اسلام آباد پولیس میں ملازمت کا اشتہار، سوشل میڈیا نئی بحث کی زد میں
اسلام آباد پولیس کی جانب سے ”کانسٹیبل“ کے عہدوں کے لیے نوکریوں کے اشتہار کی ایک حالیہ پوسٹ سے دائیں بازو کے عناصر جو پاکستان کے سیاسی اور میڈیا منظر نامے میں برتری رکھتے ہیں سیخ پا ہوگئے ہیں۔
اسلام آباد پولیس کی جانب سے جاری اشتہار میں تمام جنسوں کو ملازمت کے لیے یکساں مواقع فراہم کیے جانے کا دعویٰ کیا گیا۔
اسلام آباد کیپیٹل پولیس میں پاکستان بھر سے کانسٹیبل کی 1668آسامیوں پربھرتی کا اعلان کر دیا گیا ہے۔
— Islamabad Police (@ICT_Police) October 3, 2022
امیدوار اسلام آباد پولیس کی ویب سائٹ کے ذریعے اشتہارکے 15دنوں کےاندر اپنی درخواستیں آنلائن بغیر کسی فیس کے جمع کر وائیں۔بھرتی میں تمام اصناف کو برابری کی سطح پرمواقع دئیےگئےہیں۔1/4 pic.twitter.com/aJE5SnA1mm
یہ تشہیری پوسٹ ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب پاکستان ”ٹرانسجینڈر ایکٹ“ معاملے پر گرما گرم بحث کی لپیٹ میں ہے۔ ٹی وی ٹاک شوز، سوشل میڈیا یہاں تک کہ ڈرائنگ رومز اور گلیوں کے کونوں پر بھی اس پر بحث کی جارہی ہے۔
مذکورہ ایکٹ کے تحت ”ٹرانس جینڈرز“ خود اپنی شناخت مختص کرسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر کسی مرد کو لگے کہ وہ عورت ہے تو شناختی کارڈ میں خود کو عورت درج کرواسکتا ہے۔ بل میں اس کے مزید کئی پہلو موجود ہیں۔
بحث اس وقت شروع ہوئی جب دائیں بازو کے ایک سینیٹر نے جنس کا تعین کرنے کے لیے میڈیکل کی تشکیل کا مطالبہ کیا۔
انہوں نے دلیل دی کہ اس قانون سازی کی حمایت کرنے والوں نے خواجہ سراؤں کے حقوق کے تحفظ کی آڑ میں ہم جنس پرستی کے تحفظ کو قانونی شکل دینے کے لیے چور راستہ اختیار کیا ہے۔
اس قانون کے خلاف ”الزامات“ کی قیادت کرنے والوں میں سے ایک متنازع میڈیا شخصیت اوریا مقبول جان بھی ہیں۔
وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کی ماتحت اسلام آباد پولیس ٹرانسجنڈر ایکٹ کے تحت کانسٹیبل بھرتی کر رہی ہے ۔ ہم جنس پرست بغیر کسی میڈیکل ٹسٹ بھرتی کئیے جائیں گے ۔ حکومت میں موجود سیاسی علماء کرام ، اور دیکر پارٹیوں کے کلمہ گو ممبران اسمبلی اپنی خاموشی پر آخرت میں جواب سوچ لیں pic.twitter.com/6zIOEqJRSu
— Orya Maqbool Jan (@OryaMaqboolJan) October 3, 2022
انہوں نے ٹویٹر پر اپنے ساتھ لاکھ سے زائد فالوورز کیلئے ٹوئٹر پر جاری پیغام میں لکھا، ”وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کی ماتحت، اسلام آباد پولیس ٹرانس جینڈر ایکٹ کے تحت کانسٹیبلز کی بھرتی کر رہی ہے۔“
انہوں نے لکھا کہ ”ہم جنس پرست بغیر کسی میڈیکل ٹیسٹ کے بھرتی کئے جائیں گے۔“
یہ بھی پڑھیں: ٹرانس جینڈرپرسنز ایکٹ2018 : ایسے حقائق جو آپ نہیں جانتے
سینیٹر مشتاق احمد خان جنہوں نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ ٹرانسجینڈر ایکٹ ہم جنس شادی کی اجازت دے گا، اشتہار کے بعد اب ٹوئٹ میں لکھتے ہیں کہ ”اس (اشتہار) کا مطلب ہے کہ ایک مرد، جو خود کو عورت کے طور پر شناخت کرنے کا دعویٰ کرتا ہے، ایک خاتون پولیس اہلکار کے طور پر بھرتی ہو سکتا ہے۔ وہ شخص، جس کے پاس ’X‘ بطور جنس کے ساتھ ایک ٹرانس ویمن کارڈ ہے، وہ خواتین کی جسمانی تلاشی لے گا۔“
یہ ہےٹرانسجینڈرقانون کےنتائج
— Senator Mushtaq Ahmad Khan (@SenatorMushtaq) October 2, 2022
اسلام آبادپولیس کےاشتہارمیں مرضی کی صنفی شناخت کی بنیادپرٹرانسجنیڈرکی بھرتی
1-یعنی کوئی مردٹرانس ویمن کاایکس کارڈلیکرخواتین پولیس کیساتھ بھرتی
2-مردٹرانس ویمن کےایکس کارڈکیساتھ خواتین کی جسمانی تلاشی لےگا
3-اسکےساتھ یہ انٹرسیکس(خنثی)کےحقوق پرڈاکہ ہے۔ pic.twitter.com/aqkXrtt8TJ
یہ قانون جسے عام طور پر ٹرانس جینڈر ایکٹ کے نام سے جانا جاتا ہے، مسلم لیگ (ن) کے دور حکومت کے آخری دنوں میں اس وقت پیش کیا گیا تھا جب شاہد خاقان عباسی وزیر اعظم تھے۔
پاکستان پیپلز پارٹی ک سینیٹرز روبینہ خالد، روبینہ عرفان، ثمینہ سعید، کلثوم پروین، کریم احمد خواجہ نے اس بل کو پیش کیا تھا۔
جبکہ مسلم لیگ ن، پی پی پی، پی ٹی آئی سمیت تمام جماعتوں نے متفقہ طور پر اس کی حمایت میں ووٹ دیا اور اسے قانون بنایا۔
Comments are closed on this story.