Aaj News

جمعرات, نومبر 21, 2024  
18 Jumada Al-Awwal 1446  

گلگت بلتستان کی طالبات نے خوف کو شکست دے دی

گلگت بلتستان میں لڑکیوں اور ان کی تعلیم کے بیچ اب کوئی نہیں آسکتا۔
اپ ڈیٹ 10 نومبر 2022 02:35pm

کچھ نامعلوم نقاب پوش گزشتہ ہفتے گلگت بلتستان میں لڑکیوں کے ایک سکول کو آگ لگانے میں بھلے ہی کامیاب ہوگئے ہوں، لیکن وہ علاقے میں خوف پھیلانے کے اپنے مقصد میں ناکام رہے ہیں، کیونکہ دیامر کے لوگوں نے اپنی آستینیں چڑھا کر دوبارہ اس کول کی تعمیر شروع کر دی ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ ہم 72 گھنٹوں میں اسے دوبارہ کھڑا کردیں گے۔

یہی وجہ ہے کہ ڈان نیوز کے شو ”ذرا ہٹ کے“ میں گفتگو کرتے ہوئے گلگت بلتستان کے چیف سیکرٹری محی الدین وانی نے کہا ”اس بار معاملہ مختلف ہے۔ اس علاقے میں دہشت گرد حملوں کی ایک تاریخ تھی۔ اس گروپ نے تقریباً ہمیشہ ذمہ داری قبول کی اور انہیں عام طور پر سیاسی پشت پناہی حاصل تھی۔ لیکن اس بار کسی نے بھی اس واقعے کی ذمہ داری نہیں لی ہے۔“

وانی نے حملہ آوروں کو چھ سے سات ”بزدلوں“ کے گروپ کے طور پر بیان کیا جو جمعہ کی رات تقریباً دو بجے چہروں کو ڈھانپے ہوئے اندھیرے میں آئے اور گیٹ کیپر کو یرغمال بنایا۔

ان کا خیال ہے کہ وہ کوئی ’’بڑا گروہ‘‘ نہیں بلکہ چھوٹے مجرم ہیں جو انتظامیہ اور پولیس کے اعصاب کو جانچنا چاہتے تھے۔

یہ واقعہ آٹھ اکتوبر کو بابوسر ٹاپ اسٹیڈ آف سے بھ مختلف ہے جب گلگت بلتستان کے سینئر وزیر کرنل (ر) عبید اللہ بیگ کو کچھ ”عسکریت پسندوں“ نے یرغمال بنایا تھا اور دس دن کا الٹی میٹم دیا تھا۔ انہیں گروپ کے ساتھ مذاکرات کے بعد رہا کیا گیا۔

اس کے باوجود حکومت اور عوام (ایک جرگہ اور علمائے کرام) دونوں نے آتشزدگی کی مذمت کی اور فیصلہ کیا کہ اسکول کو نہ صرف تین دن کے اندر دوبارہ تعمیر کیا جائے گا بلکہ پہلے سے بڑا اور بہتر بنایا جائے گا۔ لڑکیوں کو اپنی آئی ٹی لیب، لائبریری اور کھیلوں کی سہولیات میسر ہوں گی۔

گرلز مڈل سکول، تحصیل کے چھ سرکاری سکولوں میں سے ایک ہے۔ یہ نرسری سے کلاس 8 تک چلتا ہے، اس میں تقریباً 60 طالبات ہیں اور دو ماہ قبل کمیونٹی کی طرف سے عطیہ کی گئی زمین پر کھولی گئی تھی۔

جمعرات کو علاقے کی ہزاروں لڑکیوں نے اپنی ساتھی طالبات کی حمایت کا اظہار کرنے کے لیے عوامی سطح پر احتجاج کیا، جو نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی کی نظروں میں ایک مثال بن گئیں، ملالہ پر 2012 میں سوات میں لڑکیوں کی تعلیم کی وکالت کرنے پر عسکریت پسندوں نے حملہ کیا تھا۔

ملالہ نے ٹوئٹر پر جاری ایک پیغام میں لکھا، ”یاد رکھیں، آپ کے خواب لڑنے کے قابل ہیں۔ یہ سن کر دل دہل جاتا ہے کہ لڑکیوں کے اسکول کو جلا دیا گیا ہے۔ مجھے امید ہے کہ اسے جلد از جلد دوبارہ بنایا جائے گا اور طالبات بحفاظت واپس لوٹ سکیں گی۔“

دیامر یوتھ موومنٹ نے بدھ کو بھی شہر میں مظاہرے کئے۔

ان کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ”ہم دیامر کے عوام سکول کو نذر آتش کرنے کی کارروائی کی شدید مذمت کرتے ہیں اور حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ان شرپسندوں اور ایسے عناصر کو بے نقاب کیا جائے اور انہیں سزا دی جائے۔“

 دیامر یوتھ موومنٹ کا بدھ کے روز چلاس میں ڈیرل واقعہ کے خلاف احتجاجی مظاہرہ۔ (تصویر بزریعہ مصنف)
دیامر یوتھ موومنٹ کا بدھ کے روز چلاس میں ڈیرل واقعہ کے خلاف احتجاجی مظاہرہ۔ (تصویر بزریعہ مصنف)

واقعے کی ایف آئی آر منگل کو گماری ڈیرل پولیس اسٹیشن میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 6 (دہشت گردی ایکٹ) اور 7 (دہشت گردی کی سزا) کے تحت درج کی گئی۔

دفعہ 34 (متعدد افراد کی طرف سے مشترکہ طور پر کیے گئے کام)، 341 (غلط افعال پر پابندی کی سزا)، 427 (شرارت جس سے پچاس روپے کی رقم کو نقصان پہنچے) اور 431 (گھر کو تباہ کرنے کے ارادے سے آگ یا دھماکہ خیز مواد کے ذریعے فساد) پاکستان پینل کوڈ کو بھی رپورٹ میں شامل کیا گیا ہے۔

ایف آئی آر ہیڈ ماسٹر رحمت غنی نے خود درج کروائی تھی۔

اور اس بار پیغام واضح ہے، یہ وہ گلگت بلتستان نہیں ہے جسے آپ 2005 اور 2018 میں جانتے تھے۔

گلگت بلتستان

Diamer

Girls School Burn Down

Darel