Aaj News

اتوار, نومبر 24, 2024  
21 Jumada Al-Awwal 1446  

سپریم کورٹ: نیب ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست پر اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کہتے ہیں رات کو عدالت نہیں لگتی، ہم آپ کو رات تک سنتے ہیں، چیف جسٹس
اپ ڈیٹ 19 جولائ 2022 05:25pm
سپریم کورٹ نے مزید سماعت 29 جولائی تک ملتوی کر دی۔ تصویر: فائل
سپریم کورٹ نے مزید سماعت 29 جولائی تک ملتوی کر دی۔ تصویر: فائل

اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے نیب ترامیم کے خلاف پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی درخواست پر اٹارنی جنرل کونوٹس جاری کردیا ہے۔

سابق وزیراعظم عمران خان کی نیب ترامیم کے خلاف درخواست پر سماعت کے دوران عمران خان کے وکیل خواجہ حارث کو مخاطب کرتے ہوئے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ خواجہ حارث صاحب آپ نے درخواست پر بڑی محنت کی ہے۔

اس پر وکیل پی ٹی آئی نے جواب دیا کہ محنت توترمیم کرنے والوں نے بھی بڑی کی ہے۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہ وزیر قانون کا کہنا ہے ہر ترمیم کی سپورٹ میں عدالتی فیصلے ہیں، کیا ایسا ہی ہے؟ جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ نہیں ایسا نہیں ہے، ترامیم سپریم کورٹ کے فیصلوں کے متصادم اور آئین کے برخلاف ہیں۔

اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دئیے کہ بہت سی ترامیم کو جلد بازی میں منظور کیا گیا، جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ عدالت نے اقوام متحدہ کے اینٹی کرپشن کنونشن کو بھی مدنظر رکھنا ہے۔

وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ زیادہ کیسزاختیارات کے ناجائزاستعمال اورآمدن سے زائد اثاثوں کے ہوتے ہیں، ترمیم کے بعد کسی کو فائدہ پہنچانے پر کیس نہیں بنے گا، جب تک اختیاراستعمال کرنے والا خود فائدہ نہ لے کیس نہیں بن سکے گا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے وکیل سے سوال کیا کہ پارلیمان اگرسزائے موت ختم کرتی ہے تو کیا عدالت اسے بحال کرسکتی ہے؟ وکیل پی ٹی آئی نے جواب دیا کہ سزائے موت ختم کرنے کا معاملہ مختلف ہے۔

وکیل خواجہ حارث نےکہا کہ جہاں کرپشن اور قومی خزانے کا معاملہ ہو وہاں بات بنیادی حقوق کی آتی ہے۔ امیرآدمی دولت جہاں چاہتا ہے منتقل کرلیتا ہے۔ پٹواری فرد کے پیسے لیتا پکڑا جائے تو اس کے خلاف کارروائی ہوتی ہے،کیا بڑے آدمی کے خلاف کارروائی نہیں ہونی چاہیئے؟

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ترمیم سے اختیارات کے ناجائزاستعمال کو بطورجرم ختم نہیں کیا گیا، آپ کی نظرمیں جو ترامیم بنیادی حقوق کے خلاف ہیں پہلے وہ بتائیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کیا پارلیمان کے قانون سازی کے اختیارات کا عدالتی جائزہ نہیں لیا جا سکتا؟ کیا مخصوص افراد کو فائدہ پہنچانے کا قانون چیلنج نہیں ہو سکتا؟ سال 1985 سے ترامیم کے اطلاق کا مطلب ہے زیرالتوا تمام مقدمات بیک جنبش قلم سے ختم ہوگئے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ نیب قانون کا تعلق صرف پبلک آفس ہولڈرز سے نہیں، نیب کے قانون نے بہت سے معاملات میں رکاوٹ پیدا کی ہیں، خاص طور پربیورو کریسی پر نیب قانون کا بڑا اثرپڑا ہے، عدالت مخصوص فرد کیلئے بنےقانون کو کالعدم کرسکتی ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ یہ بھی ذہن میں رکھیں ترامیم پارلیمان نے کی ہیں، جواب میں وکیل پی ٹی آئی خواجہ حارث نے کہا کہ پارلیمان بھی آئین کے ماتحت ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سرکار کا کام آگے بڑھنا چاہیے اور فیصلہ سازی ہونی چاہیے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ نیب قانون کی وجہ سے سرکاری افسران فیصلہ کرنے سے ڈرتے ہیں، نیب قوانین میں جوترامیم بنیادی حقوق کے خلاف نہیں انہیں الگ رکھنا ہوگا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ نیب قانون نے ہمیں پیچھے بھی دھکیلا ہے، فیصلہ ساز ملکی مفاد میں فیصلے سے ڈرتے تھے کہ نیب نہ پکڑلے، یہی وقت ہے کہ ہم ان سب قوانین کو بغور دیکھیں۔

دوران سماعت جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دئیے کہ صرف صدر مملکت نے ترامیم پر ٹوکن مزاحمت کی تھی، صدر مملکت نے مزاحمت قانون کی منظوری نہ دے کرکی تھی۔

سماعت کے دوران سابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے عدالت سے کہا کہ نیب قانون بنتے وقت میں کمیٹی کا ممبرتھا، کمیٹی میں نیب کا قانون تفصیلی طورپر زیر بحث آیا۔

عدالت نے کہا کہ ہمیں احساس ہے کہ ان مقدمات کی وجہ عدالت میں سننے والا عام آدمی متاثرہوتا ہے، پارلیمان کے اندرحل کیا ہے کچھ شرائط ہیں آپ کا شرکت کرنا بھی شرائط میں شامل ہے، بغیرکسی رکاوٹ کے یہ بل منظورہوئے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ یہ سارے نکات اسمبلی میں اٹھائے جانے چاہییں تھے۔

سماعت کے دوران پی ٹی آئی کی جانب سے نیب ترامیم کا ملزمان کو فائدہ پہنچانے کو عدالتی فیصلے سے مشروط کرنے کی استدعا کی گئی جبکہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے پی ٹی آئی کی استدعا کی مخالفت کی۔

جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ ریلیف عدالتی فیصلے سے مشروط ہو تو حکومت کو کیا مسئلہ ہے؟

وکیل تحریک انصف نے کہا کہ کئی مقدمات میں ٹرائل کورٹس میں ریلیف کی درخواستیں آ چکی ہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اگرترامیم کالعدم ہوئیں تو ملنے والا فائدہ واپس ہوجائے گا۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ فائدہ ملنے کے بعد واپس ہونے سے قانونی چارہ جوئی شروع ہوجائے گی۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں ترامیم چیلنج ہوچکی ہیں، مناسب ہوگا پہلے ہائی کورٹ کو فیصلہ کرنے دیا جائے۔

بعدازاں نیب قوانین میں ترامیم کے خلاف درخواست پر سپریم کورٹ نے فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے مزید سماعت 29 جولائی تک ملتوی کر دی۔

Chief Justice

Supreme Court

اسلام آباد

imran khan

justice umer ata bandiyal