Aaj News

پیر, دسمبر 23, 2024  
20 Jumada Al-Akhirah 1446  

نور مقدم کیس: رعایتوں کے بعد عمر قید کم ہو جاتی ہے، جسٹس عامر فاروق

اسلام آباد ہائیکورٹ میں ظاہر جعفر کی سزا کے خلاف اپیل پرسماعت
اپ ڈیٹ 07 دسمبر 2022 03:45pm
تصویر بزریعہ اے ایف پی
تصویر بزریعہ اے ایف پی

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس عامر فاروق نے نور مقدم کیس اپنے ریمارکس میں کہا کہ عمرقید بھی دراصل عمر قید نہیں رہتی، بہت ساری رعایتوں کے بعد سزا کی مدت کم رہ جاتی ہے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ میں نورمقدم قتل کیس میں ظاہر جعفر کی سزا کے خلاف اپیل پرسماعت ہوئی جس میں ظاہرجعفرکے وکیل عثمان کھوسہ نے اپنے دلائل دیے۔

وکیل نے کہا کہ واقعے کے ملزم پولیس حکام نو بجے موقع پر پہنچ گئے تھے جبکہ ایف آئی آر 11:15 منٹ پر درج ہوئی مقتولہ نور مقدم کا پوسٹ مارٹم اگلی صبح نو بجے ہوا، ایف آئی آر کا مطلب فرسٹ انفارمیشن رپورٹ ہے، مقدمہ فوری درج ہونا چاہیے اور یہاں شوکت مقدم کو مدعی بننے کی بھی ضرورت نہیں تھی، پولیس فوری مقدمہ درج کر سکتی تھی۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس عامرفاروق نے اِستِفسارکیا کہ ہماری پولیس ایف آئی آر درج کرنے میں کیوں تاخیرکرتی ہے؟

جس پر وکیل نے کہا کہ مدعی شوکت مقدم نے سی سی ٹی وی وڈیو دیکھ کر مرکزی ملزم کے والدین کو چار دن بعد نامزد کیا جو کراچی میں تھے، تھراپی ورکس کے سی ای او کی عمر73 سال ہے، جو امریکا میں تھے مگر اسے بھی ملزم بنا دیا گیا اور دو ہزار تین سے تھراپی ورکس کا شیزوفرینیا کا مریض تھا۔

جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ عام شہری پولیس والوں کے ہاتھوں مجبور ہوتا ہے، وہ جس طرف موڑ دیں، وہ مجبور ہوتا ہے، پولیس والے خود کہتے ہیں کہ آپ یوں لکھیں یا کہیں، ورنہ بات نہیں بنے گی، پولیس والوں کا بس چلے تو یہ ہر کیس میں للکارا بھی ڈالیں۔

وکیل نے کہا کہ ایف آئی آر میں قتل کا وقت صبح 10 بجے بتایا گیا تھا جبکہ پوسٹ مارٹم میں دوپہر 12:10 وقوعہ کا وقت بتایا گیا، نور مقدم کی والد یا والدہ سے 19 نہیں بلکہ 20 جولائی 2021 کو بات ہوئی اورنور مقدم کی اپنی والدہ سے 20 جولائی کی صبح پونے گیارہ بجے بات ہوئی جس کے بعد بتایا جاتا ہے کہ فون بند ملا،

وکیل نے مزید کہا کہ اگر والدہ کا بیان آ جاتا تو پتہ چلتا کہ دونوں کی آپس میں کیا بات ہوئی؟ 20 جولائی کی شام جب نور مقدم نے بھاگنے کی کوشش کی، تو اس وقت بھی موبائل فون مقتولہ کے ہاتھ میں تھا۔ پراسیکیوشن کو تمام شواہد کی وضاحت کی ضرورت پیش آ رہی ہے اور اس کیس میں شواہد کی کڑیاں ایک دوسرے سے ملتی نظر نہیں آ رہیں۔

وکیل کا کہنا تھا کہ کیس سے متعلق تمام حقائق سامنے رکھ چکا ہوں، ظاہر جعفر کا قتل کا کوئی محرک یا ارادہ نہیں تھا۔

چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ دونوں ایک ساتھ اکٹھے تھے، ایک کا قتل ہوا اور کوئی باہر سے بھی نہیں آیا اور باہر ملازم موجود تھے، تھراپی ورکس والے بھی آئے مگر ان کے بارے میں آپ نے کوئی دفاع نہیں لیا، اس واقعہ کو آپ خود کشی کا رنگ بھی نہیں دے سکتے کہ مقتولہ کا گلا کاٹا گیا ہے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس عامرفاروق نے مزید کہا کہ اس کو سامنے رکھتے ہوئے پھر کیا بات ذہن میں آتی ہے؟ آپ نے اپنے دفاع میں یہ بات بھی نہیں کی کہ ملزم منشیات کا عادی تھا، ہوسکتا ہے کہ پراسیکیوشن کے کیس میں ایک سو ایک قانون سقم ہوں۔

وکیل نے کہا کہ شواہد میں ایک چھری بطور آلہ قتل برآمد ہوئی، ظاہر جعفر کو گرفتار کیا تو وہ بندھا ہوا تھا۔

جس کے بعد چیف جسٹس نے ریماکس دیے کہ عمر قید بھی دراصل عمر قید نہیں رہتی، بہت ساری رعایتوں کے بعد سزا کی مدت کم رہ جاتی ہے۔

وکیل نے پانے دلائل میں مزید کہا کہ یہ واقعہ جاوید اقبال اور چھوٹو گینگ جیسے واقعات سے مختلف ہے ، جاوید اقبال اور چھوٹو گینگ کیسے کیسز میں نشان عبرت بنایا جانا ضروری ہوتا ہے۔

ظاہر جعفر کے وکیل عثمان کھوسہ نے دلائل مکمل کرلئے اور دیگر سزا یافتہ مجرموں کے وکیل کل دلائل دیں گے۔

عدالت نے نور مقدم قتل کیس میں سزا یافتہ مجرموں کی سزاؤں کے خلاف اپیلوں پر سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔

Islamabad High Court

Noor Muqaddam