عمران خان پرحملے کا خدشہ: حکومت معاملے کو مد نظررکھے، عدالت
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے راولپنڈی جلسے کے دوران پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان پرحملے کے خدشے کے پیش نظرحکومت اور ریاست کو معاملہ مدنظر رکھنے کی ہدایت کردی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں پی ٹی آئی کو راولپنڈی میں جلسے کیلئے این اوسی اور تاجروں کی درخواستوں پر چیف جسٹس ہائیکورٹ عامر فاروق سماعت کر رہے ہیں۔
وکیل نے کہا کہ درخواست گزارشہرسے باہر ہیں، جس پرچیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پاکستان تحریک انصاف شہرسے باہرہے؟ وکیل نے بتایا کہ علی نوازاعوان اس کیس میں پٹیشنر ہیں اورآج دستیاب نہیں ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ صرف یہی کہنا ہے کہ جوکچھ کرنا ہے قانون کے مطابق کریں۔
ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہا کہ ان (درخواست گزار )کا توپتہ ہی نہیں ہے کہ انہوں نے کب آنا ہے؟ جس کے بعد ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ درخواست 3 نومبرکی تھی جو غیر مؤثر ہوچکی۔
پی ٹی آئی کوجلسےکی تاریخ سےآگاہ کرکےانتظامیہ سےاجازت لینےکی ہدایت
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ اس حوالے سے فیصلہ انتظامیہ نے ہی کرنا ہے، جس پرمعاون وکیل نے کہا کہ ہم انتظامیہ کو آج ہی درخواست دے دیتے ہیں۔
چیف جسٹس ہائیکورٹ کا کہنا تھا کہ آپ نے انتظامیہ کو نئی درخواست دینی ہے اور اگرمسئلہ حل نہ ہوتونئی پٹیشن بھی دائرکرسکتے ہیں، عدالت کوئی مقام تجویزنہیں کرسکتی قواعد وضوابط اورشرائط انتظامیہ کے ساتھ ہی طے ہونا ہیں۔
انہوں نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ سپریم کورٹ سے بھی اس متعلق آرڈر آچکا ہے۔
راستوں کی بندش کیخلاف تاجروں کی پٹیشن پرچیف جسٹس ہائیکورٹ نے ریمارکس دیے کہ تاجروں کی درخواست پرکیا کریں؟ ابھی راستے بند تونہیں؟ اگرکوئی صوبہ وفاق کی ڈائریکشن نہیں مانتا توپھرکیا ہوگا؟ اگرانہوں نے کہہ دیا کہ راستے بند نہیں ہوںگے توٹھیک ہے۔
عدالت میں پیش کی گئی رپورٹ کے مطابق جلسے کے دوران عمران خان پرحملے کے خدشے کے تناظرمیں چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے ریمارکس دیے کہ انٹیلی جنس رپورٹس کے مطابق عمران خان پر حملے کےخدشات ہیں، تو حکومت اور ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس چیزکومدنظر رکھے۔
انہوں نے کہا کہ احتجاج کرنا سیاسی اورغیرسیاسی جماعتوں کا حق ہے لیکن عام شہریوں اورتاجروں کے بھی حقوق ہیں جومتاثر نہیں ہونے چاہئیں۔
چیف جسٹس عامرفاروق نے کہا کہ ہائی کورٹ ڈپٹی کمشنرکی ذمہ داریاں نہیں سنبھال سکتی اگرآپ ڈپٹی کمشنرکے کسی آرڈرسےمتاثرہوئے توعدالت آئیں گے۔
ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے کہا کہ مارچ نہیں روک سکتے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے جی ٹی روڈ، موٹروے اوردیگر شاہراہیں بلاک کیں۔
چیف جسٹس نے وکیل سے مکالمے میں کہا کہ آپ کو بھی ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہئے جس پر وکیل پٹیشنر نے کہا کہ اسلام آباد کے راستوں میں اب بھی کنٹینرزکھڑے ہیں۔
مارچ راولپنڈی کب پہنچے گا؟
یہ بات قابل ذکرہے کہ حقیقی آزادی مارچ کا آغاز 16 اکتوبرکو لاہورسے ہوا تھا اور راولپنڈی میں 3 نومبرکو جلسے کے لیے این او سی مانگا گیا تھا، اس دوران پارٹی قیادت کے اپنے فیصلے اور پھروزیرآباد میں عمران خان کے کنٹینر پرفائرنگ کے بعد مارچ تاخیرکاشکار ہوا اور آج یہ شاہ محمود کی قیادت میں راولپنڈی کی تحصیل گوجر خان پہنچ رہا ہے۔
راولپنڈی سے گوجرخان بمشکل ایک گھنٹے کی مسافت پرہے، اس لحاظ سے کل یاپرسوں ہرصورت میں حقیقی آزادی مارچ کو راولپنڈی پہنچ جانا چاہیے۔
پی ٹی آئی کی جانب سے جلسے کی اجازت کیلئے دائردرخواست اور تاجروں کی جانب سے راستوں کی بندش سے متعلق درخواست کو یکجا کر کے سُنا جارہا ہے اور اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے فیصلہ آنے کے بعد ہی تعین ہوسکے گا کہ ممکنہ طور پرکل راولپنڈی پہنچنے والی پی ٹی آئی یہ جلسہ کب کرے گی۔
Comments are closed on this story.