Aaj News

اتوار, دسمبر 22, 2024  
20 Jumada Al-Akhirah 1446  

عدالتی حکم پر شہباز گل کو اڈیالہ جیل سے رہا کردیا گیا

بغاوت کے کیس کوتویہ عدالت مانتی ہی نہیں
اپ ڈیٹ 15 ستمبر 2022 10:56pm
کارکنوں نے پر جوش طریقے سے شہباز گل کا استقبال کیا۔

بغاوت کیس میں گرفتار پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما شہباز گل کو عدالتی حکم پر راولپنڈی کی اڈیالہ جیل سے رہا کر دیا گیا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ سے ضمانت منظور ہونے کے بعد شہباز گل کی رہائی کی روبکار جاری کیے گئے، اسلام آباد کے جوڈیشل مجسٹریٹ شعیب اختر نے روبکار جاری کیے۔

شہباز گل کی سینٹرل جیل اڈیالہ سے رہائی کے موقع پر پی ٹی آئی کارکنوں کی ایک بڑی تعداد اڈیالہ جیل کے باہر موجود تھی۔

عدالتی عملے اور وکلا کے روبکار لے کر اڈیالہ جیل پہنچتے ہی جیل انتظامیہ نے شہباز گل کو تقریبا ایک ماہ بعد ضمانت بعد از گرفتاری منظور ہونے پر رہا کر دیا۔

اس موقع پر جیل کے باہر استقبالی کارکنوں نے عمران خان اور شہبازگل کے حق میں نعرے بازی کی اور پر جوش طریقے سے شہباز گل کا استقبال کیا۔

میڈیا نمائندوں نے گاڑی میں سوار شہباز گل کو روک کر گفتگو کرنے کی کوشش کی تو شہباز گل نے ہاتھ ہلا کر گفتگوسے اجتناب کیا ۔

شہباز گل کی گاڑی کا رخ اڈیالہ سے راولپنڈی کی جانب آنے کی بجائے موٹر وے چکری انٹر چینج کی جانب موڑ دیا گیا ۔

شہباز گل کی 5 لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض ضمانت منظور

اس سے قبل اسلام آباد ہائیکورٹ نے شہباز گل کی 5 لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض ضمانت منظور کرلی۔

چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے اداروں کے خلاف بغاوت پر اُکسانے کے کیس میں پی ٹی آئی رہنما شہباز گل کی درخواست ضمانت پر سماعت کی۔

پی ٹی آئی رہنما کے وکیل سلمان صفدر نے اپنے دلائل میں کہا کہ یہ کیس بدنیتی کی بنیاد پرسیاسی انتقام کیلئےبنایا گیا، تفتیش مکمل ہوچکی ہے، پورا کیس ہی ایک خطاب کے اردگرد گھومتا ہے جسے خارج کرنے کی درخواست بھی زیرالتوا ہے۔

سلمان صفد نے کہا کہ شہبازگل حکومت پربہت تنقید کرتے ہیں جس پر چیف جسٹس نے انہیں سیاسی بات کرنےسے روکتے ہوئے کہا کہ آپ قانونی نکات پردلائل دیں۔

کیا فوج کو سیاست میں ملوث کیا جاسکتا ہے؟

سلمان صفدر نے ایف آئی آرکا متن پڑھ کرسنایا جس پرچیف جسٹس نے استفسارکیا کہ کیا ایف آئی آرمیں لکھی ہوئی باتیں شہبازگل نےکی تھیں؟ وکیل نے جواب میں کہا کہ ان کی گفتگوکےمخصوص حصےبدنیتی سے منتخب کیے گئے۔

چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے کہ یہ صرف تقریرنہیں ہے،‏کیا آئین کےمطابق فوج کوسیاست میں ملوث کیاجاسکتاہے؟ کیا پارٹی ترجمان کےان الفاظ کاکوئی جوازپیش کیاجاسکتاہے؟۔

وکیل نے جواب دیا کہ شہبازگل نےحکومت اورایک سیاسی جماعت کی بات کی تھی،ایف آئی آرمیں شہبازگل کی گفتگوسےلیگی قیادت کے نام نکال دیےگئے جو اگر لکھے جاتے توواضح ہوجاتاکہ ان کا الزام ن لیگ پرتھا۔

سیاسی جماعتوں نے نفرت کو بڑھادیا

وکیل سلمان صفدرنےشہباز گل کی گفتگو کا ٹرانسکرپٹ پڑھ کرسنایا اور کہا کہ مدعی اس کیس میں متاثرہ فریق بھی نہیں ہے ،شہبازگل نےاتناانتشارتقریرمیں نہیں پھیلایاجتنا مدعی مقدمہ نے بنایا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سیاسی جماعتوں نےنفرت کوکس حد تک بڑھا دیا ہے۔

سلمان صفدر نے مزید کہا کہ اس عدالت کےپاس ایمان مزاری کاکیس آیا آپ نےمقدمہ خارج کیا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ وہ الگ کیس ہےآپ اپنے کیس کی بات کریں۔

بغاوت کی دفعات نے مقدمہ متنازع بنادیا

شہبازگل کے وکیل نےکہا مقدمہ میں بغاوت کی دفعات بھی شامل کردی گئیں جبکہ ساری گفتگواسٹریٹیجک میڈیا سیل سےمتعلق تھی، اُن کے ریمانڈ کوبہت متنازع بنایا گیا اوربغاوت کی دفعات نے بھی اس مقدمہ کومتنازع بنا دیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آرمڈ فورسزاتنی کمزورنہیں کہ ان پرکوئی بیان اثراندازہو، غیرذمہ دارانہ بیان کوکسی طورجسٹیفائی نہیں کیاجاسکتا۔انہوں نے استفسارکیا کہ مقدمہ درج کرنےسےپہلےحکومت کی اجازت لی گئی؟ جس پرسلمان صفدر ایڈووکیٹ نے کہا کہ اجازت نہیں لی گئی تھی جبکہ اسپیشل پراسیکوٹرراجارضوان عباسی نے اثبات میں جواب دیا۔

سابقہ حکومت بھی ایسے الزامات کا سہارا لیتی تھی

شہباز گل کے وکیل نے مزید کہا کہ حکومت کیسےمخالفین کےخلاف غداری کےالزامات کاسہارالےرہی ہے جس پرچیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سابقہ حکومت بھی ایسےسنگین الزامات کاسہارالیتی تھی۔

وکیل نے اپنے دلائل میں مزید کہا کہ شہبازگل کے بیان میں آرمڈ فورسزکوٹارگٹ ہی نہیں کیاگیا اوروہ اس کیس میں شکایت کنندہ ہی نہیں، اگراجازت ہوتو بتاؤں کہ ریمانڈ کے دوران شہبازگل کےساتھ کیاہوا۔۔ اس پرچیف جسٹس نے واضح کیا کہ اُس معاملے پراس عدالت کاالگ بنچ آرڈرکرچکا ہے۔

یہ عدالت بغاوت کے کیس کو نہیں مانتی

سلمان صفدر کے دلائل مکمل ہونے کے بعد پراسیکوٹررضوان عباسی کے دلائل کا آغازہوا، چیف جسٹس نے ان سے استفسارکیا کہ کیا شہبازگل نے بغاوت پراکسانے کے لیے کسی سولجر سے رابطہ کیا؟ کیاآرمڈفورسزکی جانب سےکبھی شکایت درج کرائی گئی، کیاوہ ایسےکسی لاپرواہ بیان سےمتاثرہوسکتی ہیں؟۔ٹرائل کورٹ نےایک کےعلاوہ باقی سب دفعات ختم کیں، کیاآپ نےکبھی ٹرائل کورٹ کےاُس آرڈرکوچیلنج کیا؟۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ بغاوت کے کیس کوتویہ عدالت مانتی ہی نہیں۔

اسپیشل پراسیکیوٹرنے جواب دیا کہ شہبازگل نےبات ایک نیوزچینل پرکہی تھی جسے ملک کاہردوسرا شہری دیکھ رہا تھا اور مسلح افواج میں بھی نوزچینل دیکھا جاتا ہے،یہ بات بغاوت پراکسانے کا الزام ثابت کرنےکیلئے کافی ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ قانون کے مطابق بتائیں یہ الزام کیسے بنتا ہے؟۔

دلائل مکمل ہونے کے بعد اسلام آبادہائیکورٹ نے شہبازگِل کی درخواست ضمانت منظورکرتے انہیں 5 لاکھ روپے کے مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا۔

کیس کا پس منظر

سابق وزیراعظم عمران خان کے چیف آف اسٹاف شہباز گل کو ٹی وی ٹاک شو میں ریاستی اداروں کےسربراہان کے خلاف بیانات کے الزام میں 9 اگست کو بنی گالا کے قریب سے گرفتار کیا گیا تھا۔

شہباز گل کے خلاف تھانہ بنی گالا میں سٹی مجسٹریٹ کی مدعیت میں بغاوت کا مقدمہ درج کیا گیا، ایف آئی آر میں اداروں اور ان کےسربراہوں کے خلاف اکسانے سمیت دیگر دفعات شامل ہیں۔

شہباز گِل پر دوران حراست مبینہ تشدد کا مقدمہ سماعت کے لیے مقرر

سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنماشہبازگِل پر دوران حراست مبینہ تشدد کا مقدمہ سماعت کے لیے مقرر کردیا۔

چیف جسٹس عمرعطاء بندیال نے شہباز گِل کی جانب سے حراست کے دوران تشدد سے متعلق درخواست پر جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں 3 رکنی خصوصی بینچ تشکیل دے دیا۔

خصوصی بینچ میں جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس جمال خان مندوخیل بھی شامل ہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں خصوصی بینچ کل 11بجے مقدمے کی سماعت کرے گا۔

اسلام آباد

Dr Shahbaz Gill