ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کالعدم قرار، پرویز الٰہی نئے وزیراعلیٰ پنجاب منتخب
اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ کے خلاف درخواست منظور کرتے ہوئے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کالعدم قرار دے دی جس کے تحت حمزہ شہباز وزارت اعظمیٰ کے عہدے سے فارغ ہوگئے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مبنی سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے دوسرے دن بھی سماعت کی۔
نو منتخب وزیراعلیٰ رات ساڑھے 11 بجے عہدے کا حلف لیں گے
وزیراعلیٰ پنجاب کے الیکشن پر سپریم کورٹ نے ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری کی رولنگ کو کالعدم قرار دے دیتے ہوئے تین گھنٹے سے زائد تاخیر کے بعد کیس کا محفوظ فیصلہ سنا دیا۔
عدالتی فیصلے کے مطابق پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اتحادی امیدوار پرویز الٰہی وزیر اعلیٰ پنجاب ہوں گے جس کا نوٹیفکیشن چیف سیکرٹری جاری کریں گے۔
عدالت نے ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ گورنر پنجاب بلیغ الرحمان نو منتخب وزیراعلیٰ سے آج رات ساڑھے 11 بجے حلف لیں اوراگر گورنر دستیاب نہ ہوں تو یہ فریضہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی انجام دیں۔
عدالتی فیصلے سے قبل
اس سے قبل سماعت کے دوبارہ آغاز پر ڈپٹی اسپیکر کے وکیل عرفان قادر نےعدالت کو بتایا کہ میرے مؤکل کی ہدایات ہیں کہ عدالت میں پیش نہ ہوں۔
اس موقع پر فاروق ایچ نائیک نے بھی عدالت کو آگاہ کیا کہ مجھے بھی میرے مؤکل نے کیس کی پیروی نہ کرنے کی ہدایت کی ہے ۔
عرفان قادر کے سپریم کورٹ سے واپس چلے جانے کے بعد وکیل فاروق ایچ نائیک عدالت کے روبرو پیش ہوئے اور کہا کہ پی پی پی بھی عدالت میں پیش نہیں ہوگی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ ستمبر کے دوسرے ہفتے سے پہلے ججز دستیاب نہیں، گورننس اور بحران کے حل کے لیے جلدی کیس نمٹانا چاہتے ہیں، آرٹیکل 63 اے کے مقدمہ میں پارلیمانی پارٹی کی ہدایات کا کوئی ایشو نہیں تھا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عدالت کے سامنے آٹھ جج کے فیصلہ کا حوالہ دیا گیا، آرٹیکل 63 اے سے متعلق آٹھ ججز کا فیصلہ اکثریتی نہیں ہے، جس کیس میں آٹھ ججز نے فیصلہ دیا وہ 17 رکنی بینچ تھا، آرٹیکل 63 سے فیصلہ نو رکنی ہوتا تو اکثریتی کہلاتا، فل کورٹ بنچ کی اکثریت نے پارٹی سربراہ کے ہدایت دینے سے اتفاق نہیں کیا تھا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ موجودہ کیس میں فل کورٹ بنانے کی ضرورت نہیں ہے، کیا سترہ میں سے آٹھ ججز کی رائے کی سپریم کورٹ پابند ہو سکتی ہے؟
چیف جسٹس نے ریمارکس دئے کہ پارٹی ہیڈ پالیسی سےانحراف پر ریفرنس بھیج سکتا ہے، اس سوال کیلئے فل کورٹ نہیں بنایا جاسکتا۔
فریقین کے وکلا کو کمرہ عدالت میں بیٹھنے کی ہدایت
چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے فریقین کے وکلا کو ہدایت کی کہ آپ لوگ ابھی کمرہ عدالت میں بیٹھیں۔
‘فریقین وہ نقطہ نہیں رکھ سکے جس پر فل کورٹ تشکیل دیا جائے’
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ فریقین ہمارے سامنے وہ نقطہ نہیں رکھ سکے جس کی بنیاد پر فل کورٹ تشکیل دیا جائے، فل کورٹ بنانے پر ایک نقطہ بھی نہیں بتایا گیا، قانون کے مطابق پارلیمانی پارٹی نے فیصلہ کرنا ہوتا ہے، پارٹی ہیڈ پالیسی سے انحراف پر ریفرنس بھیج سکتا ہے، اس سوال کیلئے فل کورٹ نہیں بنایا جاسکتا۔
جسٹس عمرعطاء بندیال نے ریمارکس دیئے کہ ہم سیاسی جماعتوں کے وکلا سے کہنا چاہتے ہیں، ہماری ترجیح اس معاملے پر جلد فیصلہ کرنے کی ہے، ہماری نظر میں فل کورٹ کی تشکیل تاخیری حربہ ہے، صدر کی سربراہی میں 1988 میں نگران کابینہ سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دی تھی، عدالت کا مؤقف تھا کہ وزیراعظم کے بغیر کابینہ نہیں چل سکتی۔
‘فل کورٹ کی تشکیل کیس لٹکانے سے زیادہ کچھ نہیں تھا’
چیف جسٹس آف پاکستان نے مزید ریمارکس دیئے کہ فل کورٹ کی تشکیل کیس لٹکانے سے زیادہ کچھ نہیں تھا، ستمبر کے دوسرے ہفتے سے پہلے ججز دستیاب نہیں، اب ہم کیس کے میرٹس پر بات کریں گے، اگر میں نے غلط نقطہ نظر دیا ہے تو کیا میں اس نقطے پر قائم رہنے کا پابند ہوں یا غلطی کو درست کرسکتا ہوں؟ ہم یا توان نکات پر کارروائی آگے بڑھا سکتے ہیں یا میرے پاس الگ ہوجانے کا آپشن ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیا 17 میں سے 8 ججز کی رائے کی سپریم کورٹ پابند ہوسکتی ہے؟ فل کورٹ بینچ کی اکثریت نے پارٹی سربراہ کے ہدایت دینے سے اتفاق نہیں کیا تھا، عدالتی بائیکاٹ کرنے والوں نے اتنی گریس دکھائی ہے کہ بیٹھ کر کارروائی سن رہے ہیں، اپنے کام کوعبادت سمجھ کر کرتا ہوں۔
چوہدری پرویز الہیٰ کے وکیل علی ظفر کے دلائل
چوہدری پرویز الہیٰ کے وکیل علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 21 ویں ترمیم کیس میں جسٹس جواد ایس خواجہ نے آرٹیکل 63 اے کو خلاف آئین قرار دیا تھا، ان کی رائے تھی آرٹیکل 63 اے ارکان کو آزادی سے ووٹ دینے سے روکتا ہے، جسٹس جواد ایس خواجہ نے فیصلے میں اپنی رائے کی وجوہات بیان نہیں کیں، جسٹس جواد کی رائے سے اتفاق نہیں کرتا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آئین کیا کہتا ہے کہ کس کی ہدایات پرووٹ دیا جائے؟جس پر وکیل علی ظفر نے کہا کہ آئین کے مطابق ووٹ کی ہدایات پارلیمانی پارٹی دیتی ہے۔
جسٹس عمرعطا بندیال نے پوچھا کہ کیا پارلیمانی پارٹی پارٹی سربراہ سے الگ ہے؟ جس پر پرویز الہیٰ کے وکیل نے کہا کہ پارلیمانی جماعت اور پارٹی لیڈر 2 الگ الگ چیزیں ہیں۔
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ آئین کے تحت پارٹی سربراہ پارلیمانی پارٹی کے فیصلے پر عملدرآمد کراتا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پارلیمانی پارٹی اپنے طور پر تو کوئی فیصلہ نہیں کرتی، سیاسی جماعت کے فیصلے سے پارلیمانی جماعت کو آگاہ کیا جاتا ہے، جس کی روشنی میں پارلیمانی پارٹی فیصلہ کرتی ہے۔
‘کیا پارٹی سربراہ صرف سیاسی جماعت کا سربراہ ہوتا ہے؟’
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ پارٹی سربراہ کی کیا تعریف ہے؟ کیا پارٹی سربراہ صرف سیاسی جماعت کا سربراہ ہوتا ہے؟ ۔
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ 18 ویں اور21 ویں ترامیم کے کیسز میں آرٹیکل 63 کی شقوں کا سطحی جائزہ لیا گیا، آرٹیکل 63 اے کے حوالے سے پارٹی لیڈر کا معاملہ ماضی میں کبھی تفصیل سے نہیں دیکھا گیا۔
‘جج کا بار بار اپنی رائے تبدیل کرنا اچھی مثال نہیں ہوتی’
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ جج کا بار بار اپنی رائے تبدیل کرنا اچھی مثال نہیں ہوتی، جج کی رائے میں یکسانیت ہونی چاہیئے، ٹھوس وجہ کے بغیر اپنی رائے تبدیل نہیں کرسکتا، اگر کوئی واضح قانون سامنے آئے تو معذرت کرکے رائے تبدیل کرلوں گا۔
چیف جسٹس پاکستان نے مزید ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 63 اے کی تشریح میں 21 ویں ترمیم کیس کا حوالہ نہیں دیا گیا۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامررحمان روسٹرم پر
سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامررحمان روسٹرم پر آگئے اور کہا کہ عدالت کی خدمت میں چند گزارشات پیش کرنا چاہتا ہوں۔
جسٹس منیب اخترنے ریمارکس دیے کہ کیا وفاقی حکومت حکمران اتحاد کے فیصلے سے الگ ہوگئی ہے؟ جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 27 اے کے تحت عدالت کی معاونت کروں گا۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ فیصلے میں کوئی غلطی نہ ہوجائے اس لئے سب کو معاونت کی کھلی دعوت ہے، جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ مائی لارڈ آپ نے رائے دی تھی۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامررحمان نے چیف جسٹس آف پاکستان کا تحریر کردہ فیصلہ پڑھ کر سنایا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے یاد آ گیا ہے میں نے رائے دی تھی۔
جسٹس منیب اختر کا ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ
جسٹس منیب اختر نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ آپ کی حکومت نے تو عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کررکھا ہے، جس پر عامر رحمان نے کہا کہ میں نے صرف ایک بات بتائی ہے جو مجھے لگا اہم ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ آپ نے میری غلطی کی نشاندہی کر کے اچھا کیا۔
پرویزالہیٰ کے وکیل بیرسٹرعلی ظفر کے دلائل مکمل
اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویزالہیٰ کے وکیل بیرسٹرعلی ظفر نے دلائل مکمل کرلئے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ سوال یہ ہے کہ خط پولنگ سے پہلے پارلیمنٹری پارٹی کے سامنے پڑھا گیا تھا یا نہیں، عدالت کےسامنےسوال یہ بھی ہے کہ فیصلے کو ٹھیک سے پڑھا گیا یا نہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ دوسرے فریق سن رہے ہیں لیکن کارروائی میں حصہ نہیں لے رہے، اس وقت ان کی حیثیت ایسے ہی ہے جیسے اقوام متحدہ میں مبصرممالک کی ہوتی ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن اور فاروق ایچ نائیک میں دلچسپ مکالمہ
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ فاروق نائیک صاحب اگرکچھ بہتری آسکتی ہے توعدالت سننے کے لیے تیارہے، جس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ مسئلہ یہ ہےکہ ان مقدمات میں ہم پارٹی پالیسی کے پابند ہوتے ہیں۔
سپریم کورٹ نے ڈپٹی اسپیکررولنگ کیس میں گزشتہ سماعت کا حکم نامہ جاری کردیا
سپریم کورٹ آف پاکستان نے ڈپٹی اسپیکر رولنگ کیس میں گزشتہ سماعت کا حکم نامہ جاری کردیا۔
سپریم کورٹ کے حکم نامے کے مطابق فل کورٹ کی استدعا مسترد کی جاتی ہے،فل کورٹ تشکیل نہ دینے کی تفصیلی وجوہات بعد میں جاری کی جائیں گی، حمزہ شہباز، ڈپٹی اسپیکر اور دیگر وکلا کی طرف سے مزید وقت مانگا گیا، اس لیے فریق دفاع کے وکلا کی مزید وقت کی استدعا منظور کی جاتی ہے۔
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ تمام وکلا آج 26 جولائی کو مقدمے کی تیاری کرکے آئیں۔
Comments are closed on this story.