عمران خان کے خلاف مقدمے سے دہشت گردی کی دفعات ختم
اسلام آباد ہائیکورٹ سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین کو بڑا ریلیف مل گیا، عدالت نے عمران خان کے خلاف مقدمے سے دہشت گری کی دفعات ختم کردیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے دہشت گردی کا مقدمہ خارج کرنے کی عمران خان کی درخواست پر محفوظ شدہ فیصلہ سنایا۔
عدالت نے عمران خان کی مقدمہ اخراج کی درخواست جزوی طور پر منظور کرتے ہوئے مقدمے سے دہشت گری کی دفعات ختم کا حکم دیا ہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ دیگر دفعات پر عمران خان کے خلاف متعلقہ فورم پر کارروائی جاری رہے گی، مقدمہ دیگر دفعات کے تحت انسداد دہشت گردی کی عدالت سے منتقل کیا جائے۔
مزید پڑھیں: عمران خان کی تقریر نامناسب ضرور مگر دہشت گردی کی دفعہ نہیں بنتی: اسلام آباد ہائیکورٹ
عدالت نے اپنے فیصلے میں مزید کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف انسداد دہشت گردی کے سوا دیگر دفعات کے تحت مقدمہ چلے گا۔
اس سے قبل آج ہونے والی سماعت کے دوران چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ جےآئی ٹی نے کیس میں کیا رائے دی ہے؟ جس پر اسپیشل پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ جے آئی ٹی کی یہی رائے ہے کہ اس کیس میں دہشت گردی کی دفعہ بنتی ہے۔
عمران خان کے وکیل سلمان صفدر نے دلائل دیتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ عمران خان نے ایکشن لینے کی بات کی جو لیگل ایکشن کی بات تھی، آئی جی پولیس اور ڈی آئی جی پر بھی کیس کرنے کی بات کی گئی،درخواست متاثرہ افراد کی طرف سے آنی چاہیئے تھی کہ وہ اس بیان سے خوفزدہ ہوئے، یہ کمپیوٹر ٹائپ درخواست تحمل سے لکھی گئی جس کے پیچھے کوئی ماسٹر مائنڈ ہے۔
مزید پڑھیں: توہین عدالت کیس: عمران خان پر فردِ جرم عائد کرنے کا فیصلہ
وکیل نے کہا کہ دہشت گردی کا مقدمہ خوف اور دہشت کی فضا پیدا کرنے پر ہی بن سکتا ہے، محض ایسی فضا پیدا ہونے کے امکان پر مقدمہ نہیں بن سکتا، عمران خان پر بنا مقدمہ عالمی سطح پر کیا تاثر چھوڑے گا؟
چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ اُس پر نہیں جاتے، ابھی مقدمے تک رہتے ہیں، جس پر سلمان صفدر ایڈووکیٹ نے کہا کہ عمران خان نے ایک ریلی میں بات کی جس پر مقدمہ بنا۔
اسپیشل پراسیکیوٹر راجہ رضوان عباسی نےعدالت کی ہدایت پرعمران خان کی تقریر کا ٹرانسکرپٹ پڑھ کر سنایا۔
وکیل عمران خان نے کہا کہ تقریر پر دہشت گردی کا مقدمہ انسدادِ دہشت گردی قانون کو مذاق بنانے جیسا ہے۔
مزید پڑھیں: خاتون جج کو دھمکی دینے کا کیس: عمران خان کو شامل تفتیش ہونے کی ہدایت
اسپیشل پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ عمران خان کے خلاف مقدمے سے سیکشن 186 نکال دی گئی ہے، مقدمے میں پولیس ملازم کو زخمی کرنے کی دھمکی کی دفعہ 189 شامل کر دی گئی ہے۔
عمران خان کے وکیل نے کہا کہ جو سیکشن نکال دینی چاہیے تھی وہ ختم نہیں کی گئی، عدالت نے چالان داخل کرانے سے روکا تھا مگر پولیس نے چالان تیار کر رکھا ہے۔
چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ چالان ٹرائل کورٹ میں جمع نہیں کرایا گیا، یہی آرڈر بھی تھا۔
پراسیکیوٹر نے کہا کہ ان ہی حقائق پر تفتیشی افسر نے آئی جی سے دو بار کہا کہ مجھے کیس سے الگ کیا جائے۔
چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ فیصل رضا عابدی پر بھی 2 دہشت گردی کے مقدمے بنے، وہ ان دونوں مقدمات میں بری ہو گئے، سپریم کورٹ دہشت گردی کے قانون کی تشریح کر چکی ہے۔
بعدازاں اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران خان کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ خارج کرنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا تھا ۔
کیس کا پس منظر
پیمرا نے 21 اگست کو عمران خان کا خطاب لائیو دکھانے پر پابندی عائد کرتے ہوئے ٹی وی چینلز کو ہدایات جاری کی تھیں۔ 6 صفحات پر مشتمل اعلامیے میں کہا گیا تھاکہ عمران کی براہ راست تقاریر سے نقص امن پیدا ہونے کا خدشہ ہے، ٹی وی چینل ریکارڈڈ تقریر چلا سکتے ہیں۔
اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ عمران خان اپنی تقریروں میں اداروں پر مسلسل بے بنیاد الزام تراشی کر رہے ہیں، اداروں اور افسران کے خلاف بیانات آرٹیکل 19 کی خلاف ورزی ہے۔
جاری کردہ نوٹیفکیشن میں عمران خان کےایف نائن پارک میں خطاب کا حوالہ بھی شامل تھا۔
عمران خان نے 20 اگست کو ایف نائن پارک میں احتجاجی جلسے سے خطاب کے دوران شہباز گل پر مبینہ تشدد کیخلاف آئی جی اور ڈی آئی جی اسلام آباد پر کیس کرنے کا اعلان کیا تھا۔
دوران خطاب عمران خان نے شہباز گل کا ریمانڈ دینے والی خاتون مجسٹریٹ زیبا چوہدری کو نام لے کر دھمکی بھی دی تھی۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ، “آئی جی، ڈی آئی جی اسلام آباد ہم تم کو نہیں چھوڑیں گے، تم پر کیس کریں گے مجسٹریٹ زیبا چوہدری آپ کو بھی ہم نے نہیں چھوڑنا، کیس کرنا ہے تم پر بھی، مجسٹریٹ کو پتہ تھا کہ شہباز پر تشدد ہوا پھر بھی ریمانڈ دے دیا” ۔
Comments are closed on this story.