پارلیمانی پارٹی کی اکثریت سربراہ کیخلاف ووٹ دے سکتی ہے- سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ
سپریم کورٹ آف پاکستان نے آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح پر تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ پارلیمانی پارٹی کے اکثریتی اراکین اگر اپنے سربراہ کے خلاف ووٹ دیں تو وہ 63 اے کے تحت نااہل نہیں ہوں گے۔
عدالت عظمیٰ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے 17 مئی کو تین دو کی اکثریت سے 63 اے کی تشریح پر مختصر فیصلہ جاری کیا تھا جس میں قرار دیا گیا تھا کہ پارٹی سے مںحرف ہونے والے رکن اسمبلی کا ووٹ شمار نہیں ہوگا جب کہ پارٹی ہدایات کے خلاف ووٹ ڈالنے پر وہ نااہل بھی قرار پائے گا۔البتہ نااہلی کی مدت کتنی ہوگی اس کا تعین پارلیمنٹ قانون سازی کے ذریعے کرے۔
آئین کے اس آرٹیکل کی تشریح کے لیے صدر عارف علوی نے ریفرنس عدالت عظمیٰ کو بھیجا تھا۔ عدالتی فیصلے کے نتیجے میں نہ صرف پنجاب اسمبلی کے وہ 20 پی ٹی آئی اراکین نااہل ہوگئے تھے جنہوں ںے حمزہ شہباز کو ووٹ دیا تھا بلکہ حمزہ شہباز کی وزارت عظمیٰ بھی ختم ہوگئی۔
اس مختصر فیصلے کے کچھ عرصے بعد ہی اس وقت دلچسپ صورت حال پیدا ہوئی جب مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین نے پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ (ق) کے اراکین اسمبلی کو ہدایات جاری کیں کہ وہ حمزہ شہباز کو ووٹ دیں۔ تاہم ان اراکین نے پارٹی سربراہ کی ہدایات کے برخلاف چوہدری پرویز الہیٰ کو ووٹ دیا جس کے بعد معاملہ عدالت پہنچا۔ سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ پارٹی سربراہ کے بجائے پارلیمانی پارٹی کے سربراہ کی ہدایات پر عمل اراکین کے لیے لازمی ہے اور اگر وہ اس پر عمل نہ کریں تو نااہل قرار پائیں گے۔
اب آرٹیکل 63 اے کے تفصیلی فیصلے میں اس بات کی مزید وضاحت سامنے آئی ہے۔
جسٹس منیب اختر نے فیصلے کے پیراگراف نمبر 113 میں تحریر کیا ہے کہ دوران سماعت ”منتخب آمریت“ کا سوال بھی اٹھایا گیا تاہم یہ معاملہ اسکروٹنی سے بچ نہیں سکتا۔
عدالت نے لکھا کہ اس تفصیلی فیصلے میں اوپر کے پیراگرافس پہلے ہی قرار دیا جا چکا ہے 63اے کے تحت ووٹ کس کو دینا ہے یہ ہدایات جاری کرنے کا کا اختیار پارلیمانی پارٹی کو ہے پارٹی سربراہ کو نہیں۔ اگر پارٹی سربراہ بطور وزیراعظم یا وزیراعلیٰ اپنی پارلیمانی پارٹی کے اکثریتی اراکین کا اعتماد کھو بیٹھتا ہے اور کسی دوسرے رہنما کو آگے آنے کی اجازت دینے کو تیار نہیں ہوتا تو اسے عدم اعتماد کے ووٹ کا سامنا ہو سکتا ہے۔ صدر یا وزیراعلیٰ کے معاملے میں گورنر اسے اعتماد کا ووٹ ڈالنے کے لیے کہہ سکتے ہیں۔
عدالت نے لکھا کہ اگر ایسا ووٹ ہوتا ہے اور پارلیمانی پارٹی اکثریتی بنیاد پر فیصلہ کرتے ہوئے (پارٹی سربراہ کے حق میں ووٹ دینے کی) ہدایات جاری کرنے سے انکار کردیتی ہے تو اراکین پارلیمنٹ اپنی مرضی سے ووٹ دینے کے لیے آزاد ہیں اور ان پر آرٹیکل 63 اے کا اطلاق نہیں ہوگا۔ ایسی صورت میں پارٹی رہنما یا تو عدم اعتماد کا ووٹ لینے میں ناکام ہو جائے گا یا اس کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہو جائے گی۔ دونوں صورتوں میں منتخب آمریت عہدے پر نہیں رہے گی۔
تفصیلی فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ پارلیمانی پارٹی ہدایات کے خلاف ووٹ دینے والے کی نااہلی کا تعین پارلیمنٹ قانون سازی کے ذریعے کرے تاہم ایسا ووٹ دینے والا اپنی سیٹ سے ہاتھ دھو بیٹھنے کے بعد بطور آزاد امیدوار یا اس پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ سکتا ہے جس کے کہنے پر اس نے ووٹ دیتا اور اگر وہ ہار جاتا ہے تو یہ ذلت بھی اس کے لیے سزا ہوگی۔
سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ مختصر فیصلے کے پانچ ماہ بعد آیا ہے۔ مختصر فیصلے کے وقت دو جج صاحبان جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے اکثریتی رائے سے اختلاف کیا تھا اور اختلافی نوٹس بھی تحریر کیے تھے۔
Comments are closed on this story.