Aaj News

پیر, دسمبر 23, 2024  
20 Jumada Al-Akhirah 1446  

سپریم کورٹ کی ای سی ایل ترامیم کو قانونی دائرے میں لانے کیلئے ایک ہفتے کی مہلت

نیب کے مطابق اربوں روپے کی کرپشن کے ملزمان کے نام ای سی ایل سے نکالے گئے، کیس میں ذاتی رائے پر نہیں جائیں گے، ممکن ہے عدالتی حکم مشکلات پیدا کرے، لیکن ایک ہفتے میں مناسب اقدامات کرلیں، ہم ایگزیکٹو اختیارات میں فی الحال مداخلت نہیں کرنا چاہتے، چیف جسٹس
شائع 03 جون 2022 02:34pm

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے ایف آئی اے اور نیب کے ہائی پروفائل مقدمات کا ریکارڈ طلب کرتے ہوئے حکومت کو ای سی ایل ترامیم کو قانونی دائرے میں لانے کیلئے ایک ہفتے کی مہلت دے دی اور واضح کیا کہ عمل نہ ہونے کی صورت میں حکم جاری کریں گے۔

چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5رکنی بینچ نے حکومتی شخصیات کی تحقیقاتی اداروں میں مبینہ مداخلت کے کیس کی سماعت کی۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ایسے ملزم کا نام بھی ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکال دیا گیا جو عدالت عظمیٰ نے شامل کروایا تھا، نیب مقدمات کے نام ای سی ایل میں کون شامل کرواتا ہے؟

چیف جسٹس پاکستان کے استفسار پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ای سی ایل میں نام چیئرمین نیب کی ہدایت پر شامل کئے جاتے ہیں۔

جس پر جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ اس کا مطلب ہے نیب سوچ سمجھ کر ہی نام ای سی ایل میں ڈالنے کا کہتا ہے، نیب کا ہر کیس ہی کرپشن کا ہوتا ہے لیکن نیب ہر ملزم کا نام ای سی ایل میں شامل نہیں کرواتا۔

جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دیئے کہ بہتر ہوتا کہ ہر کیس کا الگ جائزہ لے کر نام نکالے جاتے ،حکومت کہتی ہے کہ بیرون ملک جانا بنیادی حق ہے، اگر ایسا ہے تو ای سی ایل کا کیا جواز رہ گیا ہے؟ ۔

اٹارنی جنرل آف پاکستان اشتر اوصاف کا کہنا تھا کہ میری رائے میں تو ای سی ایل ہونی ہی نہیں چاہیئے۔

جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ نیب کے مطابق اربوں روپے کی کرپشن کے ملزمان کے نام ای سی ایل سے نکالے گئے،کیس میں ذاتی رائے پر نہیں جائیں گے ممکن ہے عدالتی حکم مشکلات پیدا کرے لیکن ایک ہفتے میں مناسب اقدامات کرلیں، ہم ایگزیکٹو اختیارات میں فی الحال مداخلت نہیں کرنا چاہتے۔

جسٹس منیب اختر کے استفسار کہ ای سی ایل ترامیم کا گزشتہ تاریخوں سے نفاذ کا فیصلہ کس نے کیا؟ کا جواب دیتے ہوئے اٹارنی جنرل نے کہا کہ نام نکالنے اور گزشتہ تاریخوں سے نفاذ کا فیصلہ سب کمیٹی کی سفارشات پر ہوا۔

سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران ایف آئی اے کے ڈی جی لاء نے بتایا کہ شرجیل میمن سمیت 8 افراد ملک سے باہر گئے اور واپس نہیں آئے۔

چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے ڈی جی ایف آئی اے کو ہدایت کی کہ اگر کوئی زبردستی کیس بنوانے کی بات کرے تو عدالت کو آگاہ کریں،آپ سول سرونٹ ہیں، کسی کی مداخلت تسلیم نہ کی جائے۔

عدالت نے ایف آئی اے اور نیب کے ہائی پروفائل مقدمات کا ریکارڈ مانگتے ہوئے حکم جاری کیا کہ تمام ثبوتوں اور ریکارڈ کی سافٹ کاپی جمع کروائی جائے،اگر ریکارڈ گم ہوا تو سپریم کورٹ سے آپ کو مل جائے گا۔

پراسیکیوٹر جنرل نے عدالت سے کہا کہ نیب کو مقدمات کا جائزہ لینے کیلئے وقت دیا جائے، چیئرمین نیب کی تعیناتی کے بعد ہی احکامات پر عمل ممکن ہوگا۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ چیئرمین نیب کے حوالے سے توقع ہے حکومت سوچ سمجھ کر تعیناتی کرے گی، معاملے پر نظر رکھے ہوئے ہیں، حکومت سے اچھی توقع ہے کہ صاف، ایماندار، قابل اور نیک نام شخص کو چیئرمین نیب لگایا جائے۔

جسٹس عمر عطاء بندیال نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ توقع ہے جو کہنا چاہ رہا ہوں آپ سمجھ گئے ہوں گے، نیب بھی یقینی بنائے کہ اس کا ادارہ کسی کیخلاف انتقام کیلئے استعمال نہ ہو۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ عدالت کو تشویش آزادانہ تفتیش اور ٹرائل کے حوالے سے ہے، نظام انصاف کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے، یہ کہنا درست نہیں کہ پاکستان کی عدلیہ 128 ویں نمبر پر ہے،پاکستان کی رینکنگ ڈیٹا نہیں بلکہ تاثر کی بنیاد پر کی گئی۔

بعد ازاں عدالت عظمیٰ نے ازخود نوٹس کیس کی سماعت 14 جون تک ملتوی کردی۔

Chief Justice

Supreme Court

اسلام آباد

justice umer ata bandiyal