توہین رسالت کا جرم ثابت ہونے پر ملزم کو دو بار سزائے موت
پشاور کی انسداد دہشتگردی عدالت نے سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی تشہیر میں ملوث ملزم کو توہینِ رسالت کا جرم ثابت ہونے پر دفعہ 295 سی کے تحت دو مرتبہ سزائے موت، توہین مذہب کا جرم ثابت ہونے پر دفعہ 295 اے کے تحت دس سال قید اور توہین امہات المؤمنین کا جرم ثابت ہونے پر دفعہ 298 اے کے تحت تین سال قید کی سزا سنا دی۔
مذکورہ ملزم کو انسداد دہشتگردی ایکٹ اور انسداد سائبر کرائم ایکٹ کی دفعات کے تحت بھی سزائیں سنائی گئی ہیں۔
انسداد دہشتگردی عدالت نمبر ایک نے زیر حراست ملزم کے خلاف مقدمے کا 24 نومبر کو محفوظ کیا گیا فیصلہ سناتے ہوئے مذکورہ ملزم کو سزائیں سنائیں۔
ملزم کو انسداد دہشتگردی ایکٹ کی دفعہ سات کے تحت پانچ سال قید اور انسداد سائبر کرائم ایکٹ کی دفعہ گیارہ کے تحت بھی تین سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔
فاضل عدالت نے مذکورہ ملزم کو مذکورہ تمام دفعات کے تحت جرمانے کی بھی سزا سنائی ہے۔
مجرم کو مجموعی طور پر 21 سال قید اور 16 لاکھ روپے جرمانہ بھی ادا کرنا ہوگا۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ استغاثہ مذکورہ ملزم کے خلاف بغیر کسی شک و شبہ کے مقدمہ ثابت کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔
عدالت نے ملزم کو سنٹرل جیل پشاور بھیجنے کا حکم دیتے ہوئے سزائے موت کی توثیق کے لئے ریفرنس پشاور ہائیکورٹ کو بھیجنے کی بھی ہدایت کی ہے۔
واضح رہے کہ لوئر دیر کی تحصیل آدنزئی سے تعلق رکھنے والے مجرم نے 20 فروری 2021 کو واٹس ایپ گروپ الحاد بمقابلہ اسلام میں توہین رسالت، توہین امہات المؤمنین اور توہین مذہب پر مبنی بدترین پوسٹ شیئر کی تھی۔
مذکورہ مجرم کے خلاف صوابی سے تعلق رکھنے والے ایک شہری نے اندراج مقدمہ کے لئے درخواست ایف آئی اے کو دی تھی۔
جس پر چار اگست 2021 کو ایف آئی اے کے انسداد دہشتگردی ونگ پشاور نے مذکورہ ملزم کے خلاف توہین رسالت، توہین امہات المؤمنین و توہین مذہب کے متعلق تعزیرات پاکستان کی دفعات اور انسداد دہشتگردی ایکٹ و انسداد سائبر کرائم ایکٹ کی بھی متعلقہ دفعات کے تحت مقدمہ درج کرتے ہوئے مذکورہ ملزم کو تحصیل آدنزئی ضلع لوئر دیر سے گرفتار کیا تھا۔
مذکورہ ملزم کے خلاف تقریباً سوا سال تک مقدمہ انسداد دہشتگردی عدالت پشاور میں چلا۔
سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی تشہیر کے حوالے سے پشاور میں یہ پہلا مقدمہ ہے جس کا فیصلہ سنایا گیا۔
Comments are closed on this story.