اخترلاوا نے ’لاہورداپاوا‘ ہونے کی وجہ بتادی، تمام سیاستدانوں کو للکار
سوشل میڈیا پر’میرادل یہ پُکارے’ کی گونج قدرے مدہم ہونے کے بعد نیا شور ’لاہورداپاوا‘ کا ہے۔ مختلف پلیٹ فارمز پروائرل اس نعرے کے روح رواں اختر لاوا نے سیاستدانوں کو پیغام دیا ہے کہ ہمیں اپنے جھگڑے نہ سنائیں اور مُلکی مفاد میں مُتحد ہوجائیں۔
آج نیوزکے مارننگ شو ’آج پاکستان کے ساتھ‘ میں شریک اخترلاوا کا کہنا تھا کہ وہ آرائیں برادری سے تعلق رکھتے ہیں اور لاوا ان کا خاندانی نک نام ہے جو دشمنوں پر پھٹ پُھٹ جاتا (اُبل پڑتا) ہے۔
سوشل میڈیا پروائرل زبان زدعام نعرے ’لاہور دا پاوا، اخترلاوا‘ کے پیچھے چھپی حقیقت بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ، ’میں 2002 میں کونسلرکا الیکشن لڑ رہا تھا جس کا انتخابی نشان چارپائی تھا۔ بچوں نے نعرہ بنادیا ’ ٹُٹ (ٹوٹ) گئی منجی، رہ گیاپاوا، اخترلاوا اخترلاوا۔“
بس پھراخترلاوانے اپنا نعرہ بنایا ’لاہوردا پاوا(سُتون) اخترلاوا‘۔
لوگوں کی جانب سے خود کوسنجیدگی سے لینے سے متعلق سوال پراخترلاواکاکہنا تھا کہ وہ کام ہی ایسے کرتے ہیں ، لیگی رکن قومی اور صوبائی اسمبلی اچھی طرح جانتے ہیں کہ اخترلاوا دل کاصاف ہے اور خدمت خلق کرتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ لا ہور کے علاقے نیازی اڈہ کے قریب ساڑھے 3 سال سے جمع شدہ کچرا صاف کروایا جس پر اہل علاقہ سمیت لیگی رہنما رانا مشہود نے بھی ان کا شکریہ اداکیا۔
سیاسی جماعتوں کو اختلافات بھلا کرایک ہوجانے کا پیغام دینے والے اخترلاوانے کہا کہ مسلمان اکٹھے نہیں ہوں گے تو دشمن تو وار کرے گا، عمران خان، ن لیگ، فضل الرحمان، ایم کیو ایم، پیپلز پارٹی سے درخواست ہے کہ خدا کا واسطہ ہے متحد ہوکرملکی بھلائی میں کردار ادا کریں۔
سیاستدانوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اخترلاوانے پیغام دیا کہ ، ’ملک غربت کا شکار ہے، لوگ مانگنے پرمجبورہوچکے ہیں، خدا کا واسطہ ہمیں اپنے جھگڑے نہ سُناؤ، مدینے کی ریاست بنانی ہے تواکٹھے ہوجاؤ۔مدینے کی ریاست میں جھوٹ نہیں بولے جاتے، قتل وغارت نہیں ہوتی نہ جلوس نکالے جاتے ہیں، صرف خدمت ہوتی ہے۔‘
انہوں نے خود پرتنقید کرنے والے مخالفین کو جواب دیا کہ اگرکسی کاکچھ بگاڑا ہے تو غصہ کرنے کا حق ہے، فضول میں غیبت کریں گے تو منہ کالا ہوگا۔ اگرمیں مجرم ہوں تو سزا دیں۔ ایک روپیہ بھی کسی سے مانگا ہوتو ثابت کریں، سر کاٹ کرچوک پرلٹکادیں۔ فلاحی کاموں پراپنی جیب سے رقم خرچ کرتا ہوں۔
اخترلاوا بحرین میں ملازمت کرتے رہے ہیں، انہوں نے بتایا کہ مزدوری کرتا تھا، ماں باپ کو حج کروایا اور ایک سال میں ہی ان کی دعاؤں سے منیجربن گیا۔ وہاں بھی نیکی کا کام کرتا تھا، بچ جانے والا کھانا خود جا کرغریبوں میں بانٹ آتا تھا۔
Comments are closed on this story.