Aaj News

منگل, نومبر 05, 2024  
02 Jumada Al-Awwal 1446  

اسلام آباد پولیس میں ملازمت کا اشتہار، سوشل میڈیا نئی بحث کی زد میں

اشتہار میں تمام جنسوں کو ملازمت کے یکساں مواقع فراہم کیے جانے کا دعویٰ کیا گیا۔
شائع 03 اکتوبر 2022 04:49pm
فائل فوٹو
فائل فوٹو

اسلام آباد پولیس کی جانب سے ”کانسٹیبل“ کے عہدوں کے لیے نوکریوں کے اشتہار کی ایک حالیہ پوسٹ سے دائیں بازو کے عناصر جو پاکستان کے سیاسی اور میڈیا منظر نامے میں برتری رکھتے ہیں سیخ پا ہوگئے ہیں۔

اسلام آباد پولیس کی جانب سے جاری اشتہار میں تمام جنسوں کو ملازمت کے لیے یکساں مواقع فراہم کیے جانے کا دعویٰ کیا گیا۔

یہ تشہیری پوسٹ ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب پاکستان ”ٹرانسجینڈر ایکٹ“ معاملے پر گرما گرم بحث کی لپیٹ میں ہے۔ ٹی وی ٹاک شوز، سوشل میڈیا یہاں تک کہ ڈرائنگ رومز اور گلیوں کے کونوں پر بھی اس پر بحث کی جارہی ہے۔

مذکورہ ایکٹ کے تحت ”ٹرانس جینڈرز“ خود اپنی شناخت مختص کرسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر کسی مرد کو لگے کہ وہ عورت ہے تو شناختی کارڈ میں خود کو عورت درج کرواسکتا ہے۔ بل میں اس کے مزید کئی پہلو موجود ہیں۔

بحث اس وقت شروع ہوئی جب دائیں بازو کے ایک سینیٹر نے جنس کا تعین کرنے کے لیے میڈیکل کی تشکیل کا مطالبہ کیا۔

انہوں نے دلیل دی کہ اس قانون سازی کی حمایت کرنے والوں نے خواجہ سراؤں کے حقوق کے تحفظ کی آڑ میں ہم جنس پرستی کے تحفظ کو قانونی شکل دینے کے لیے چور راستہ اختیار کیا ہے۔

اس قانون کے خلاف ”الزامات“ کی قیادت کرنے والوں میں سے ایک متنازع میڈیا شخصیت اوریا مقبول جان بھی ہیں۔

انہوں نے ٹویٹر پر اپنے ساتھ لاکھ سے زائد فالوورز کیلئے ٹوئٹر پر جاری پیغام میں لکھا، ”وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کی ماتحت، اسلام آباد پولیس ٹرانس جینڈر ایکٹ کے تحت کانسٹیبلز کی بھرتی کر رہی ہے۔“

انہوں نے لکھا کہ ”ہم جنس پرست بغیر کسی میڈیکل ٹیسٹ کے بھرتی کئے جائیں گے۔“

یہ بھی پڑھیں: ٹرانس جینڈرپرسنز ایکٹ2018 : ایسے حقائق جو آپ نہیں جانتے

سینیٹر مشتاق احمد خان جنہوں نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ ٹرانسجینڈر ایکٹ ہم جنس شادی کی اجازت دے گا، اشتہار کے بعد اب ٹوئٹ میں لکھتے ہیں کہ ”اس (اشتہار) کا مطلب ہے کہ ایک مرد، جو خود کو عورت کے طور پر شناخت کرنے کا دعویٰ کرتا ہے، ایک خاتون پولیس اہلکار کے طور پر بھرتی ہو سکتا ہے۔ وہ شخص، جس کے پاس ’X‘ بطور جنس کے ساتھ ایک ٹرانس ویمن کارڈ ہے، وہ خواتین کی جسمانی تلاشی لے گا۔“

یہ قانون جسے عام طور پر ٹرانس جینڈر ایکٹ کے نام سے جانا جاتا ہے، مسلم لیگ (ن) کے دور حکومت کے آخری دنوں میں اس وقت پیش کیا گیا تھا جب شاہد خاقان عباسی وزیر اعظم تھے۔

پاکستان پیپلز پارٹی ک سینیٹرز روبینہ خالد، روبینہ عرفان، ثمینہ سعید، کلثوم پروین، کریم احمد خواجہ نے اس بل کو پیش کیا تھا۔

جبکہ مسلم لیگ ن، پی پی پی، پی ٹی آئی سمیت تمام جماعتوں نے متفقہ طور پر اس کی حمایت میں ووٹ دیا اور اسے قانون بنایا۔

islamabad police

Transgender Persons (Protection of Rights) Act, 2018

Senator Mushtaq Ahmad Khan

Orya Maqbool Jan