عمران خان کو تین برس جیل کا بھی سامنا
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے خلاف توشہ خانہ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے فوجداری شق بھی استعمال کرلی ہے جس کے نتیجے میں سابق وزیراعظم کو تین برس تک قید کی سزا کا خدشہ ہو سکتا ہے۔
الیکشن کمیشن کے بینچ نے عمران خان کیخلاف جس ریفرنس پر فیصلہ دیا وہ آئین کے آرٹیکل 63 ون تھری کے تحت کمیشن کو بھیجا گیا تھا اور اس شق کے تحت آنے والے ریفرنس پر اگر کوئی رکن پارلیمنٹ نااہل قرار پائے تو وہ پارلیمنٹ کا رکن نہیں رہتا۔ اسی آرٹیکل کی شق 63 ون پی کے تحت اگر کوئی شخص پاکستان کے کسی بھی قانون کے تحت نااہل قرار دے دیا جائے تو وہ پارلیمنٹ کا رکن نہیں بن سکتا۔
عمران خان کی نااہلیت تو آرٹیکل 63 کی ان دو ذیلی شقوں کے سبب ہوئی ہے تاہم الیکشن کمیشن آف پاکستان نے الیکشن ایکٹ 2017 کو بھی اپنے فیصلے کے لیے استعمال کیا ہے اور اس کی ایک متعلقہ شق کا فوجداری استعمال بھی ہے۔ یہی وہ نکتہ ہے جو عمران خان کے لیے بڑے فوجداری مسائل پیدا کر سکتا ہے۔
مزید پڑھیے:62 ون ایف کے بجائے 63 ون پی، عمران کتنے سال کیلئے نااہل ہوئے
الیکشن ایکٹ 2017 کی شق 173تحت کسی امیدوار کو انتخابی فائدہ یا نقصان پہنچانے کے لیے جھوٹا بیان دینا، شائع کرنا یا جمع کرانا جرم ہے اور اس کی سزا تین برس تک قید یا ایک لاکھ روپے تک جرمانہ یا دونوں ہوسکتی ہیں۔ عمران خان کو ایکٹ کی 167 کے تحت بھی کرپٹ پریکٹسز کا مرتکب قرار دیا گیا ہے۔
الیکشن ایکٹ کی ہی ایک اور شق 137 کا بھی اطلاق اس مقدمے میں ہوا ہے۔ 137 کے تحت اراکین پارلیمنٹ پر لازم ہے کہ وہ ہر سال اپنے گوشوارے الیکشن کمیشن کو جمع کرائیں۔
توشہ خانہ ریفرنس میں عمران خان پر الزام تھا کہ انہوں نے توشہ خانہ سے تحائف لے کر فروخت کیے اور ان کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم اپنے گوشواروں میں ظاہر نہیں کی۔ اس غلط بیانی پر ان کے خلاف الیکشن ایکٹ کی شق 137 کا اطلاق ہوا۔
سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد نے آج نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے منگوائے گئے ریکارڈ کی روشنی میں ریفرنس کا فیصلہ دیا ہے۔ جس کے تحت عمران خان پانچ برس کے لیے نااہل قرار پائے ہیں اور صادق اور امین نہیں رہے۔ تاہم یہ اس معاملے کا سویلین پہلو ہے۔ جب کہ فوجداری پہلو سے عمران خان کو تین برس قید ہوسکتی ہے۔
Comments are closed on this story.