انسانی اسمگلنگ بچوں اور خواتین کے تناظر میں
دنیا میں ہر ملک انسانی اسمگلنگ سے متاثر ہے۔ انسانی اسمگلنگ کی کئی وجوہات ہیں، لیکن دنیا میں خواتین کی ایک بڑی تعداد کی اسمگلنگ جنسی استحصال کے لیے کی جاتی ہے۔ بچوں کی سمگلنگ کرکے ان کو پیشہ وارانہ جرائم، بھیک مانگنے اور جبری مزدوری کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ زیادہ تر کیسوں میں مسئلہ غربت کا ہوتا ہے اور کچھ میں اغوا کر کے اسمگل کرنے کے واقعات بھی شامل ہیں۔
اسمگلر اپنے متاثرین کو پھنسانے کے لیے مختلف حربے آزماتے ہیں۔ زور زبردستی سے کام نہ چلے تو چکنی چپڑی باتوں اور مستقبل کا لالچ دیا جاتا ہے۔ سنہرے خواب اور بیرون ملک سیٹل ہونے کے خواب دکھائے جاتے ہیں۔ خصوصاً معاشی استحصال کا شکار عورت بدقسمتی سے جسمانی استحصال کا شکار بن جاتی ہے۔
دنیا بھر میں ایسے کیسوں کی تعداد لاکھوں نہیں، کروڑوں میں ہے اور ان میں باقاعدہ مافیاز ملوث ہیں۔ لیکن ایسے کیسز کی رپورٹنگ کرنا خاصا مشکل کام ہوتا ہے۔ کئی کیسوں میں حقائق منظرعام پر لانا موت کے ساتھ کھیلنے کے مترادف ہوتا ہے۔
انسانی اسمگلنگ سے عام طور پہ یہ مراد لی جاتی ہے کہ یہ لوگوں کی نقل و حمل، بھرتی، منتقلی، پناہ گاہ یا پیسے لے کر ان کو زبردستی، دھوکہ دہی یا فریب کے ذریعے پیسے کمانے یا منافع کمانے کے لیے ان کا استحصال ہے۔
دنیا بھر میں ہر عمر اور تمام پس منظر کے مرد، عورتیں اور بچے اس جرم کا شکار ہوسکتے ہیں، جو دنیا کے ہر خطے میں ہوتا ہے۔
یہ استحصال کسی بھی متاثرہ فرد کے آبائی ملک میں، ہجرت کے دوران یا کسی بھی غیر ملک میں باآسانی ہو سکتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسانی اسمگلنگ کے کیس کو کیسے پہچانا جائے؟
انسانی اسمگلنگ کی کئی شکلیں ہیں۔ ان میں جنسی اور مہمان نوازی کی صنعتوں، گھریلو ملازمین کے طور پر یا جبری شادیوں میں استحصال وغیرہ شامل ہے۔ ان متاثرین کو فیکٹریوں، بھکاریوں، گھریلو غلامی، تعمیراتی جگہوں، یا زرعی شعبے میں بغیر تنخواہ یا ناکافی تنخواہ کے ساتھ کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ یہ ہر وقت تشدد کے خوف اور اکثر غیر انسانی حالات میں رہتے ہیں۔
انسانی سمگلر اپنے متاثرین کو بھرتی کرنے کے لیے مختلف حربے استعمال کرتے ہیں۔ طاقت، نفسیاتی دباﺅ اور دھمکیوں کے ذریعے اپنا شکار حاصل کرنا بہت عام ہے۔ مستقبل کے جھوٹے خوابوں میں لالچ اور رومانس شامل ہیں۔ نوکریوں کے جھوٹے اشتہار بھی اخبارات میں نظر سے گزرتے ہوں گے۔ اچھی تعلیم یا بیرون ملک سیٹل ہونا کسی کا بھی خواب ہوسکتا ہے، سو اسے بھی باآسانی استعمال کیا جاتا ہے۔ لالچ اور فریب میں آکر بہت سے جال میں پھنس جاتے ہیں۔
مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ اس دام میں پھنسنے والے اپنی زندگی سے مایوس ہوجاتے ہیں۔ عام طور پر تھکے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان کے پاس نامناسب لباس ہوتے ہیں تاکہ وہ بوڑھے اور عام طور پر بیمار نظر آئیں، ان کی صحت کی خراب حالت ہوگی۔
اس حوالے سے ماہر نفسیات ڈاکٹر ثوبیہ مسعود کا کہنا ہے کہ ایسی خواتین جنہیں اسمگل کیا جاتا ہے، چاہے وجہ کچھ بھی ہو، باہر کسی امیر خاندان میں لالچ دے کر شادی کی گئی ہو، روزگار کا جھانسا ہو یا پھر محبت کا فریب دے کر کسی دوسرے ملک یا بڑے شہر میں لایا گیا ہو، ایسی خواتین تذبذب کا شکار رہتی ہیں۔ مختلف قسم کی کہانیاں سناتی ہیں۔ خود کو کسی بڑے خاندان کا فرد بتاتی رہتی ہیں جو بہت امیر کبیر تھا۔
اکثر آپ ان سے سنیں گے کہ وہ کہتی نظر آئے گی کہ ہمارا خاندان تو بہت رئیس تھا۔ پھر کسی نے ہماری جائیداد پہ قبضہ کرلیا وغیرہ۔ یہ صرف فرضی کہانیاں ہو سکتی ہیں۔ ایسی خواتین آسانی سے دوستی نہیں کرتیں۔ اپنے ٹھکانے سے آگاہی نہیں دیتیں، رہائش اور فون نمبرز بھی تبدیل کرتی رہتی ہیں۔ حلیے میں بھی تبدیلی آتی رہتی ہے۔ بہت حساس بھی ہوتی ہیں اور اگر موقع ملے تو اسمگلنگ کی وجہ سے وہ جن جرائم کا ارتکاب کر رہی ہوتی ہیں ان سے چھٹکارا حاصل کرنا بھی چاہتی ہیں۔
مگر غریب ممالک یا جو ترقی پذیر جیسا کہ پاکستان، ہندوستان، بنگلہ دیش وغیرہ یہاں پر معاشرہ ایسی خواتین کے تعمیری کردار کو زیادہ سراہتا نہیں ہے اور یہ چاہ کر بھی ان مشکلات سے نکل نہیں پاتیں۔
نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ خود کو الگ تھلگ محسوس کرتی ہیں اور ان کی شخصیت میں کچھ اثرات یا تبدیلیاں آجاتی ہیں جیسا کہ متاثرہ خواتین یا بچے اکثر خوف، شرم، ناامیدی، عدم تحفظ، افسردگی یا اعتماد کی کمی کے ہوتے ہوئے محسوس کرتے ہیں۔ وہ الگ تھلگ محسوس کرتے ہیں۔
یہ ایسی عملی نشانیاں ہیں جو اسمگلنگ کے معاملے کو پہچاننے میں مدد کرتی ہیں۔ متاثرین کے پاس پاسپورٹ یا کوئی دستاویزات نہیں ہوتے ہیں، وہ اس ملک کی زبان نہیں جانتے۔ انہیں فیصلے کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ اکیلے کہیں بھی آنے جانے کا وہ تصور نہیں کرسکتے۔ اپنے پیسوں پر انہیں اختیار بھی نہیں ہوتا۔
ڈاکٹر ثوبیہ کے مطابق تارکین وطن اور پناہ گزین بہت کمزور لوگ ہیں کیونکہ وہ ایک اجنبی ملک میں ہوتے ہیں۔ زیادہ تر معاملات میں، وہ آسانی سے مناسب کام بھی حاصل نہیں کرپاتے۔
اگر بات کی جائے کہ اسمگلر اپنے شکار کو پکڑنے کے لیے کیا طریقے استعمال کرتے ہیں۔ یہاں کچھ مثالیں ہیں جہاں آپ اسمگلنگ کے معاملے کو پہچان سکتے ہیں، چاہے وہ خواتین کی ہو یا بچوں کی یا پھر کوئی بھی فرد اس سے متاثر ہو، مثلاً
- والدین بچے کو بیچ رہے ہیں
- شکار کو اغوا کرنے والا مجرم
- خاندانی قرض ادا کرنے کے لیے غلام بنانا
- نوکری کے جھوٹے مواقع کے لیے بھرتی کرنا
- بیرون ملک سفر اور تعلیم حاصل کرنے کا جعلی موقع
- جھوٹی شادی کی پیشکش کرنا
- کسی گینگ میں حصہ لینے کا موقع فراہم کرنا
- تحائف، رقم، خوراک وغیرہ کے تبادلے کے ساتھ غیر قانونی کام کرنے کے لیے کہنا
اس کے خلاف کہاں سے مدد لی جائے؟
اگر آپ کسی خطرناک صورتِ حال میں ہیں، تو یونان میں یہ مفت ایمرجنسی نمبر ہیں جہاں آپ کال کر کے مدد کے لیے پہنچ سکتے ہیں۔
یورپ میں اس حوالے سے ایمرجنسی نمبر 112 ہے۔
اگر آپ شکار ہیں یا آپ انسانی اسمگلنگ کے شکار کو جانتے ہیں تو 1109 نیشنل ہاٹ لائن فار ہیومن ٹریفکنگ پر بھی کال کرسکتے ہیں۔
1109 ہاٹ لائن یونان میں انسانی اسمگلنگ کے لیے قومی ہاٹ لائن ہے۔ کوئی بھی 1109 پر کال کرسکتا ہے۔ انسانی اسمگلنگ کے لیے 1109 ہاٹ لائن یونان میں A21 کا ایک اقدام ہے۔ وہ اس بارے میں معلومات فراہم کرتے ہیں کہ کس طرح مدد حاصل کی جائے، یونان میں بچایا گیا شکار کس طرح فوری دیکھ بھال تک رسائی حاصل کر سکتا ہے، اور انسانی اسمگلنگ سے بچ جانے والوں کی بحالی کے عمل کے بارے میں معلومات فراہم کرتے ہیں۔
اگر آپ پناہ گزین کیمپ میں رہتے ہیں تو آپ تحفظ کے انتظام اور خدمات فراہم کرنے والی تنظیموں سے مدد لے سکتے ہیں۔
پناہ گزینوں کی رہائش کی سائٹ آپ کو خدمات فراہم کرنے والی تنظیم میں سماجی کارکن، ماہر نفسیات، یا قابل اعتماد کارکن سے مدد لے سکتی ہے۔
1109 ہیومن ٹریفکنگ ہاٹ لائن ملک میں کہیں سے بھی، دن کے 24 گھنٹے، ہفتے کے 7 دن، سال کے ہر دن تمام ضروری کالوں کا جواب دینے کے لیے دستیاب ہے۔ اگر کال کرنے والا چاہے تو، وہ بغیر کسی چارج کے واپس بلانے کی درخواست کر سکتا ہے۔
1109 ہاٹ لائن ای میل ایڈریس [email protected] کے ذریعے بھی دستیاب ہے یا 1109 ویب سائٹ پر اطلاع بھی دے سکتے ہیں۔
1109 ہاٹ لائن کی کالیں گمنام اور خفیہ ہیں۔ پیشگی اجازت کے بغیر کوئی بھی اس معلومات کو دوسرے افراد اور ایجنسیوں کے ساتھ شیئر نہیں کرے گا۔ کال کرنے والا معلومات فراہم کرنے کا انتخاب کرسکتا ہے۔ اس لیے 1109 ہاٹ لائن بچوں کے ساتھ بدسلوکی یا اس بات کا ثبوت فراہم کرے گی کہ کال کرنے والا خود کو یا دوسروں کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
پاکستان میں کونسی مدد موجود ہے؟
یہ تو ہم بات کرے رہے ہیں یونان کی مگر اس کا تقابلی جائزہ پاکستان سے لیا جائے تو وزارت انسانی حقوق کی جانب سے ایک یونیورسل نمبر ہے، جو انسانی حقوق کے استحصال سے متعلق ہے، اس کے لیے آپ 1099 پر رابطہ کرسکتے ہیں۔ مگر غیر قانونی ہجرت یا اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے ایف آئی اے، کچھ نجی تنظیمیں کام تو کررہی ہیں مگر سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے ایک تحقیقی رپورٹ جاری کی ہے، جس کے مطابق پاکستان انسانی اسمگلنگ کے لیے ایک ذریعہ، راہدری اور منزل کے طور پر استعمال ہو رہا ہے۔
انسانی حقوق کمیشن کی “جدید غلامی: پاکستان میں خواتین اور لڑکیوں کی اسمگلنگ’ کے عنوان سے اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انسانی اسمگلنگ کے حوالے سے ملک میں قابل اعتماد اعداد و شمار کی متعدد وجوہات کی بنا پر کمی ہے لہٰذا اس بات کا تعین کرنا مشکل ہے کہ کس پیمانے پر انسانی اسمگلنگ کی جا رہی ہے۔
ایچ آر سی پی کا کہنا ہے کہ اسے خاص طور پر اندرون ملک اسمگلنگ کے نیٹ ورکس کے حوالے سے تشویش لاحق ہے، جس کا دائرہ جنسی اسمگلنگ، بچوں کی جبری مشقت، جبری مزدوری، جبری بھیک اور جبری شادی کے معاملات تک پھیلا ہوا ہے۔
یہ رپورٹ کہتی ہے کہ معاشی طور پر کمزور خواتین اور کم عمر لڑکیوں کو خاص طور پر نشانہ بنایا جاتا ہے۔
امریکا کے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سن 2020ء میں صوبائی پولیس نے اسمگلنگ کے 32,022 متاثرین کی شناخت کی، جو کہ 2019 میں 19,954 کے مقابلے میں نمایاں اضافہ ہے۔ ان متاثرین میں 15,255 خواتین، 9,581 مرد، 6,937 بچے اور 249 ٹرانس جینڈر شامل تھے۔
ایچ آر سی پی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس مسئلے کے حوالے سے میڈیا میں بہت کم رپورٹنگ کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ انسداد اسمگلنگ کے موجودہ قانون پر عمل درآمد بھی کم ہے۔
رپورٹ کے مطابق اسمگلنگ کی مختلف جہتوں کے بارے میں آگاہی کا فقدان، اور متعلقہ فریقین جیسے کہ ایف آئی اے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان عدم ہم آہنگی بھی پائی جاتی ہے، یہ ایسی وجوہات ہیں جن کے باعث اس جرم کو کنٹرول کرنا پاکستان میں مشکل ہو رہا ہے۔
مصنفہ اور سینئر صحافی شہناز تاتاری نے اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملے پر رپورٹنگ کرنا بہت مشکل ہے۔ اس میں مافیا بھی ملوث ہوتے ہیں۔ لوگ بات کرنا ہی نہیں چاہتے کیوں کہ انہیں ڈر لگتا ہے کہ پولیس کیس بن جائے گا۔
شہناز بتاتی ہیں کہ وہ خود ایسے خاندانوں اور خواتین سے ملی ہیں جو انسانی اسمگلروں کے جھانسے میں آگئیں۔ کیونکہ وہ سمجھتی تھیں اس سے ان کی قسمت بدلے گی۔ وہ سمجھتی ہیں کہ اچھا گھر اور روزگار ہوگا۔ وہ اس بات کا ادراک ہی نہیں کرپاتیں کہ وہ ٹریپ ہو رہی ہیں اور اس سے ان کو جنسی تشدد اور جسمانی و نفسیاتی زیادتیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ایچ آر سی پی کی رپورٹ میں حکومت کو تجویز کیا گیا ہے کہ انسانی اسمگلنگ کے مختلف پہلوﺅں سے متعلق کوائف اکٹھا کرنے، مرتب کرنے اور رپورٹ کرنے کا ایک موثر نظام ترجیحی بنیادوں پر وضع کیا جائے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی اسمگلنگ کی نشاندہی کرنے اور اطلاع دینے کی صلاحیت کو بھی ٹھوس بنایا جانا چاہیے۔
انسانی حقوق کمیشن کی جانب سے یہ بھی تجویز کیا گیا کہ حکومت کو انسداد اسمگلنگ کے قوانین کو لاگو کرنے کے لیے مناسب وسائل مختص کرے۔ متعلقہ فریقین کے درمیان بہتر ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کرے۔ تاکہ خواتین اور بچوں کی اسمگلنگ سے جو مسائل ہیں ان پر قابو پایا جاسکے اور انسانی اسمگلنگ کی روک تھام ممکن ہو سکے۔
ایک اہم بات یہ ہے کہ جو بچے اور خواتین اس وبال میں پھنس چکے ہیں یا جو نئے شکار ہوسکتے ہیں، ان کو بچایا جا سکے۔
Comments are closed on this story.