Aaj News

جمعہ, نومبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Awwal 1446  

عمران خان کی عبوری ضمانت میں 20 ستمبرتک توسیع

چیئرمین پی ٹی آئی خاتون جج کو دھمکیاں دینے کے کیس میں انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش ہوئے تھے
اپ ڈیٹ 12 ستمبر 2022 03:45pm
سابق وزیر اعظم عمران خان، تصویر/فائل
سابق وزیر اعظم عمران خان، تصویر/فائل

ایڈیشنل سیشن جج زیبا چوہدری اور پولیس افسران کو دھمکیاں دینے کے کیس میں سابق وزیراعظم عمران خان کی عبوری ضمانت میں 20 ستمبرتک توسیع کردی گئی۔

کیس کی سماعت انسداد دہشتگردی کی عدالت کے جج راجہ جواد عباس نے کی ۔

چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے ڈاکٹر بابراعوان عدالت میں پیش ہوئے۔ فاضل جج نے استفسارکیا کہ کیا عمران صاحب شامل تفتیش ہوگئے ہیں جس پربابراعوان نے کہا کہ جی ہم نے تفتیش جوائن کر لی تھی, جج نے مزید استفسارکیا کہ ہمارے اپنے پراسیکیوٹرکدھر ہیں۔

جج نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پہلے بھی دو پراسیکیوٹرز کو ڈی نوٹیفائی کیا کا چکا ہے، آپ بہت جلدی ڈی نوٹیفائی کردیتے ہیں۔بابراعوان نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں مقدمہ اخراج کی درخواست پر نوٹس ہوچکا ہے، پولیس نے ہائیکورٹ کو غلط بتایا کہ عمران خان شامل تفتیش نہیں ہوئے۔ عدالت نے کہا کہ تفتیشی افسرشفاف تحقیقات کر کے تفتیش میں پیش رفت سے آگاہ کریں۔

انسداد دہشتگردی عدالت نے سماعت میں وقفہ کرتے ہوئے سابق وزیراعظم عمران خان کو 11 بجے پیش ہونے کا حکم دیا، جج راجہ جواد عباس کا کہنا تھا کہا کہ عمران خان عدالت آ جائیں تو ضمانت درخواست پرباقی دلائل سن لیں گے۔

عمران خان کے عدالت پہنچنے کے بعد سماعت کا دوبارہ آغاز ہوا اور فریقین کے دلائل سنے گئے۔

عمران خان کےوکیل بابراعوان نے کہا کہ ایک سےزائدبارجواب جمع کراچکےہیں، کیا وہ جواب پرائیویٹ ہےجوشامل نہیں کیاگیا؟ نئے پراسیکیوٹرنے وقت لینا ہےتولےلیں۔

پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ جےآئی ٹی نے3نوٹسزجاری کئے،عمران خان شامل تفتیش نہیں ہوئے، اسی دوران فاضل جج نے بابراعوان کوسیکشن161پڑھنےکی ہدایت کی، انہوں نے سیکشن 161پڑھ کرسنایا۔ جس پرجج نے بابراعوان سے استفسار کیا یہ نوٹس ملا ہے؟

بابراعوان نے کہا کہ سیکشن میں کہاں لکھا ہےکہ تھانے میں بلایا جائے، تفتیشی افسرنےپہلےبھی کہاتھاکہ عمران خان پیش نہیں ہوئےاور ان کے پیش نہ ہونے کاکہیں نہیں لکھا جبکہ بیان لکھ کردیا،اس کوریکارڈ پرہی نہیں لایا گیا۔

معزز جج نے کہا کہ عمران خان کی موجودگی کیوں ضروری ہے، انہوں نے پراسیکیوٹرکوسیکشن 160 پڑھنےکی ہدایت کی تو اسپیشل پراسیکیوٹرنے سیکشن 160 پڑھ کرسنا دی۔

جس پر عمران خان کے وکیل بابر اعوان نے کہا کہ میں بھی یہی سیکشن پڑھناچاہتا ہوں، اس میں لکھا ہےتفتیشی افسرگواہان کوبلاسکتا ہے، عمران خان اس کیس کے گواہ نہیں ہیں، قانون اسمبلی بناتی ہےاس میں کوئی خود سے اضافہ نہیں کرسکتا۔

بابراعوان نے کہا کہ میں نےبیان لکھ کردیا جسےریکارڈ پرہی نہیں لایاگیا،عدالت ناقص تفتیش پرپولیس کوسزادینےکااختیاررکھتی ہے، ضمنی رپورٹ میں کیوں نہیں لکھاکہ ملزم نےبیان جمع کرایا،یہ خود بتاتےہیں کہ کالعدم تنظیموں کا خطرہ ہے، انہوں نے سوال اٹھایا کہ اگرعمران خان تھانے جائیں اورکوئی مار دے تو؟

ان کا کیا پتا،اپنے بھی دو بندے مروا دیں، صبح آفرکی تھی کہ یہاں ہی بیٹھ جاتےہیں،یہ پوچھ لیں کیا سوال پوچھنا ہے، اس کاٹرائل نہیں،سمری پروسیڈنگ ہوگی، جس کی سزا دوسال تک قید ہے، پولیس کےسامنے اعتراف جرم کی کوئی قانونی حیثیت نہیں، تفتیش کیلئے پیش ہونےکی شرط کیوں رکھ رہےہیں؟۔

عمران خان کے وکیل بابراعوان نے مزید کہا کہ جےآئی ٹی اورتفتیشی افسرکو2مرتبہ بیان لکھ کردیا، جب سےیہ پولیس آئی ہے،وکلاکوتھانوں میں جاناپڑرہاہے، وکلا تھانےگئے توکہاکہ چیف کمشنرکےآڈیٹوریم آئیں،، یہ طےکرلیں کہ تفتیش کرنی ہےیا ہراساں کرناچاہتےہیں، یہ کہتےہیں کہ عمران خان کےالفاظ سےڈرگئے۔

بابراعوان نے عمران خان کی جانب سے خاتون جج زیبا چوہدری کودی جانے والی دھمکیوں کے تناظرمیں مؤقف دیا کہ جج کوکہا گیا کہ ہم نےتمہارےخلاف ایکشن لینا ہے، ظاہرہے وہ لیگل ایکشن تھا۔

جج نے کہا کہ اس معاملےپربات نہ کریں یہ ہائیکورٹ میں زیرالتواہے، جس پر بابراعوان نے کہا کہ ریکارڈپرلانا تھا کہ آدھی ایف آئی آرتویہاں ختم ہوگی، آئی جی اسلام آباد اورڈی آئی جی تمھیں نہیں چھوڑنا، اس بیان سے دہشتگردی نکال کردکھائیں۔

جج نے کہا کہ دہشتگردی رضوان عباسی صاحب نے نکالنی ہے، آپ یہ بتائیں کہ آپ کواتنےدن بعد کیوں شامل کیا گیا؟

پراسیکیوٹر نے کہا کہ ہم ابھی ملزم کے شامل تفتیش کرنےکی بات کررہے ہیں، جےآئی ٹی یاتفتیشی افسر نے تفتیش کاطریقہ طےکرناہے جس پربابراعوان نے کہاکہ ملکی تاریخ میں کبھی کسی کی تقریرپرپابندی لگائی گئی؟

عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد عمران خان کی عبوری ضمانت میں 20 ستمبر تک توسیع کردی۔

گزشتہ سماعت کے دوران عدالت نے ایک لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکوں کے عوض نئی دفعات میں بھی عمران خان کی عبوری ضمانت میں 12 ستمبر تک توسیع کردی تھی۔

مزید پڑھیں:عدالت نے عمران خان کی عبوری ضمانت میں12 ستمبر تک توسیع کردی

کیس کا پس منظر

عمران خان نے 20 اگست کو ایف نائن پارک میں احتجاجی جلسے سے خطاب کے دوران شہباز گِل پر مبینہ تشدد کے خلاف آئی جی اور ڈی آئی جی اسلام آباد پر کیس کرنے کا اعلان کیا تھا۔

دوران خطاب عمران خان نے شہباز گل کا ریمانڈ دینے والی خاتون مجسٹریٹ زیبا چوہدری کو نام لے کر دھمکی بھی دی تھی۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ، “آئی جی، ڈی آئی جی اسلام آباد ہم تم کو نہیں چھوڑیں گے، تم پر کیس کریں گے مجسٹریٹ زیبا چوہدری آپ کو بھی ہم نے نہیں چھوڑنا، کیس کرنا ہے تم پر بھی، مجسٹریٹ کو پتہ تھا کہ شہباز پر تشدد ہوا پھر بھی ریمانڈ دے دیا” ۔

بعد ازاں وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے قانونی کارروائی کا اعلان کرتے ہوئے ٹویٹ میں کہا تھا کہ خاتون مجسٹریٹ، آئی جی اور ڈی آئی جی پولیس کو دھمکی دینے والوں کو قانون کا سامنا کرنا ہوگا۔

ATC

اسلام آباد

imran khan

Islamabad High Court