پاکستان سمیت دنیا بھر کے مرد تیزی سے بانجھ پن کی طرف بڑھنے لگے
محققین کی ایک بین الاقوامی ٹیم نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان سمیت عالمی سطح پر کئی ممالک کے مرد بانجھ پن کی جانب تیزی سے بڑھ رہے ہیں، جس سے نسلِ انسانی کو معدومیت خدشہ لاحق ہوگیا ہے۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران دنیا بھر میں اسپرمز (نطفہ) کی تعداد میں نمایاں کمی کا انکشاف ہوا ہے۔
مردانہ نطفہ پروٹین سے بنے تولیدی جراثیم پر مشتمل گاڑھا مادہ ہوتا ہے، اس مادے میں جراثیم کی تعداد کا تجزیہ ”اسپرم کاؤنٹ“ کہلاتا ہے، نطفے میں جراثیم کی تعداد معلوم کرنے کرنے کے اس طریقے کو سیمنوگرام یا سپرمیوگرام کہا جاتا ہے۔
محققین کا کہنا ہے کہ اسپرم کاؤنٹ نہ صرف انسانی زرخیزی بلکہ مردانہ صحت کے حوالے سے کئی اشارے دیتا ہے، جس کی کم سطح دائمی بیماری، خصیوں کے کینسر اور زندگی میں کمی کے بڑھتے ہوئے خطرے سے منسلک ہے۔
نطفہ میں جراثیم کی کمی جدید ماحول اور طرز زندگی سے متعلق عالمی بحران کی عکاسی کرتی ہے، جس سے انسانی انواع کی بقا کو خطرات لاحق ہیں۔
ہیومن ری پروڈکشن اپڈیٹ جریدے میں منگل کو شائع ہونے والی اس تحقیق میں 53 ممالک کے ڈیٹا کا استعمال کیا گیا، جن میں پاکستان بھی شامل تھا۔
پاکستان کے علاوہ دیگر ممالک میں آسٹریلیا، بنگلہ دیش، بیلجیم، برازیل، کینیڈا، چلی، چین، کیوبا، جمہوریہ چیک، ڈنمارک، مصر، ایسٹونیا، فن لینڈ، فرانس، جرمنی، یونان، گرین لینڈ، بھارت، انڈونیشیا، ایران، عراق، آئرلینڈ، اسرائیل، اٹلی، جاپان، اردن، کینیا، لٹویا، لیبیا، لتھوانیا، ملائیشیا، میکسیکو، نیدرلینڈز، نیوزی لینڈ، نائجیریا، ناروے، پیرو، پولینڈ، روس، سنگاپور، سلووینیا، جنوبی افریقہ، سپین، سویڈن، تائیوان، تنزانیہ، متحدہ جمہوریہ تھائی لینڈ، تیونس، ترکی، یوکرین، برطانیہ اور امریکہ شامل ہیں۔
اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ جنوبی امریکہ، ایشیا اور افریقہ میں مردوں کا کُل اسپرم کاؤنٹ اور نطفہ کے ارتکاز میں نمایاں کمی ہوئی ہے جو پہلے شمالی امریکہ، یورپ اور آسٹریلیا میں دیکھی گئی تھی۔
مطالعہ عالمی سطح پر کُل اسپرم کاؤنٹ اور نطفہ کے ارتکاز میں سن 2000 کے بعد تیزی سے ہونے والی کمی کو ظاہر کرتا ہے۔
تحقیق میں شامل اسرائیل میں یروشلم کی عبرانی یونیورسٹی کے پروفیسر ہاگائی لیوائن کا کہنا ہے کہ، ”مجموعی طور پر ہم گزشتہ 46 سالوں میں اسپرم کی تعداد میں عالمی سطح پر 50 فیصد سے زیادہ کی نمایاں کمی دیکھ رہے ہیں، یہ کمی حالیہ برسوں میں مزید بڑھی ہے۔“
اگرچہ موجودہ مطالعہ میں اسپرم کی تعداد میں کمی کی وجوہات کا جائزہ نہیں لیا گیا، لیکن لیوائن نے حالیہ تحقیق میں اشارہ دیا کہ طرز زندگی کا انتخاب اور ماحول میں کیمیکلز اسپرمز کی نشوونما کو بری طرح متاثر کر رہے ہیں۔“
انہوں نے کہا کہ ”ہمارے ہاتھ میں اب ایک سنگین مسئلہ ہے جسے اگر حل نہ کیا گیا تو بنی نوع انسان کی بقا کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔“
لیوائن نے کہا کہ، ”ہم فوری طور پر تمام انواع کے لیے صحت مند ماحول کو فروغ دینے اور ہماری تولیدی صحت کے لیے خطرہ بننے والے حالات اور رویوں کو کم کرنے کے لیے عالمی اقدام کا مطالبہ کرتے ہیں۔“
اکاہن سکول آف میڈیسن میں پروفیسر شانا سوان نے زور دیا کہ اسپرم کی کم تعداد نہ صرف مردوں کی زرخیزی کو متاثر کرتی ہے، بلکہ عام طور پر مردوں کی صحت کے لیے سنگین اثرات مرتب کرتی ہے، اور یہ دوسرے منفی رجحانات کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں، جن میں خصیوں کا کینسر بھی شامل ہے۔
سوان نے کہا کہ ”مردانہ نطفہ کے ارتکاز اور نطفہ کی کل تعداد میں پریشان کن کمی ہر سال ایک فیصد سے زیادہ ہے، جس سے خصیوں کا کینسر، ہارمونل رکاوٹ اور جینیاتی پیدائشی نقائص کے ساتھ ساتھ دیگر منفی رجحانات کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔“
Comments are closed on this story.