وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کا کیس: سپریم کورٹ نے فُل کورٹ کی استدعا مسترد کردی
سپریم کورٹ نے وزیراعلیٰ پنجاب کے الیکشن پر ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ کے خلاف درخواست کے کیس میں حکومتی اتحاد کی جانب سے فُل کورٹ بنانے کی درخواستیں مسترد کردیں۔
وزیراعلیٰ کے انتخاب میں ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی دوست محمد مزاری کی رولنگ کے خلاف پرویز الٰہی کی درخواست پر سماعت چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی، فل کورٹ پر وکلا کے دلائل مکمل ہونے کے بعد سماعت میں وقفہ کیا گیا جس کے بعد عدالت نے فیصلہ سنایا۔
فیصلہ سناتے ہوئے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ کئی گھنٹے تک عدالت نے سماعت کی، میرٹس پر دلائل سنے، معاملےکی بنیاد قانونی سوال ہےکہ ارکان اسمبلی کو ہدایت پارٹی سربراہ دے سکتا ہے یا نہیں، فل کورٹ بنانےکی استدعا مسترد کرتے ہیں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ڈپٹی اسپیکر رولنگ کیس میرٹ پر کل صبح 11:30 بجے سنیں گے، فل کورٹ نہ بنانے کی تفصیلی وجوہات بعد میں جاری کریں گے، یہ ہی بینچ کیس کی سماعت کرے گا۔
فُل کورٹ پیچیدہ معاملات میں بنایا جاتا ہے اور یہ معاملہ پیچیدہ نہیں: چیف جسٹس
اس سے قبل چیف جسٹس نے عرفان قادر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے فل کورٹ تشکیل دینے کا کہا ہے جس پر ہم نے بہت سوچا ہے، فل کورٹ دشوار ترین کیسز میں تشکیل دیا جاتا ہے جب کہ یہ معاملہ پیچیدہ نہیں ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ ہم نے دیکھنا ہے 17 مئی کے فیصلے کے بعد فل کورٹ بننی چاہئے یا نہیں، اہم بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں گورننس بہت بڑا مسئلہ ہے، ملک میں آئین کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔
عدالت کے گزشتہ حکم نامہ میں تضاد ہے: عرفان قادر
وکیل عرفان قادر کا کہنا تھا کہ جلد بازی میں مقدمے کا فیصلہ نہیں ہونا چاہئے، عدالت کے گزشتہ حکم نامہ میں تضاد ہے، نظرثانی دائر کرنا آئینی حق ہے جو ہم استعمال کریں گے، اگر عدالت سمجھتی ہے سیاستدان ایک پیج پر اکٹھے نہیں ہو رہے تو ایسے میں عدالت خود بھی اکٹھے ہو کرمقدمہ سن لیں۔
انہوں نے کہا کہ عدالتی فیصلے کی روشنی میں ہی وزیراعلٰی کا دوبارہ الیکشن ہوا، منحرف ارکان کے ووٹ اگر مسترد کرنے کا فیصلہ بدل گیا تودوبارہ پولنگ کی ضرورت نہیں ہوگی البتہ کیس کی بنیاد ہی عدالتی فیصلہ ہے جس کی نظرثانی پر پہلے فیصلہ ضروری ہے۔
پیپلز پارٹی وکیل نے کیس کی سماعت 28 جولائی تک ملتوی کرنے کی استدعا کردی
پیپلز پارٹی فاروق ایچ نائیک نے اپنے دلائل دیتے ہوئے عدالت سے کیس کی سماعت 28 جولائی بروز جمعرات تک ملتوی کرنے کی استدعا کردی اور کہا کہ دیکھنا پڑے گا پارلیمان کا فیصلہ سپریم کورٹ کے سامنے آنا چاہیے یا نہیں۔
سوشل میڈیا کی خوبصورتی ہے وہ حقائق کے بجائے رائے دیکھتے ہیں: چیف جسٹس
چیف جسٹس نے فاروق نائیک سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمانی جماعتیں عام شہریوں کے لئے دروازہ کھولتی ہیں، نائیک صاحب آپ نے پارلیمانی پارٹی کواختیار دے کر بہت اچھا کیا تھا، ہم نے پارلیمنٹ کو مضبوط کرنا ہے اور سوشل میڈیا کی خوبصورتی ہے کہ وہ حقائق کے بجائے رائے دیکھتے ہیں جس سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا اور اگر پارلیمنٹ غیرآ ئینی اقدام اُٹھائے گی تو سپریم کورٹ درمیان میں آئے گا۔
دوسری جانب جسٹس اعجاز الاحسن استسفار کیا کہ ہمارے سامنے واحد سوال یہ ہے کہ ڈپٹی سپیکر نے رولنگ دینے کے دوران عدالتی فیصلے پر انحصار کیا، کیا ڈپٹی اسپیکر فیصلے کودرست سمجھ سکے یا نہیں؟
18ویں ترمیم میں پارلیمانی پارٹی کو با اختیار بنا کر احسن قدم اٹھایا گیا: چیف جسٹس
چوہدری شجاعت حسین کے وکیل بیرسٹر صلاح الدین نے روسٹرم پر آکر کہا کہ میں تمام اراکین کو بھیجے گئے خطوط عدالت کے سامنے رکھوں گا۔
جس شخص نے کم ووٹ لیے وہ وزیراعلیٰ اور زائد ووٹ لینے والا باہر بیٹھا ہے: چیف جسٹس
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عدالت کوفل کورٹ بنانے کے لئے آئینی نکات درکا رہیں، 18ویں ترمیم میں پارلیمانی پارٹی کو با اختیار بنا کر احسن قدم اٹھایا گیا، اسمبلی کارروائی کو استثنی صرف کارروائی کے طریقہ کار پر ہے جب کہ جس شخص نے کم ووٹ لیے وہ وزیراعلیٰ اور زائد ووٹ لینےوالا باہر بیٹھا ہے۔
چیف جسٹس نے فیصلہ محفوظ کرکے وقفے کے بعد کارروائی کا آغاز کرتے ہوئے وکلا کو دلائل دینے کی ہدایت کی اور کہا کہ کیس کو مزید سننے کے بعد فیصلہ کیا جائے گا۔
عدالت نے وکلا کو میرٹ پر دلائل دینے کے لئے بلایا لیکن حمزہ شہباز اور ڈپٹی اسپیکر دوست مزاری کے وکلا نے معذرت کرلی۔
وکیل عرفان قادر عدالت سے کہا کہ مجھے اپنے موکل سے ہدایات لینے کا وقت دیا جائے جب کہ وزیراعلیٰ پنجاب کے وکیل نے بھی اپنے موکل سے ہدایات لینے کے لئے کورٹ سے مزید وقت مانگ لیا۔
وفاقی وزیر قانون اعظم نظیر تارڑ نے عدالت کو بتایا کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی اس کیس کے لئے فُل کورٹ چاہتے ہیں جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے انہیں جواب دیا کہ آپ کیا کہنا چاہ رہے ہیں ابھی فل کورٹ بنا دیں، چیف جسٹس نے کہا ہے ابھی مزید فریقین کوسننا چاہتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ فل کورٹ بنانے کے لئے مزید قانونی وضاحت کی ضرورت ہے، ہم نے وزیراعظم کو پانچ ججز کے ساتھ گھر بھیجا ہے، وکلا کے دلائل کے بعد فل کورٹ کا فیصلہ کریں گے۔
اس وقت سیاسی صورتِ حال بہت گمبھیر ہے: لطیف آفریدی
اس سے قبل سماعت کے آغاز پرعدالت نے سپریم کورٹ بار کے سابق صدر لطیف آفریدی کو روسٹرم پر بلایا جنہوں نےعدالت کو بتایا کہ آرٹیکل 63 اے کی تشریح کی نظرِثانی درخواستیں زیرِ التوا ہیں۔ اس وقت سیاسی صورتِ حال بہت گمبھیر ہے، بحران شدت اختیار کرتا جا رہا ہے، پورا نظام داؤ پر لگا ہوا ہے، اور پارلیمنٹ بھی نظام کا حصہ ہے۔
سابق صدر سپریم کورٹ بار نے عدالت سے استدعا کی کہ درخواست سماعت کے لیے مقرر کرتے ہوئے فل کورٹ تشکیل دی جائے۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ کے خلاف پرویز الہٰی کی درخواست پر سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ بار کے سابق صدور کے کہنے پر فیصلہ نہیں کر سکتے، سب کو سن کر فیصلہ کریں گے۔
آئینی بحران سے نمٹنے کے لیے فل کورٹ بنایا جائے، لطیف آفریدی کا مطالبہ
لطیف آفریدی نے مؤقف اپنایا کہ موجودہ صورتِ حال میں تمام بار کونسلز کی جانب سے فل کورٹ بنانے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ نظام کو خطرہ ہے، آرٹیکل 63 اے کی تشریح پر نظرثانی درخواست مقرر کی جائے اور آئینی بحران سے نمٹنے کے لیے فل کورٹ بنایا جائے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دئے کہ آپ سب کا بہت احترام ہے، آپ کے مشکور ہیں کہ معاملہ ہمارے سامنے رکھا، آفریدی صاحب، یہ کیس ہماری آرٹیکل 63 اے کی رائے کی بنیاد پر ہے، ہم فریقین کو سن کر فیصلہ کرنا چاہتے ہیں، یکطرفہ فیصلہ نہیں کر سکتے۔
سابق صدور کے کہنے پر فیصلہ نہیں کر سکتے: چیف جسٹس
جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ دس سابق صدور کے کہنے پر فیصلہ نہیں کر سکتے، دوسری طرف کو سننا بھی ضروری ہے۔
سابق صدر سپریم کورٹ بار نے کہا کہ دستیاب ججز پر مشتمل فل کورٹ تشکیل دے کر تمام مقدمات کو یکجا کر کے سنا جائے۔
سیٹ تو آنی جانی چیز ہے، سیٹ کا کیا مسئلہ ہے: فاروق ایچ نائیک
فاروق ایچ نائیک نے عدالت میں کہا کہ کیس میں فریق بننے کی درخواستیں بھی دائر کی گئی ہیں۔
جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ابھی ذرا ابتدائی کیس کو سننے دیں، باقی معاملات بعد میں دیکھیں گے، آپ کو بھی سنیں گے لیکن ترتیب سے چلنا ہو گا۔
چیف جسٹس نے فاروق ایچ نائیک سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ بیٹھیں، امید ہے آپ کی نشست ابھی بھی خالی ہو گی، جس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ سیٹ تو آنی جانی چیز ہے، سیٹ کا کیا مسئلہ ہے۔
اتنی کیا جلدی ہے بھون صاحب پہلے کیس تو سن لیں: چیف جسٹس عمر عطا بندیال
صدر سپریم کورٹ بار احسن بھون نے کہا کہ عدلیہ پر دباؤ ڈالنے کا سوچ بھی نہیں سکتے، مناسب ہو گا آرٹیکل 63 اے کی تشریح پر نظرثانی درخواست پہلے سن لی جائے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اتنی کیا جلدی ہے بھون صاحب پہلے کیس تو سن لیں۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ میں بھی بار کا سابق صدر ہوں، بارصدور کا ان معاملات سے تعلق نہیں ہونا چاہیے۔
جس سوال پر سماعت ہو رہی ہے اسے بتانا میرا کام نہیں، عدالت فیصلہ کرے: عرفان قادر
دوست محمد مزاری کے وکیل عرفان قادر نے عدالت سے فل کورٹ بنانے کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ کیس پر پہلے فیصلہ سنانے والے ججز کیس کی سماعت کر رہے ہیں جس کی وجہ سے پریشانی ہے، واضح ہونا چاہیے کہ کون سا قانونی سوال زیر سماعت ہے، جس سوال پر سماعت ہو رہی ہے اسے بتانا میرا کام نہیں، عدالت فیصلہ کرے۔
عرفان قادر نے کہا کہ مسئلہ شاید پارلیمانی پارٹی اور پارٹی سربراہ کے اختیارات کا ہے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمارے مطابق ہمارے فیصلے میں کوئی ابہام نہیں۔
چیف جسٹس نے عرفان قادر کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ آپ پہلے عدالت کی بات سن لیں، اگر آپ ہماری بات نہیں مانیں گے تو بیٹھ جائیں۔
عرفان قادر نے کہا کہ آپ چیف جسٹس ہیں، آپ ہمیں ڈانٹ سکتے ہیں، لیکن آئین میں بھی انسانوں کی عزت کا ذکر ہے، میں آپ کو محترم جسٹس اعجاز الاحسن کہہ کر بلا رہا ہوں۔
جسٹس منیب اختر نے عرفان قادر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ جو نکتہ اٹھانا چاہتے ہیں ہم سمجھ گئے ہیں، مناسب ہو گا کہ کسی اور وکیل کو موقع دیا جائے۔
پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ مسترد کر دیا جائے گا: منصور اعوان
جسٹس اعجاز احسن نے وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کے وکیل منصور اعوان سے کہا کہ براہ کرم عدالتی فیصلے کے اس نکتے کی طرف اشارہ کریں جس کا حوالہ ڈپٹی اسپیکر نے دیا ہے۔
جس پر منصور اعوان نے کہا کہ پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ مسترد کر دیا جائے گا، یہی بات ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دئیے کہ پارٹی ہدایت اوراعلان دو الگ چیزیں ہیں، کیا کوئی پارٹی لیڈر پارلیمانی پارٹی کا لیڈرہو سکتا ہے؟
جس پرحمزہ شہباز کے وکیل کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 63اے کی 14ویں ترمیم کے ذریعے آئین میں شامل کیا گیا، آرٹیکل 63 اے میں 18ویں ترمیم کے ذریعے مزید وضاحت کی گئی۔
منصوراعوان کا کہنا تھا کہ جسٹس شیخ عظمت سعید کے 8 رکنی فیصلے کے مطابق پارٹی سربراہ تمام فیصلے کرتے ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ 18ویں ترمیم سے پہلے آرٹیکل 63 اے کا حوالہ پارٹی سربراہ کی ہدایات کا تھا۔ 18ویں ترمیم کے بعد پارٹی سربراہ کی جگہ پارلیمانی پارٹی نے لے لی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اس کیس کا براہ راست تعلق ہمارے فیصلے سے ہے۔سربراہ اراکین کیخلاف ریفرنس بھیجنے یا نا بھیجنے کا اختیاررکھتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ دیکھنا ہوگا کہ پارلیمانی پارٹی ہدایات کیسے دے گی ، میری رائے میں عدالتی فیصلہ بالکل واضح ہے۔
جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پارٹی سربراہ کا کردار بھی کافی اہم ہے۔
حمزہ شہباز کے وکیل نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے پر فیصلہ ماضی کی نظیروں کے خلاف ہے، اگر پانچ رکنی بینچ کو لگتا ہے کہ سابقہ عدالتی فیصلہ غلط تھا تو فل بینچ فیصلہ کر سکتا ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا کوئی پارٹی لیڈر، پارلیمانی پارٹی کا لیڈر ہو سکتا ہے؟
جس پر منصور اعوان نے کہا کہ جے یو آئی (ف) کا نام پارٹی سربراہ کے نام پر رکھا گیا ہے۔ مولانا فضل الرحمان پارلیمانی پارٹی کا حصہ نہیں ہیں۔
منصور اعوان کا مزید کہنا تھا کہ پارلیمانی پارٹی عوام کو جوابدہ نہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسننے ریمارکس دئیے کہ پارٹی سربراہ کا کردار بہت اہم ہے، پارٹی رہنما نے منحرف رکن کے خلاف ریفرنس بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ پارلیمانی پارٹی ہدایات دے گی کہ کس کو ووٹ دینا ہے، سربراہ ریفرنس بھیجے گا۔
سماعت سے قبل سپریم کورٹ کے باہر کی صورتِ حال
سپریم کورٹ کے باہر دھکم پیل سے دروازہ اکھڑ گیا، راناثناء اللہ، اسامہ قادری، مولانا اسعد محمود، اسلم بھوتانی اور دیگر کو بھی دھکم پیل کا سامنا کرنا پڑا۔
کیس کا فیصلہ سننے کے لئے عدالت کے باہر سیاسی رہنماؤں، کارکنان کی بڑی تعداد موجود جب کہ پی ٹی آئی کارکنان ہاتھوں میں لوٹے بھی تھامے ہوئے تھے۔
Comments are closed on this story.