ڈی جی آئی ایس آئی کو وضاحت کیلئے بذات خود کیوں سامنے آنا پڑا
پاک فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار اور ملک کی پرائم خفیہ ایجنسی کے سربراہ ڈائریکٹر جنرل ندیم انجم نے معمول سے ہٹ کر ایک پریس کانفرنس کی، اور ڈی جی آئی ایس آئی نے میڈیا کے سامنے نہ آنے کا اپنا عہد توڑتے ہوئے اس میں شرکت کی جس پر کئی حلقوں کی جانب سے حیرت کا اظہار کیا گیا۔
سینئیر صحافی اور آج نیوز سے وابستہ اینکر پرسن شوکت پراچہ نے ڈی جی آئی ایس آئی کی پریس بریفنگ پر حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے ان سے سوال پوچھا کہ کیا ایسے حالات تھے کہ آپ کو خود آکر اپنا ذاتی مؤقف بتانا پڑا؟
جس پر ڈی جی آئی ایس آئی کا کہنا تھا کہ“آپ کو حیران ہونے کی ضرورت نہیں ہے، ہم ڈی جی آئی ایس پی کی ترجمانی سے مطمئن ہیں، لیکن میں نے یہ ضرورت محسوس کی ایجنسی کے کچھ پیچیدہ اور پوشیدہ معاملات ہیں جو ہر بندے کو معلوم نہیں ہوتے، وہ اگر میری جگہ کوئی اور کہے گا تو وہ احسن اقدام نہیں ہے، اس لیے انہیں بیان کرنے کی ذمہ داری میں اٹھانا چاہتا ہوں، میں نہیں چاہتا کہ جو معلومات ان کے پاس نہیں ہے وہ میں کہوں کہ آپ میری طرف سے بول دیں، اس لئے میں خود آیا ہوں کہ کہیں اگر ضرورت پڑی تو جھوٹ کے جواب میں سچ کی جو چپ ہے وہ ختم کرسکوں۔“
پاک فوج کے ترجمان لیفٹننٹ جنرل بابر افتخار نے اس حوالے سے کہا کہ ”ڈی جی آئی ایس آئی کو یہاں پر اس لیے آنا پڑا کہ ایک بیک گراؤنڈ ہے جس کا انہیں اچھی طرح سے معلوم ہے کہ کب کہاں پر کہا گیا اور کیا ہوا۔“
انہوں نے مزید کہا کہ ”آج کل فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف ایک منظم مہم چلائی جارہی ہے، اس لیے ضروری سمجھا گیا کہ ہم دونوں ایک ساتھ بیٹھ کر آپ سے بات کریں اور آپ کے سوالوں کا جواب دیں اور قوم کے سامنے واضح کریں کہ سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا ہے۔“
انہوں نے واضح کیا کہ ”یہ روٹین نہیں بنے گی۔“
لانگ مارچ اور اس سے پیدا ہونے والے حکومتی عدم اعتماد کے سوال پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ”دنیا کے تمام ممالک میں اس طرح کے جمہوری اجتماع ہوتے ہیں، ان کے اندر مختلف باتیں کی جاتی ہیں، ہر حکومت کیلئے اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ اس لیڈرشپ کا دنیا میں وقار کم ہو جائے گا۔ پاکستان ایک جمہوری ملک ہے اور جمہوریت میں ایسی چیزیں ہوتی رہتی ہیں۔ اس سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔“
Comments are closed on this story.