فیکٹ چیک: کیا واقعی’برطانوی امداد’ کراچی میں برائے فروخت ہے؟
سندھ حکومت کوسوشل میڈیا پر شدید تنقید کا سامنا ہے جس کی وجہ آٹے کی ایک امدادی بوری کی وائرل تصویربنی، یوکے ایڈ ( برطانوی امداد ) کے تحت دی جانے والی اس بوری پر“ برائے فروخت نہیں “ درج ہے۔
تصویرشیئرکرنے والےمتعدد صارفین نے اپنی ٹویٹس میں دعویٰ کیا کہ حکومت سندھ برطانیہ سے سیلاب متاثرین کے لیے آنے والی امداد کو ان میں تقیسم کرنے کے بجائے مقامی اسٹورزپرفروخت کیا جارہا ہے۔
کئی صارفین نے دعویٰ کیاکہ یہ آٹا کراچی میں دستیاب ہے۔
پی ٹی آئی سے سیاسی وابستگی رکھنے والے بیشتراکاؤنٹس سے یہ تصویرسیکرٹری جنرل اقوام متحدہ انتونیو گوتیرس کو سیکڑوں بار ٹیگ کرتے ہوئے کہا گیا کہ پاکستان کودی جانے والی امداد دُکانوں پر فروخت کی جارہی ہے۔
Just for your information, goods sent from UK aid are being sold in food stores by the Sindh govt! Hence we cannot trust the current PDM govt for anything! They tell a good story but then they steal! pic.twitter.com/kNQpmHSb6u
— Dr MQ (@MalihaQureshi10) September 11, 2022
بعد ازاں وزیراعلیٰ ہاؤس کے آفیشل ٹوئٹرہینڈل اورنیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کی جانب سے اس خبرکی پُرزورتردید کی گئی۔
سی ایم ہاؤس کے آفیشل ٹویٹرہینڈل پرجاری بیان میں واضح کیا گیا کہ یہ “من گھڑت” کہانی سوشل میڈیا پوسٹ پرمبنی ہے، برطانیہ کی جانب سے گندم کا آٹا فراہم نہیں کیا گیا، یہ پروپیگنڈا امدادی کارروائیوں سے متعلق بدنام کرنے اورحقیقی خدمات سے توجہ ہٹانے کے لیے پھیلایا جا رہا ہے۔
This is a fabricated social media post that has been circulating.
— Sindh Chief Minister House (@SindhCMHouse) September 11, 2022
The #UK is not a partner in this programme & has not provided wheat flour.
Politically motivated propaganda is being spread to undermine, discredit relief work & to divert attention from the genuine service. https://t.co/dE2kMoMahY
این ڈی ایم اے کی جانب سے بھی ٹوئٹرپرکہا گیا کہ اس قسم کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں ہے، حکومت پاکستان اور این ڈی ایم اے کو برطانیہ سے آٹے کے تھیلوں پرمبنی کوئی امداد نہیں ملی۔
Clarification:
— NDMA PAKISTAN (@ndmapk) September 11, 2022
There is no authenticity in the news circulating on SM about selling of flourbags recived from UK. As Govt of Pakistan & NDMApak has not recived any aid from United Kingdom containing/consisting of flour bags.
سرکاری سطح پرتردید کے باجود سوشل میڈیا صارفین اس کھوج میں مصروف ہیں کہ کیا واقعی یہ تصویر بھارت میں کھینچی گئی تھی۔
صارفین نے اپنی ٹویٹس میں نقطہ اُجاگرکیا کہ پیچھے رکھے گھی کے ڈبوں پرشہباز بناسپتی درج ہے جو کہ پاکستانی برانڈ ہے۔
اس قسم کی ٹویٹس پرآنے والے ردعمل میں کہا گیا کہ تصویر2014 کی ہے اور یہ پاکستان نہیں بلکہ بھارت میں بنائی گئی تھی، تاہم گوگل امیجز سرچ سے اس بات کی تصدیق نہیں ہوسکی ۔
انٹیلیجنس اینالائزاینڈ کرمنل انویسٹی گیشن ذکی خالد نے نان پرافٹ آرگنائزیشن ہینڈز کے آفیشل فیس بک سے تصاویرکیں جن میں رکھے امدادی تھیلوں میں سے کئی پر“ یو کے ایڈ“ لکھا دیکھا جاسکتا ہے۔ انہوں نے سلسلہ وارٹویٹس میں تفصیلی تجزیہ کیا۔
ذکی خالد کا اپنے تجزیہ میں کہنا ہے کہ تصویرکو زوم کرنے پربعض مصنوعات واضح ہیں جیسے کہ شہباز گھی کے ڈبے جو کہ سکھر کی ایک کمپنی تیار کرتی ہے،(یہ برانڈ صرف سندھ ہی نہیں پورے پاکستان میں فروخت کی جاتی ہے) لیکن بھارت کوبرآمد نہیں کی جاتی، اس کے علاوہ پاکستان میں عام ملنے والے واشنگ پاؤڈراورسگریٹ کے برانڈزبھی نظرآتے ہیں۔
1. The first publicly-accessible photo of the (now infamous) bag of flour, purportedly in Sindh, was posted on Facebook by a Sindhi poet (name withheld).
— Zaki Khalid (@misterzedpk) September 11, 2022
Exact timestamp: 10 September 2022 @ 11:52pm PST.
Copy of archived link can be shared with accredited journalists only. pic.twitter.com/TdbMLtAz5U
2. Digital enhancement of the image helps to identify certain products, particularly boxes of Shahbaz Ghee, manufactured by a Sukkur-based company (sold across Pak, not only Sindh). It is not exported to India. Washing powder and cigarette brands also visible, common in Pak. pic.twitter.com/yYkDyr9c33
— Zaki Khalid (@misterzedpk) September 11, 2022
تصویرکے مقام کا بھی تعین نہیں کیا جاسکتا، ذکی خالد نے این ڈی ایم اے اور سندھ حکومت کی جانب سے کیے جانے والے دعووں سے متعلق کہا کہ این جی او ‘ہینڈز پاکستان’ کی11 ستمبر 2022 کی فیس بک پوسٹس اس کے برعکس ہیں جس میں ورلڈ فوڈ پروگرام کے اشتراک سےضلع نوشہرو فیروزمیں راشن تقسیم کرنے کے لیے لگائےجانے والے کیمپ کی تصاویرشیئرکی گئی ہیں۔
Please refer to the images taken from the verified Facebook page of HANDS Pakistan dated 11 Sep 2022.
— Zaki Khalid (@misterzedpk) September 11, 2022
Archived copy of images: https://t.co/LMDu8SYpm5https://t.co/OJHqW6uSrK pic.twitter.com/gVmW1e3zUL
امدادی تھیلوں کے مطابق برطانیہ واحد ملک نہیں ہے جو سیلاب متاثرین کے لیے WFP آٹے کے تھیلے اسپانسرکررہا ہے،اس میں کینیڈا اور جاپان بھی شامل ہیں۔
6. Similarly, Japan is sponsoring yellow chick pea bags through WFP.
— Zaki Khalid (@misterzedpk) September 11, 2022
Source: https://t.co/QTAXWppKNh pic.twitter.com/jmAgiTHFQr
ذکی خالد نے اپنی تجزیاتی ٹویٹس میں مزید کہا کہ امدادی تھیلے کی تجارتی بنیادوں پرفروخت کا کوئی واضح ثبوت نہیں ہے، یہ بھی فرض کیا جاسکتا ہے کہ آٹے کے تھیلے کے وصول کنندگان میں سے ایک دکاندار ہے اور اس نے محض ایک تصویرشیئر کی، کیونکہ تصویر ایک دکان کے اندر لی گئی اس لیے ہم اس کے سیاق و سباق کا اندازہ نہیں لگا سکتے۔
Assessment:
— Zaki Khalid (@misterzedpk) September 11, 2022
> The image is original/ not tampered and from Pakistan.
> HANDS Pakistan's post confirms UKAID is among sponsors of WFP's wheat flour bags of exact 44g net weight (Naushehro Feroze).
(contd)
دوسری جانب ہینڈز پاکستان کی پوسٹ سے تصدیق ہوتی ہے کہ UK AID بھی ورلڈ فوڈ پروگرام کی جانب سے 44 کلو وزنی گندم کے آٹے کے تھیلوں کے اسپانسرز میں شامل ہے۔
ٹویٹس میں مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ تاحال فیس بُک اور ٹوئٹرکی جانب سے EXIF ڈیٹا (جیسے کہ جیو کوآرڈینیٹ، اصل ٹائم اسٹیمپ وغیرہ) فعال نہیں کیا گیا اس لیے تکنیکی طور پراس تصویرکو بھارت سے جوڑنا درست نہیں ہے۔
> As of yet, Facebook and Twitter have not enabled extraction of EXIF data (such as geo-coordinates, original timestamp etc). Therefore, 'forensic analysis' linkage with India is technically not possible.
— Zaki Khalid (@misterzedpk) September 11, 2022
(contd)
گہرائی سے اس تصویرکی جانچ پڑتال کرنے والے ذکی خالد نے بعض میڈیا ہاؤسز کی جانب سے غیرپیشہ ورانہ اندازمیں بغیرکسی تصدیق کے “ نام نہاد حقائق “ رپورٹ کرنے کوبھی اُجاگرکیا۔
> Unprofessional of Geo News and some other media houses to report on a so-called 'fact check' on this image without verifying. Absence of in-house fact-checking expertise in Pak mainstream media is a dilemma. pic.twitter.com/UKYYsuOAX6
— Zaki Khalid (@misterzedpk) September 11, 2022
Comments are closed on this story.