مڈل کلاس نوجوان ڈیٹ پر جائے بھی تو کیسے؟
پاکستانی معاشرے میں گھر والوں کی جانب سے طے کی گئی شادیوں کا رجحان زیادہ ہے، تو دوسری جانب کچھ گھرانوں میں اب بھی لڑکے اور لڑکیوں، دونوں کیلئے “ڈیٹنگ” کو منافی سمجھا جاتا ہے جب کہ بعض والدین اور عزیز و اقارب انہیں ایسا اقدام نہ اُٹھانے کی بھی تلقین کرتے ہیں۔
بلفرض ایک لڑکا اور ایک لڑکی ڈیٹ پر جانے کی ہمت کر بھی لیں تو کئی باتیں ایک مڈل کلاس نوجوان خاص طور پر لڑکے کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہیں۔
لڑکے سے اُمید کی جاتی ہے کہ وہ پڑھ لکھ کر گھر سنبھالے، لیکن اس دورانیے میں اگر وہ ڈیٹنگ کرنا چاہے تو بھی اسے کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اس معاملے میں لڑکے کے لئے مسائل کا انبار لگانے کا سارا الزام معاشرے کو دینا بھی نا انصافی ہوگی کیونکہ بعض اوقات لڑکا اپنے خیالوں کو بڑھاوا دینے کی وجہ سے مار کھاتا ہے۔ مان لیں کہ انسان کو اپنی چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانے چاہیئے، البتہ یہاں بات کسی لڑکی کو متاثر کرنے کی نہیں ہو رہی بلکہ آج کا نوجوان کسی انجان شخص سے ملاقات کے موقع پربھی اس کو بہتر اور ہر لحاظ سے مراعات یافتہ عیاں کرتا ہے۔
مجھے معلوم ہے آپ سوچ رہے ہوں گے میں مڈل کلاس کا لفظ کیوں استعمال کر رہا ہوں۔ دراصل پاکستانی معاشرے میں، خاص طور پر شہروں میں طبقاتی نظام کے تحت ایک 25 سالہ نوجوان کے پاس اگر بڑی گاڑی نہ ہو یا وہ کسی پوش علاقے کا رہائشی نہ ہو تو وہ مڈل کلاس کے زمرے میں آتا ہے۔
فرض کریں کہ اگر دفتر میں نوجوان اپنی کسی ساتھی کو متاثر کرنا چاہے تو جانے انجانے میں کسی نا کسی لحاظ سے وہ اُسے متاثر کرنے کے حربے ضرور اختیار کرتا ہے۔ بالکل اسی طرح وہ ڈیٹنگ کے مرحلے سے قبل بھی ایک لڑکی کو مثبت تاثر دینے کے مارے بعض اوقات حقیقت کے بجائے غیر مستند معلومات فراہم کرکے سمجھتا ہے کہ شاید ان باتوں سے سامنے والے بندے پر مثبت “امپریشن” پڑ جائے گا لیکن یہ محض چار دن کی چاندنی کے سوا کچھ نہیں ہے۔
اپنا امپریشن بنانے کی خواہش انسان کو کس حد تک لے جا سکتی ہے وہ اس بات سے ظاہر ہے کہ اکثر لڑکے اپنا اصل رہن سہن چھپا کر ایک پُر آسائش زندگی تصویر پیش کرنے کے لیے بھی تیار ہوتے ہیں۔
اس کی ایک مثال لے لیجئے۔
میں نے دیکھا ہے کہ کسی لڑکی کے ساتھ ملنے کی جگہ طے کرتے وقت اکثر لڑکے شہر کی کوئی مہنگی جگہ کا انتخاب کرتے ہیں، جس سے یہ ظاہر ہو سکے کہ اس کا اٹھنا بیٹھنا ہی ایسے مقامات پر ہے۔
موجودہ دور میں متوسط طبقے کا ہر نوجوان اپنے مستقبل کو سنوارنے کیلئے آنکھوں کی پُتلیوں میں اونچے خوابوں کا مینار محفوظ کیے کامیابیوں کی بلندی کو سر کرنے کا خواہاں ضرور ہے مگر در حقیقت وہ معاشرے میں خود کو مالی طور پر غیر مستحکم عیاں کرنے میں شرم اور لوگوں کو متاثر کرنے کی دوڑ میں زیادہ مصروف دکھائی دیتا ہے۔
بات یہیں ختم نہیں ہوئی بلکہ مطلوبہ منزل کی جانب گامزن ہونے سے پہلے وہی مڈل کلاس شخص اپنی استطاعت کے مطابق جوڑہ زیب تن کرکے ان پر خوشگوار پرفیوم چھڑکتا ہے کہ کہیں گرمی کے موسم میں موٹر سائیکل پر سوار ہونے کے دوران پسینے کی بُو کو ساتھ بیٹھے محبوب تک رسائی نہ مل سکے۔
ایک نوجوان کے مطابق بعض اوقات تمام مراحل میں سب سے سخت مرحلہ موقع پر پہنچنے کے بعد اپنی گھبراہٹ پر پردہ ڈال کر حاضر دماغی کا بخوبی استعمال کرتے ہوئے باتوں سے کھانے کے سفر تک اپنے سلیکے کو عیاں کرنا ہوتا ہے۔
عمومی طور پر لڑکا خود ریسٹورنٹ میں بِِل ادا کرنے کے بے معنی عمل کو فرض بھی تصور کر بیٹھتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا ایک مڈل کلاس لڑکے کو اپنی نوجوانی ان پریشانیوں میں لگانی چاہیے، یا ان باتوں کو اپنی روز مرہ خوشی اور کانفیڈنس کی راہ میں رکاوٹ بننے سے روکنا چاہیے؟
میری طرح جو اِن مراحل سے نہیں گزرے وہ یقیناً حیرت کر رہے ہوں گے کہ آج کے دور میں بھی کسی کو حاصل کرنے کے لئے اپنی ذات کو ذہنی وجسمانی کشماکش میں مبتلا کرنا انتہائی احمقامہ حرکت ہے۔ بجائے اس کے کہ اتنی محنت اور جذبے کے ساتھ پہلے کیوں نہ خود پر توجہ بلخصوص اپنے مستقبل کے بارے میں سوچا جائے۔
ان مختصر باتوں کی وضاحت کرنا مڈل کلاس کو مجرم ثابت کرنےیا کسی فردِ واحد کے جزبات کی تزلیل کرنا نہیں بلکہ اس نقطے کو اُجاکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ایسی تمام چیزیں انسان کی مجموعی شخصیت پر منفی طور پر اثر انداز ہوتی ہیں۔
ایک نوجوان کو بڑھتے ہوئے پُر اعتماد یا کم از کم ماحول سے راحتمند ہونا چاہیے تاکہ وہ اپنی ترجیحات طے کرنے پر توجہ مرکوز کرسکے۔
Comments are closed on this story.