانا ضروری ہے:

قومی شناختی کارڈ تصویر گر18 سال سے کم عمر ہے تو والد کے شناختی کارڈ کے علاوہ ب فارم / برتھ سرٹیفیکیٹ تعلیمی اسناد عُمرکا ثبوت میڈیکل ہسٹری (متعلقہ دستاویزات)

جائزہ لینے کے بعد متعلقہ فرد کو سرکاری اسپتال کی تفصیلات فراہم کی جاتی ہیں جہاں میڈیکل بورڈ ایسے کیسز کا ہفتہ وارجائزہ لیتا ہے۔

غلام نبی نظامانی کے مطابق سندھ کے ہر ضلع میں ایک ایسا اسپتال ہے جبکہ کراچی میں کیماڑی ڈویژن کے علاوہ مجموعی طور پرایسے 10 اسپتال ہیں۔

ان میڈیکل بورڈز کے ممبران کے نام ، عہدہ اور رابطے کی تفصیلات ڈی ای پی ڈی کی ویب سائٹ پر فراہم کی گئی ہیں۔ آج نیوزنے فہرست میں شامل ڈاکٹرز میں سے ایک ڈاکٹر روبینہ ناز سے ٹیلفونک رابطہ کیا جنہوں نے اس حوالے سے تفصیلات فراہم کیں۔

انہوں نے آج نیوز کو بتایا کہ میڈیکل بورڈ کے ارکان کے علاوہ اسپتال کے میڈیکو لیگل سپرنٹنڈنٹ اور سیکریٹری صحت بھی متعلقہ افراد کو معذوری کے سرٹیفکیٹ جاری کرنے کی منظوری دے سکتے ہیں۔

ڈاکٹرروبینہ کے مطابق ، ’زیادہ تر معاملات میں میڈیکل بورڈ فیصلہ کرتا ہے جب تک اس فرد میں کسی خاص حوالے سے معذوری نہ پائی جاتی ہو،’اگر کسی کو اعصابی بیماری ہے اور میڈیکل پینل میں متعلقہ ماہر نہیں ہے تو ہم انہیں تشخیص کے لیے کسی اور کے پاس بھیجتے ہیں اور پھر وہاں سے آنے والی سفارشات پر فیصلہ کیا جاتا ہے‘۔

ڈائریکٹر سندھ پرسنز ود ڈس ایبلٹیز پروٹیکشن اتھارٹی غلام نبی نظامانی نے بتایا کہ میڈیکل پینل معذوری کی حد کا تعین کرتا ہے۔ اگر آپ 40 فیصد سے کم معذور ہیں تو آپ لازمی طور پر سرٹیفکیٹ کے اہل نہیں ہوں گے۔ یہ معیارعالمی ادارہ صحت ( ڈبلیو ایچ او) کی جانب سے فراہم کردہ رہنما خطوط کے مطابق ہے۔

انہوں نے کہا کہ اعصابی امراض کے معاملات میں زیادہ احتیاط برتنے کی ضرورت ہوتی ہے، یہ بات ذہن میں رکھتے ہوئے کہ کچھ لوگ معذوری کے سرٹیفکیٹ کا استحصال کرتے ہوئے قتل کے مقدمات میں پاگل پن کی درخواست دے سکتے ہیں۔

غلام نبی نے مزید بتایا کہ میڈیکل بورڈ کی جانب سے منظوری دیے جانے کے بعد اسی روز سرٹیفکیٹ بھیج دیا جاتا ہے جوعام طور پردرخواست گزار کو 24 سے 48 گھنٹوں کے اندرموصول ہوتا ہے۔ اس کے بعد معذوری کے نشان کے ساتھ خصوصی کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ حاصل کرنے کے لئے اس سرٹیفکیٹ کو نیشنل ڈیٹا بیس رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کے پاس لے جایاجاسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ، ’ابتدائی طورپر، نادرا تصدیق کے لیے کہتا تھا جس کے نتیجے میں تاخیرہوجاتی تھی۔ اب، ہم نے سرٹیفکیٹ میں ایک کیو آر کوڈ شامل کیا ہے جس سے فوری طور پرتصدیق کی جاسکتی ہے۔‘

معذوری کارڈ رکھنے والے یہ فوائد حاصل کرسکتے ہیں:

فضائی اور ریل کے کرایوں میں 50 فیصد رعایت

سرپرستوں یا ذرائع آمدنی کے بغیر معذور فراد کے لئے انشورنس کور

کسی تجارت کیلئے مائیکرو کریڈٹ فنانس

معذور افراد کے لئے گاڑیوں کی ڈیوٹی فری درآمد

آسان / خصوصی رسائی کو یقینی بنانے کے لئے بلڈنگ کنٹرول ریگولیشنز میں فوری ترامیم

معذور افراد کے لئے سڑکوں پر وہیل چیئر تک رسائی کی فراہمی

مستقبل کی تمام عمارتوں میں معذور افراد کے زیراستعمال گاڑیوں کے لیے خصوصی پارکنگ کی فراہمی

تمام سرکاری اسپتالوں میں اپنے، بچوں اور والدین کے لیے مفت طبی علاج

غلام نبی کے مطابق معذوری کارڈ رکھنے والے افراد بھی سرکاری ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں اپنے لیے مختص کردہ 5 فیصد کوٹہ کے اہل ہیں۔ سندھ میں عدالتی حکم کے بعد خصوصی ضروریات کے حامل افراد کے لیے ایک ہزار572 ملازمتوں میں سےبیشترپربھرتیاں کی گئی ہیں۔

پاکستان کی سرکاری ائرلائن پی آئی اے معذوری کارڈ رکھنے والوں کو ہوائی کرایوں پر 40 فیصد رعایت فراہم کرتی ہے جبکہ نجی ایئرلائنز 50 فیصد رعایت فراہم کرتی ہیں۔ ٹرین کے ذریعہ سفر پر یہ چھوٹ صرف اکانومی کلاس کی نشستوں کے لئے حاصل کی جاسکتی ہے۔ یہ رعایتیں پورے پاکستان میں لاگو ہوتی ہیں۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے 2019 میں اعلان کیا تھا کہ خصوصی ضروریات کے حامل افراد کے لیے 5 فیصد رعایتی نرخوں پر ’سمال انٹرپرائز فنانسنگ اینڈ کریڈٹ گارنٹی سہولت‘ پیش کیا جارہا ہے۔ اس کے لیے بینکوں اور ترقیاتی مالیاتی اداروں کو فنانسنگ فراہم کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ اسٹیٹ بینک کو اسے مکمل طور پرری فنانس کرنا ہوتا ہے۔

اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ خصوصی افراد زیادہ سے زیادہ 5 سال کی مدت کے لیے 15 لاکھ روپے تک کی فنانسنگ حاصل کرسکتے ہیں جس میں 6 ماہ کی رعایتی مدت بھی شامل ہے۔ اس سروس کو کمرشل بینکوں کی ویب سائٹس پر مشتہر کیا جاتا ہے۔

غلام نبی نظامانی نے نشاندہی کی کہ 18 ویں ترمیم کے بعد سے اختیارات صوبوں کو متقل کردیے گئے ہیں لہذا ہرصوبہ جیسے مناسب سمجھے ان سہولیات پرکام کرسکتا ہے ۔

مثال کے طور پر، پنجاب حکومت نے ڈائیوو بس سروس سے رابطہ کیا جو اب پنجاب کے اندر سفر پر 50 فیصد رعایت فراہم کرتی ہے لیکن دوسرے صوبوں میں ایسی خدمات پیش نہیں کی جاتیں۔

ڈائیوو کے ایک ترجمان نے آج نیوز کو بتایا کہ یہ سروس پنجاب حکومت کو رسمی طور پرفراہم کی گئی تھی ، جس میں کچھ بھی باضابطہ نہیں تھا۔ اس سروس کی وجہ سے ہمیں ماہانہ 20 لاکھ روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ریمپ کے ساتھ عمارت اور ڈھانچے بنانے پر زیادہ زور دیا جاتا ہے جبکہ اس کے بجائے زیادہ تر لوگ “ ڈھلوان“ تعمیرکردیتے ہیں جو انڈٖسٹری کے معیار پرپورا نہیں اُترتی۔

قوانین اور آبادی کا تخمینہ

پاکستان نے 1981 کے بعد سے خصوصی ضروریات کے حامل افراد کے لئے قوانین کو بہت بہتر بنایا ہے۔ جنرل ضیاء الحق، جن کی اپنی بیٹی معذور تھی، نے 1981 میں معذور افراد (روزگار اور بحالی) آرڈیننس نافذ کیا تھا، جس میں 2015 میں ترامیم کی گئیں اورپھر 2020 میں معذوری کے حقوق کا وسیع قانون منظورکیا گیا تھا۔ صوبوں نے اب معذورافراد کے لیے اپنے بھی قوانین وضع کر لیے ہیں۔

پاکستان میں معذور افراد سے متعلق مختلف اداروں کے تخمینوں میں فرق ہے۔ یو این ڈی پی کے مطابق ان کی تعداد آبادی کا تقریبا 6.2 فیصد ہے۔ 2017 میں چھٹی مردم شماری میں بتایا گیا ہے کہ ان کی تعداد صرف 0.48 فیصد ہے۔ یہ اعدادوشمار 1998 کی مردم شماری کے مقابلے میں بہت کم ہیں۔ پاکستان کے ادارہ شماریات نے نادرا کے اعداد و شمار کا استعمال کرتے ہوئے معذور افراد کی تعداد 371،833 افراد طے کی۔ ہیومن رائٹس واچ کی جانب سے نشاندہی کی جا چکی ہے کہ کس طرح پاکستان میں پی ڈبلیو ڈی کے تخمینوں میں بڑا فرق پایا جاتا ہے اور ان تخمینوں کے مطابق ان کی تعداد 33 لاکھ سے 2 کروڑ 70 لاکھ تک ہے۔

سندھ کی سب سے بڑی سرکاری یونیورسٹی، جامعہ کراچی میں خصوصی ضروریات کے حامل تقریبا 150 طالب علم اندازاً 46 ہزار کی اسٹوڈنٹس باڈی کا حصہ ہیں۔ یہ تعداد معذورافراد کے لئے مختص نشستوں کے 2 فیصد کے برابر بھی نہیں ہے۔

لیکن یونیورسٹی نے گزشتہ چند سال میں نئی تعمیرات میں ریمپ شامل کیے جانے سمیت چند تبدیلیاں کی ہیں، زیادہ تر پرانی عمارتیں وہیل چیئر استعمال کرنے والوں کے لیے موافقت نہیں رکھتیں۔

طلباء اب JAWS سافٹ ویئربھی استعمال کرسکتے ہیں ، جو ایک کمپیوٹر اسکرین ریڈر ہے اور نابینا طلباء کو اسسٹنٹ کے بغیر امتحانات میں بیٹھنے کی اجازت دیتا ہے۔ اس سے پہلے نابینا طلباء کو اپنے سوالات پڑھنے اورجوابات لکھنے کے لیے اپنے طور پرمعاون کی خدمات حاصل کرنا پڑتی تھیں۔

اگر آپ کے ذہن میں اس مضمون کے حوالے سے کوئی سوال ہے تو نیچے ضرور پوچھیں۔ ہم مزید معلومات حاصل کرنے کی کوشش کریں گے جو آپ کیلئے مددگار ثابت ہو۔

پاکستان

sindh

Special needs

DISABILITY CERTIFICATE

PEOPLE WITH DISABILITIES

NEUROLOGICAL CONDITION