‘اسٹار لنک سیٹلائٹ اب دنیا کے ہر براعظم میں موجود ہے’
ٹیسلا اور اسپیکس ایکس کے بانی ایلون مسک کی سیٹلائٹ انٹرنیٹ سروس “اسٹارلنک” اب انٹارکٹیکا سمیت تمام سات براعظموں پر دستیاب ہے۔
نیشنل سائنس فاؤنڈیشن (این ایس ایف)، انٹارکٹیکا کے میک مرڈو اسٹیشن پر اپنے اسٹار لنک انٹرنیٹ ٹرمینل میں سے ایک کی جانچ کر رہا ہے جو دنیا کے انتہائی مشکل مقامات میں سے ایک ہے۔
Starlink is now active on all continents, including Antarctica https://t.co/Q1VvqV5G0i
— Elon Musk (@elonmusk) September 19, 2022
اسٹار لنک ایلون مسک کی اسپیس ایکسپلوریشن ٹیکنالوجیز کارپوریشن (اسپیس ایکس) کا ایک حصہ ہے۔ یہ زمین کے نچلے مدار میں گردش کرنے والے مصنوعی سیاروں کی ایک چین سے براڈ بینڈ انٹرنیٹ فراہم کرتا ہے۔
کمپنی نے حالیہ بیان میں کہا تھا کہ اسٹار لنک نے تین ہزار سے زیادہ سیٹلائٹ لانچ کیے ہیں اور چار لاکھ سے زیادہ صارفین کو خدمات فراہم کی ہیں۔
زیریں مدار کے سیٹلائٹ تقریباً 90 سے 120 منٹ میں سیارے کا چکر لگاتے ہیں۔
گزشتہ ہفتے پاکستان میں بھی اسٹار لنک سیٹلائٹس کی ایک چین کو آسمان پر پرواز کرتے دیکھا گیا تھا۔
اسٹار لنک کا فائدہ یہ ہے کہ اس کے سگنل جلد پہنچ جاتے ہیں۔
انٹارکٹیکا کے میک مرڈو اسٹیشن پر تقریباً ایک ہزار نفوس ہیں۔ جن کے پاس پہلے سے ہی 17 ایم بی پی ایس کی رفتار والا سیٹلائٹ انٹرنیٹ موجود ہے، لیکن وہاں کی صورت حال قابل بھروسہ نہیں ہے۔ اسٹار لنک کے ساتھ خطے میں انٹرنیٹ سروس میں بہتری کی امید ہے۔
انٹارکٹیکا کے McMurdo اسٹیشن پر ٹیسٹنگ تمام براعظموں پر اسٹار لنک کی انٹرنیٹ کوریج کا احطہ کرے گی۔
این ایس ایف کا کہنا ہے کہ بڑھتی ہوئی بینڈوتھ قطب جنوبی کے قریب دور دراز براعظم پر کام کرنے والے سائنس دانوں کی مدد کرے گی۔
دریں اثنا، امریکی وائرلیس کیریئر ٹی موبائل اور ایلون مسک کی ملکیت اسپیس ایکس نے مدار میں موجود سیٹلائٹس سے صارفین کے موبائل فونز کو براہ راست جوڑنے کے منصوبوں کا خاکہ پیش کیا ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ٹی موبائل اب اسپیس ایکس کے اسٹار لنک سیٹلائٹس کا استعمال کرے گا تاکہ امریکہ کے کچھ حصوں میں موبائل صارفین کو نیٹ ورک تک رسائی فراہم کی جا سکے۔
مسک نے کہا کہ “کمپنی کے صارفین کے ذریعہ استعمال کیے جانے والے زیادہ تر موبائل فون نئی سروس کے ساتھ ہم آہنگ ہوں گے۔ یہ اگلے سال کے آخر تک شروع ہونے والے بیٹا مرحلے میں ٹیکسٹنگ سروسز کے ساتھ شروع ہو جائے گی۔”
Comments are closed on this story.