کیا بحریہ یونیورسٹی میں LGBTQ مخالف نشان حقیقی تھا؟
بحریہ یونیورسٹی کراچی کیمپس کے داخلی راستے کی ایک تصویر اتوار کے روز سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی گئی، جس میں ہم جنس پرستی کو فروغ دینے کی مخالفت میں ایک سائن دیکھا گیا تھا۔
سے نو ٹو ایل جی جی ٹی کیو پلس (Say No to LBGTQ+) کے اس سائن پر مبنی تصویر کو سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر شیئر کیا گیا جب کہ کیمپس میں طلباء میں بھی یہ معاملہ زیر بحث رہا۔
کئی لوگوں نے دلیل دی کہ یہ نفرت انگیز گفتگو کے دائرے میں آتا ہے۔ بعض دیگر کا کہنا تھا کہ اپنے عقائد کے مخالف ایک مسئلے پر ٹھوس موقف اختیار کرنا قابل تعریف ہے۔
جب آج نیوز نے تصویر اپ لوڈ کرنے والوں سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ یہ تصویر انہیں کسی اور کی جانب سے بھیجی گئی تھی۔
یہ تصویر سب سے پہلے یہاں ایک فیس بک پیج پر اپ لوڈ کی گئی تھی۔
اس ضمن میں بحریہ یونیورسٹی کی شعبہ تعلقات عامہ آفسر فائزہ صلاح الدین نے مذکورہ تصویر کو جعلی قرار دیتے ہوئے کہا کہ کیمپس میں ایسا کوئی نشان نصب نہیں کیا گیا۔
یونیورسٹی کے کئی طلباء کا کہنا تھا کہ ان کی طرف سے یہ نشان 4 دسمبر بروز اتوار کو اسلامی دنیا میں گومگو کی کیفیت یعنی Islamic Dilemma پر ایک کانفرنس کے لیے رکھا گیا تھا۔
بحریہ یونیورسٹی کراچی کیمپس کے ڈپٹی ڈائریکٹر مارکیٹنگ ثاقب شبل نے اس معاملے پر تبصرے کی درخواستوں کا جواب نہیں دیا ہے۔
ہم نے میڈیا ڈپارٹمنٹ سے رابطہ کیا، جس میں کوئی کامیابی نہیں ہوئی۔ ڈائریکٹر جنرل، وائس ایڈمرل خواجہ غضنفر حسین (ر) کے دفتر سے استفسارات کا بھی یہی نتیجہ نکلا۔ یعنی جواب نہیں ملا۔
ایک طالب علم نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ہمیں بتایا کہ انہوں نے داخلی دروازے پر یہ نشان دیکھا ہے۔
انہوں نے ایک مختلف تصویر شیئر کی جو ہم نے ذیل میں شامل کی ہے۔
کئی دوسرے طلباء نے تصدیق کی کہ یہ واقعہ رونما ہوا تھا اور سائن لگا گیا تھا۔ ایک طالب علم نے یونیورسٹی طلباء کے ایک نجی گروپ کی گفتگو کے اسکرین شاٹس شیئر کیے تھے۔ان کی شناخت چھپائی گئی ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ ان کی مذمت نہ کی جائے۔
گفتگو میں کہا گیا ہے کہ ”اسلامی گومگو“ پر ہونے والی کانفرنس میں ایل جی بی ٹی کیو پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے کئی مسائل پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
ڈیجیٹل فرانزک
آج نیوز نے دونوں تصاویر کا موازنہ کیا: ایک جو بحریہ یونیورسٹی نے کہا وہ اصل تصویر تھی ہے اور دوسری جس کے بارے میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ وہ ترمیم شدہ تھی۔ ہم نے پایا کہ دونوں تصویریں مختلف ہیں۔
-
بحریہ یونیورسٹی کے فیس بک پیج پر تصویر 5 دسمبر بروز پیر کو اپ لوڈ کی گئی تھی، جبکہ یونیورسٹی کا دعویٰ ہے کہ وہ تصویر ایک دن پہلے اپ لوڈ کی گئی تھی۔
-
تصاویر میں دکھائی دینے والا سائن کا سایے اور دیگر عناصر سے اشارہ ملتا ہے کہ دوسری تصویر ترمیم شدہ نہیں۔
-
دونوں تصویروں میں کئی چیزیں ایک دوسرے سے نہیں ملتیں۔ بحریہ یونیورسٹی جس تصویر کے اصلی ہونے کا دعویٰ کرتی ہے اس کے پس منظر میں دو افراد ہیں جبکہ سائن والی تصویر میں ایک شخص ہے۔ایک تصویر میں سرخ رکاوٹیں غائب ہیں۔
-
دونوں تصاویر جن زاویوں سے لی گئی ہیں ان میں واضح فرق ہے۔
جن لوگوں سے ہم نے بات کی تھی انہوں نے کہا کہ سائن بورڈ والی تصویر اصلی ہہے کیونکہ سائن کے حروف ہکس کے ساتھ بیس کے ساتھ منسلک تھے۔ تصویر میں یہ ہکس دکھانے کیلئے فوٹوشاپنگ کی غیر معمولی مہارتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم اس سوال کو اپنے قارئین کے سامنے رکھیں گے اور ڈیجیٹل ماہرین یا بحریہ یونیورسٹی کے کسی بھی طالب علم سے کہیں گے کہ وہ سچائی کے قریب جانے میں ہماری مدد کریں:
براہ کرم ذیل میں ایک تبصرہ کریں یا hussain.dada @ aaj.tv پر ہم سے رابطہ کریں۔
ہم آپ کے نام صیغہ رازمیں رکھیں گے۔
-
کیا تصویر فوٹوشاپ کی گئی ہے؟
-
کیا بحریہ یونیورسٹی کراچی کیمپس میں یہ سائن لگا تھا اور کب تک؟ براہ کرم کوئی ثبوت شیئر کریں۔
یہ خبر آج انگلش سے ترجمہ کی گئی۔ ترجمے میں نقائص کے سبب خبر کو کچھ دیر کیلئے ہٹانا پڑا جس پر ادارہ قارئین سے معذرت خواہ ہے۔
Comments are closed on this story.