پاکستانی نژاد امریکی یہودی برسوں کی کوششوں کے بعد اسرائیل پہنچ گیا
فشیل بن خالد نامی ایک پاکستانی یہودی نے کئی برسوں کی کوششوں کے بعد اسرائیل کا دورہ کیا ہے۔
ایم ایس این ڈاٹ کام کے مطابق فشیل بن خالد کو اب یروشلم میں یہودیوں کے لیے مذہبی اہمیت رکھنے والی جگہ، ویلنگ وال، میں عبادت کر سکیں گے۔
ان کا ماننا ہے کہ مذہبی آزادی کا ایک وعدہ محمد علی جناح نے 1947 میں کیا تھا کہ “آپ کا تعلق کسی بھی مذہب یا ذات یا مسلک سے ہو، اس کا ریاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔”
اس کے باوجود پاکستانی ریاست شہریوں کو اپنے پاکستانی پاسپورٹ پر اسرائیل کا سفر کرنے سے منع کرتی ہے، جس کے صفحہ نمبر تین پر لکھا ہے کہ “یہ پاسپورٹ اسرائیل کے علاوہ دنیا کے تمام ممالک میں چل سکتا ہے۔”
لہٰذا کراچی کے فشیل بن خالد کے لیے پاکستان میں سرکاری سطح پر ایک یہودی کے طور پر رجسٹر ہونے اور اس پاسپورٹ پر اسرائیل میں عبادت کرنے کے لیے جانا کوئی چھوٹا کارنامہ نہیں ہے۔
ان کے والد مسلمان تھے اور والدہ ایرانی نژاد یہودی۔
فشیل بن خالد ایک سول انجینئر ہیں اورکراچی میں یہودیوں کے واحد قبرستان، بنی اسرائیل، کی حفاظت کے لیے مہم چلا رہے ہیں، جو کہ خستہ حالت میں ہے۔
معدوم پاکستانی یہودی
تقسیم کے وقت پاکستان کے شہروں کراچی، کوئٹہ، راولپنڈی اور لاہور میں یہودیوں کی ایک چھوٹی سی برادری تھی۔
ان میں بہت سے لوگ 1948 میں بھارت اور اسرائیل چلے گئے تھے۔
جبکہ 2013 میں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 809 یہودی رجسٹرڈ ووٹرز کی گنتی کی تھی، 2017 تک یہ تعداد 900 تک پہنچ گئی۔ یہ اعداد و شمار پاکستان میں یہودیوں کی تمام چیزوں کی طرح، سازشی سمجھے جاتے ہیں۔
پاکستان میں بہت سے یہودی سرکاری دستاویزات میں مسلم یا عیسائی ظاہر کر کے اپنی شناخت چھپاتے ہیں۔
برادری کے لوگوں کے دعووں کے مطابق، پاکستان میں 200 سے کم یہودی رہ گئے ہیں، اور ان 200 میں سے جب فشیل بن خالد اپنی مذہبی شناخت کا دعویٰ کرتے ہیں، تو ان کو اپنے مالک مکان کے ہاتھوں امتیازی سلوک اور ہجوم کے حملوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
Comments are closed on this story.