سپریم کورٹ کا پی ٹی آئی کو قومی اسمبلی میں واپسی کا مشورہ
سپریم کورٹ نے ارکان قومی اسمبلی کے استعفوں کی مرحلہ وار منظوری کے خلاف درخواست کی سماعت کے دوران پی ٹی آئی کو اسمبلی میں واپس جانے کا مشورہ دے دیا۔
چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 2رکنی بینچ نے پی ٹی آئی کے ارکان قومی اسمبلی کے استعفوں کی مرحلہ وارمنظوری کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔
پی ٹی آئی کو استعفوں کی منظوری کے خلاف درخواست تیار کرنے کا ایک اور موقع دیتے ہوئے کہا گیا کہ مرحلہ واراستعفوں کی منظوری سے متعلق ہائیکورٹ کا حکم واضح ہے،اسپیکر کی جانب سے استعفوں کی مرحلہ وار منظوری کی قانونی حیثیت ہے۔
عدالت عظمیٰ نے ریمارکس دیے کہ اسپیکرکےاختیارمیں مداخلت سےآرٹیکل 69 متاثر ہوسکتا ہے، عدالت کو مطمئن کریں کہ ہائیکورٹ کے حکم میں کیا کمی ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ عوام نے آپ کو 5 سال کے لئے منتخب کیا ہے، پی ٹی آئی پارلیمنٹ میں جا کراپنا کردارادا کرے، پارلیمان میں کردارادا کرنا ہی اصل فریضہ ہے۔
جسٹس عمرعطا بندیال نے مزید کہا کہ کروڑوں لوگ اس وقت سیلاب سے بے گھر ہوچکے ہیں، سیلاب متاثرین کے پاس پانی ہے نہ روٹی، بیرون ملک سے لوگ متاثرین کی مددکے لئے آرہےہیں۔
انہوں نے کہا کہ ملک کی معاشی حالت بھی دیکھیں، پی ٹی آئی کو اندازہ ہے 123 نشستوں پرضمنی انتخابات کے کیا اخراجات ہوں گے؟،جسٹس اطہر من اللہ نے گہرائی سے قانون کا جائزہ لے کر فیصلہ دیا ہے۔
جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ اسپیکر کے کام میں اس قسم کی مداخلت عدالت کے لئے کافی مشکل کام ہے،استعفوں کی تصدیق پروسیجرل مسئلہ ہے، پارلیمان کا احترام ہمارا فریضہ ہے، جو ہم کریں گے، ممکن ہے ایک ساتھ استعفوں سے تحریک انصاف کو سیاسی فائدہ ہو، پی ٹی آئی کا پہلا فریضہ پارلیمان میں شمولیت ہے ۔
چیف جسٹس آف سپریم کورٹ نے اپنے ریمارکس میں یہ بھی کہا کہ ڈپٹی اسپیکرقاسم سوری کے استعفوں کے آرڈر پرہم سے فیصلہ نہ لیں، ممکن ہے نئے آنے والے اسپیکراسمبلی تصدیق کرکے اپنی تسلی چاہتے ہوں، تحریک انصاف پر ذمہ داری ہے کہ چیزوں کو جلدی میں نہ کریں۔
پی ٹی آئی کے وکیل فیصل چوہدری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ قاسم سوری نے تحریک انصاف کے استعفے منظورکرلیے تھے، استعفے منظورہوجائیں تو دوبارہ تصدیق نہیں کی جا سکتی ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ سابق ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کے استعفوں کی منظوری کے آرڈرمیں کچھ بھی نہیں ہے، اس طرف مت لے کر جائیں ورنہ کچھ اورنہ ہوجائے، قاسم سوری کا فیصلہ اسی ارادے سے لگتا ہے جیسے انہوں نے تحریک عدم اعتماد پرکیا تھا۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ قاسم سوری کے فیصلے میں کسی رکن کا نام نہیں جن کا استعفی منظور کیا گیا ہو جبکہ تحریک انصاف بطورجماعت کیسے عدالت آسکتی ہے؟ استعفیٰ دینا ارکان کا انفرادی عمل ہوتا ہے۔
چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ ریاست کے معاملات میں وضع داری اور برداشت سے چلنا پڑتا ہے۔
انہوں نے پی ٹی آئی کے وکیل کو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ جلد بازی نہ کریں، سوچنے کا ایک اور موقع دے رہے ہیں، پارٹی سے ہدایات لیں۔
وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ من پسند حلقوں میں انتخابات نہیں ہوسکتے ہیں، شکورشاد کے علاوہ کسی رکن نے استعفے سے انکار نہیں کیا۔
مزید پڑھیں: ایم این اے عبدالشکور شاد کا استعفیٰ منظور ہونے کا نوٹیفکیشن معطل
چیف جسٹس نے کہا کہ کیا اسپیکرسے کبھی پوچھا ہے کہ استعفوں کی تصدیق کیوں نہیں کررہے ہیں جا کران سے پوچھیں، اسپیکرکا اپنا طریقہ کار ہے ہم کیسے مداخلت کرسکتے ہیں؟۔ ہر ادارے کی اپنی صلاحیت ہوتی ہے، عام انتخابات کے لیے پورا نظام ہوتا ہے، ضمنی انتخابات میں ٹرن آؤٹ بھی کم ہوتا ہے۔
عدالت نے فیصل چوہدری کو مزید تیاری کا وقت دیتے ہوئے استعفوں کی منظوری کے خلاف پی ٹی آئی کی اپیل پرعمران خان سے ہدایات لینے کی مہلت دے دی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ استعفوں کی منظوری کے لیے جلدی نہ کریں، ایک بار سوچ لیں، پارٹی ارکان آپ کی لیڈرشپ ہیں۔
بعدازاں سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کو ایک بار پھر قومی اسمبلی میں واپسی کا مشورہ دیتے ہوئے سماعت غیرمعینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی۔
Comments are closed on this story.