Aaj News

جمعہ, نومبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Awwal 1446  

سندھ : کمسن بچوں سے زیادتی اور تشدد کے واقعات، معصوم بچے عدم تحفظ کا شکار

ایک سال کے دوران ملک بھر سے 114 کیسز رپورٹ ہوئے، پنجاب میں 48 کیسز، کے پی میں 27 کیسز، سندھ میں 20، اسلام آباد میں 13 جبکہ بلوچستان میں چھ کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔
شائع 29 ستمبر 2022 04:43pm
تصویر بزریعہ روئٹرز
تصویر بزریعہ روئٹرز

پاکستان کے صوبہ سندھ میں کمسن بچوں سے زیادتی اور تشدد کے واقعات میں خطرناک حد تک اضافہ ہوچکا ہے، معصوم بچے عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ واقعات میں کمی اور ان سے نمٹنے کیلئے قوانین تو بنائے گئے ہیں ، لیکن کیا ان پر عمر درآمد ہو رہا ہے؟

قومی اسمبلی سے بچوں کے تحفظات کا بل چائلڈ پروٹیکشن سسٹم 2014 پاس ہوا۔

سندھ بار کاؤنسل میمبر ایڈوکیٹ عبدالغنی بجارانی کے مطابق اسبل کے تحت کمسن بچوں سے زیادتی کیس نمبر 377 کے مطابق ملزم کو عمر قید سزا ہوسکتی ہے جبکہ جرمانہ جج صاحب کی جتنا چاہیں رکھ سکتے ہیں، ایسے ملزمان کو پھانسی اور عمر قید کی سزا قانون کے مطابق ہوسکتی ہیں۔

ہیومن رائٹس کمیشن کے ممبر امداد کوسو کے مطابق بچوں کے خلاف تشدد اور جنسی زیادتی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے، ایک سال کے دوران ملک بھر سے 114 کیسز رپورٹ ہوئے، پنجاب میں 48 کیسز، کے پی میں 27 کیسز، سندھ میں 20، اسلام آباد میں 13 جبکہ بلوچستان میں چھ کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔

اسی طرح پاکستان میں 58 بچے اغوا ہوئے، پنجاب سے 22 ، کے پی سے 16 ، سندھ سے 11 ، اسلام آباد سے 5 اور بلوچستان سے 4 کیسز رپورٹ ہوئے۔

کندھ کوٹ کے تھانہ غلام سرور سرکی میں ایک بچے پر زیادتی کا مقدمہ درج ہے۔

مدعی علی بخش بکھرانی کے مطابق دس سالہ متاثرہ عبدالرحمان ان کا بھتیجا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ 19 مئی 2021 کو میں اور میرا بھتیجا عبدالعلی، اس کی بیوی رخسانہ اور واقعے کا عینی شاہد وزیر مل مینگواڑ جو رضامندی سے اسلام قبول کرکے مسلمان ہوا اور ہمارے ساتھ گھر میں رہائش پذیر تھا، میں اور میرا بھتیجا عبدالعلی اور مسمات رخسانہ گھر میں موجود تھے، ہمارے گھر کے قریب ثناء اللہ جعفری کی کریانہ کی دکان تھی، اس وقت میرا بھتیجا عبدالرحمان، ثناء اللہ جعفری کی دکان سے سودا لینے گیا، بہت وقت گزر گیا مگر میرا بھتیجا گھر واپس نہیں آیا۔ پھر میں اور عبدالعلی اور رخسانہ، عبدالرحمان کو دیکھنے دکان پر گئے۔

”وہاں پہنچے تو ثناء اللہ جعفری کی دکان پر بوقت شام 6 بجے کے دوران عبداالرحمان کی چیخنے کی آوازیں سنائیں دیں، ہم تینوں دکان کے اندر داخل ہوئے تو دیکھا کہ ملزم ثناء اللہ اور فضل محمد جعفری نے میرے بھتیجے کو بازوؤں سے پکڑا ہوا تھا ہمیں دیکھ کر دونوں ملزمان بھاگنے لگے، ہم نے پایا کہ بچے عبدالرحمان کی شلوار اتری ہوئی تھی اور وہ چیخ چیخ کر رو رہا تھا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ میرے بھتیجے کے ساتھ زبردستی زیادتی کی جارہی تھی، ہم نے بچے کو گلے لگایا اور اس کے برہنہ تن کو ڈھانپا، بچہ خوف زدہ ہوکر روتے ہوئے بتا رہا تھا کہ ملزم فضل محمد نے مجھے پکڑا پھر ملزم ثناء اللہ نے مجھے زیادتی کا نشانہ بنایا، ہم نے بچے کو فوری مقامی اسپتال IRHC تنگوانی داخل کیا جہاں پر بھتیجے عبدالرحمان کا علاج کیا گیا، چیک اپ کرنے کے بعد میڈیکل آفیسر نے واضح بیان دیا کہ بچے سے زیادتی ہوئی ہے، سرٹیفکیٹ حاصل کرکے ہم نے تھانہ غلام سرور سرکی میں سیکشن 377/617 ATA کے مطابق مقدمہ درج کیا۔“

واقعے میں ملوث دو ملزمان میں سے ایک مرکزی ملزم ثناء اللہ کو پولیس نے گرفتار کرلیا جبکہ دوسرا ملزم تاحال گرفتار نہیں ہوسکا۔ پولیس کے مطابق کیس زیر سماعت ہے۔

واقعہ کے مدعیعلی بخش بکھرانی سے رابطہ کیا گیا تو اس نے بتایا کہ پولیس صرف پیشیاں لے رہی ہے، بچے کی حالت یہ ہے کہ وہ اس وقت بھی ذہنی بیماری میں مبتلا ہے، کئی بار ایس ایس پی ذیشان صدیقی سے اس کیس کے متعلق ملے ہیں مگر صرف تسلیاں ہیں دیتے ہیں، جبکہ دوسرے ملزم کو بھی پولیس گرفتار نہیں کرسکی ہے، کیس کمزرو کیا جارہا ہے کسی با اثر شخصیت کی مداخلت ہورہی ہے۔ میرے بھتیجے کو تاحال انصاف فراہم نہیں ہوا ہے۔

تھانے کے ہیڈ محرر علی نواز عیسانی سے رابطہ کیا تو اس نے اس واقعہ کے متعلق بتایا کہ کیس عدالت میں چالان ہوچکا ہے جس کی سماعت ہوگی اور فیصلہ عدالت کرے گی، متاثرہ اہل خانہ کو انصاف ملے گا، دوسرے ملزم کی گرفتاری کے لئے چھاپے مارے جارہے ہیں، جلد انہیں بھی گرفتار کرکے عدالت تک پینچائیں گے۔

ہیڈ محرر نے مزید بتایا کہ یہاں پر صرف دو واقعات ایسے پیش آئے ہیں، ایک علیشہ سانحہ اور دوسرا مذکورہ بچے کا۔

علیشہ کیس میں ملزم ہلاک ہوگیا تھا جس کی سماعتیں اب بھی چل رہی ہیں ، دوسرا یہ واقعہ پیش آیا۔

ایک این جی او چلانے والی ڈاکٹر عائشہ دھاریجو کے مطابق سندھ میں ایک سال کے دوران کمسن بچوں سے تشدد اور زیادتی کے 30 سے زائد واقعات پیش آچکے ہیں۔ ضلع کشمور میں 2، گھوٹکی میں 5، سکھر میں 3، خیرپور میں 4 ، حیدرآباد میں 9 ، جبکہ کراچی میں 11 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔

سروے کے مطابق جنوری 2021 سے اگست 2022 تک 34 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں جن میں بچوں کو تشدد اور زیادتی کا شکار بنایا گیا ہے۔

کشمور میں سانحہ علیشہ کیس 12 نومبر 2020 کو پیش آیا تھا، اس واقعے میں کراچی سے ایک خاتون اور اس کی نابالغ بیٹی کو نوکری کا جھانسہ دے کر دو دن تک ریپ کا نشانہ بنایا گیا۔

ایس ایس پی امجد احمد شیخ نے واقعہ کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ خاتون اور اس کی نابالغ بیٹی کو واقعہ سے ایک ہفتہ قبل کراچی جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر میں مشتبہ شخص نے چالیس ہزار دیئے اور کشمور ٹول پلازہ پر نوکری کا جھانسہ دیا، خاتون مجبور تھی اور بچی کے ساتھ کراچی سے کشمور چلی آئی اور ملزم سے ملاقات کی۔ ملزم خاتون کو اپنی رہائش گاہ لے آیا اور زیادتی کا نشانہ بنایا اور پھر اسے سندھ بلوچستان کی سرحدی پٹی کے ایک شخص کے حوالے کیا، اس نے بھی خاتون سے زیادتی کی۔

خاتون نے پولیس کو بیان دیا کہ پانچ سالہ علیشہ بیٹی کو یرغمال بنایا گیا اور مجھے دوسری عورت لانے کے لئے کراچی روانہ کیا گیا، پھر خاتون نے پولیس کے سب انسپکٹر محمد بخش سے رابطہ کیا، اے ایس آئی محمد بخش اس عورت کو اپنے گھر لے آیا جہاں پر واقعے کی تفصیل کے بعد اس نے ایک ڈرامائی انداز میں ملزمان کو پکڑنے کے لئے دماغ استعمال کیا اور اپنی بیوی سے عشقیہ انداز میں بات کرائی، ملزمان کو بہلا کر ملنے پر آمادہ کیا۔

پھر علیشہ کی ماں کے ساتھ سب انسپکٹر محمد بخش نے اپنی جوان بیٹی کو روانہ کردیا، تاکہ ملزمان کو گرفتار کیا جاسکے، سب انسپکٹر نے اپنے ایس ایچ او اکبر چنہ کو اعتماد میں لیا، محمد بخش کی بیٹی کو جال بنا کر مشتبہ ملزمان کو پولیس نے تحویل میں لے لیا۔

کشمور پولی نے دفعہ 376، ریپ کیس، 344 ، 420،34 کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا۔

چھاپے کے دوران ملزم نے موقع سے فرار ہونے کی کوشش کی لیکن بعد میں اپنی ہی کوششوں سے زخمی ہو گیا۔

لاڑکانہ میڈیکل سینٹر کے طبی معائنہ کار نے تصدیق کی کہ خاتون اور اس کی نابالغ بچی دونوں کو ہی کئی افراد نے اجتماعی عصمت دری کا نشانہ بنایا۔

گھر کے مالک رفیق ملک کو بعد میں مزید تفتیش کے لیے پولیس کی تحویل میں لے لیا گیا۔

سوشل میڈیا پر یہ واقعہ سرخیوں میں آنے لگا، ٹوئٹر پر ”جسٹس فار علیشہ“ کے نام سے ٹرینڈ بھی بنا۔

ایس ایس پی امجد احمد شیخ کی سربراہی میں اے ایس آئی محمد بخش برڑو کی حکمت عملی کے باعث گرفتار علیشہ سانحہ میں ملوث ملزم میں سے ایک کو ہلاک کیا گیا جبکہ دوسرے ملزم کو گرفتار کیا ۔

محمد بخش برڑو اور ان کی فیملی کا آئی جی سندھ و دیگر وزراء نے شاہی استقبال کیا اور انعامات سے نوازا۔

ادھر علیشہ اور اس کی ماں کو سندھ حکومت نے تحفظ فراہم کرکے ملک سے باہر علیشہ کی تعلیم اور زندگی کو بہترین انداز میں گزارنے کے لئے روانہ کیا گیا۔

sindh

Child Rape

child protection