Aaj News

جمعہ, نومبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Awwal 1446  

سپریم کورٹ نے ہائی پروفائل مقدمات میں تحقیقاتی افسران کے تبادلوں پر تاحکم ثانی پابندی لگادی

سپریم کورٹ نے نیب اور ایف آئی اے کو تاحکم ثانی کوئی بھی مقدمہ عدالتی فورم سے واپس لنے سے روک دیا۔
اپ ڈیٹ 19 مئ 2022 03:54pm

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے ہائی پروفائل مقدمات میں تحقیقاتی افسران کے تبادلوں پر تاحکم ثانی پابندی لگا دی جبکہ عدالت نے نیب اور ایف آئی اے کو تاحکم ثانی کوئی بھی مقدمہ عدالتی فورم سے واپس لینے سے روک دیا ۔

چیف جسٹس عمرعطاء بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے حکومتی شخصیات کی جانب سے تحقیقات میں مبینہ مداخلت کے معاملے پر ازخود نوٹس کی سماعت کی۔

لارجر بینچ میں جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظاہرعلی نقوی اور جسٹس محمد علی مظہر شامل ہیں۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ نیب لاہور اور ایف آئی اے سے کئی افسران کا تبادلہ کیا گیا، ہائی پروفائل کیسز میں تبادلے اور تقرریوں پر تشویش ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ اس طرح کیوں ہو رہا ہے؟ اٹارنی جنرل صاحب، آپ کے آنے کا شکریہ، کیا آپ نے سوموٹو کیس کی پیپر بک پڑھی ہے؟

اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے جواب دیا کہ پیپر بک نہیں پڑھی، جس پر انہیں سوموٹو نوٹس کی پیپر بک پڑھنے کیلئے دی گئی۔

چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ پیپربک کا پیراگراف 2اور 3پڑھ لیں،ایف آئی اے لاہورکی عدالت میں پراسیکیوٹرکو تبدیل کردیا گیا، ڈی جی ایف آئی اے ثناء اللہ عباسی اورڈائریکٹررضوان کو بھی تبدیل کردیا گیا، سوموٹو کا بیک گراؤنڈ آپ نے پڑھ لیا ہے؟۔

چیف جسٹس پاکستان نے اٹارنی جنرل کو پیپر بک پڑھنے کی ہدایت کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ ڈی جی ایف آئی اے نے ایک تفتیشی افسر کوپیش ہونے سے منع کیا، پراسیکیوشن برانچ اورپراسیکیوشن کے عمل میں مداخلت نہیں ہونی چاہیئے، پراسیکیوشن افسران کو ہٹانے کی وجوہات جاننا چاہتے ہیں۔

جسٹس عمر عطاء بندیال نے تبادلوں پر تشویش کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ ڈی جی ایف آئی اے سندھ سے ہیں اچھا کام کررہے تھے جبکہ کے پی کے میں بھی ان کی کارکردگی اچھی تھی، ڈی جی ایف آئی اے ثناء االلہ عباسی اچھی شہرت کے حامل افسر ہیں، ڈاکٹر رضوان کو بھی تبدیل کردیا گیا، ڈاکٹررضوان کو بعد میں ہارٹ اٹیک ہوا، ان معاملات پر تشویش ہے۔

ای سی ایل قوانین میں ترمیم پر بھی اظہار تشویش کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ اخبارکے مطابق ای سی ایل سےنام نکلنے پر ہزاروں افراد کا فائدہ ہوا، ان معاملات کو جاننا چاہتے ہیں، خبر کے مطابق ای سی ایل رولز میں تبدیلی سے 3 ہزارافراد کو فائدہ ہوا، ہم ایسی خبریں ایک ماہ سے دیکھ اورپڑھ رہے ہیں، اس سے قانون کی حکمرانی پراثر پڑرہا ہے، امن اور اعتماد کو معاشرے میں برقرار رکھنا آئین کے تحت ہماری ذمہ داری ہے، قانون کی حکمرانی کو برقراررکھنا ہے۔

ازخود نوٹس کی وضاحت کرتے ہوئے چیف جسٹس عمرعطاء بندیال نے کہا کہ یہ کارروائی کسی کو ملزم ٹھہرانے یا کسی کو شرمندہ کرنے کیلئے نہیں ہے، یہ کارروائی فوجداری نظام اور قانون کی حکمرانی بچانے کیلئے ہے، چاہتے ہیں آرٹیکل 10/A 4 اور25 پرعمل کیاجائے، ہم متعلقہ فریقین کو نوٹس جاری کررہے ہیں۔

سپریم کورٹ نے چیئرمین نیب، ڈی جی ایف آئی اے اور سیکرٹری داخلہ کو نوٹس جاری کردیئے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ وضاحت کریں مقدمات میں مداخلت کیوں ہورہی ہے؟، ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے مداخلت پر بیان دیا۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ایف آئی اے نے ان معاملات کی تردید نہیں کی، ایف آئی اے کا مؤقف ہے یہ روٹن کے معاملات ہیں۔

چفٹ جسٹس پاکستان نے کہا کہ امید کرتا ہوں کہ وفاقی حکومت ان اقدامات کی وضاحت کرنے میں تعاون کرے گی، اپریل اورمئی میں کئی اخباری خبروں کو پیپر بک میں شامل کیا گیا، خبروں کے مطابق نیب کا فوجداری ریکارڈ غائب ہونا شروع ہوگیا، نبب کے 4 مقدمات میں ریکارڈ گم ہونے کی خبربھی ہے، اٹارنی جنرل ان معاملات میں ہماری مدد کریں، جج کو اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہونا چاہیئے، ججز کو بڑا محتاط ہونا چاہیئے، ججز کو قانون کے مطابق فرائض سمجھنے ہیں۔

عدالت نے صوبائی پراسیکیوٹرجنرلز، سربراہ پراسیکیویشن ایف آئی اے اور لیگل ڈائریکٹر ایف آئی اے کو بھی نوٹس جاری کردیا۔

عدالت عظمیٰ نے کہا کہ تمام افسران اپنے تحریری جوابات جمع کروائیں۔

جسٹس مظاہرعلی نقوی نے کہا کہ ایف آئی اے پراسیکیوٹرنےعدالت میں تحریری درخواست دی اوربتایا کہ انہیں پیش نہ ہونے کا کہا گیا ہے، پراسیکیوٹر کو کہا گیا جو بندہ وزیراعلیٰ یا وزیراعظم بننے والا ہے اس کے مقدمے میں پیش نہ ہو۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ بظاہر یہ ٹارگٹڈ ٹرانسفرپوسٹنگ کئے گئے، اس پر تشویش ہے، اس لئے چیف جسٹس نے سو موٹو نوٹس لیا آپ تعاون کریں۔

اٹارنی جنرل اشتراوصاف نے جواب دیا کہ ایف آئی اے کے پاس ان تبدیلیوں کی کوئی معقول وجہ ہوگی۔

جسٹس مظاہر علی نقوی نے کہا کہ ای سی ایل سے نام نکالنے کیلئے درخواست دینا پڑتی ہے، سینکڑوں لوگوں کی درخواستیں زیرالتواء میں رہتی ہیں۔

جسٹس اعجاز الااحسن نے کہا کہ ای سی ایل سے نام نکالنے کا کیا طریقہ کار اختیار کیا گیا؟۔

جسٹس عمرعطاء بندیال نے کہا کہ ہماری تشویش صرف انصاف فراہمی کیلئے ہے، تحقیقاتی عمل کے وقار، عزت اورتکریم برقراررکھنا چاہتے ہیں، ہم یہ پوائنٹ اسکورنگ کیلئے نہیں کررہے، ہم کسی قسم کی تنقید سے متاثر نہیں ہوں گے، ہم آئیں اوراللہ کوجوابدہ ہیں، ہمیں تعریف کی ضرورت نہیں، ہمیں تنقید کا بھی کوئی خوف نہیں۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ صرف انصاف کی فراہمی چاہتے ہیں جواندراج مقدمہ سے فیصلے پر ختم ہوتی ہے، سایسی جماعتوں کے سوشل میڈیا سیل بہت مضبوط ہیں، ہم خاموش تماشائی بن کریہ چیزیں نوٹ کرتے رہے، مئی سے یہ اقدامات ہونا شروع ہوئے جن کو دیکھتے رہے، مقدمات کے ملزم کو ابھی مجرم قرار نہیں دیا گیا، مقدمات کے ملزمان کوعدالت نے سزائیں نہیں سنائیں،انصاف کے نظام سے کوئی بھی کھلواڑ نہ کرے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ آئیڈیا سسٹم کی ساکھ کوبرقراررکھتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم عدالتی کاروائی کا جائزہ لے رہے ہیں، لاہور اور کراچی کی خصوصی عدالتیں ججزسے خالی پڑی ہیں، اسلام آباد کی 3 احتساب عدالتیں خالی ہیں۔

سپریم کورٹ نے ہائی پروفائل مقدمات میں پراسیکیوشن ٹیم تبدیل نہ کرنے کا حکم دیتےہوئے کہا کہ ہائی پروفائل مقدمات میں پراسیکیوشن تحقیقات برانچ میں تاحکم ثانی ٹرانسفر پوسٹنگ نہیں کی جائے گی۔

عدالت عظمیٰ نے نیب اور ایف آئی اے کو تاحکم ثانی کوئی بھی مقدمہ عدالتی فورم سے واپس لینے سے روک دیا۔

عدالت نے کہا کہ آرٹکلق 25 ، 10/A اور4 کی عملداری ہونا چاہیئے، کریمنل جسٹس سسٹم کی شفافت اورساکھ کربرقراررکھا جائے، عدالتی کاروائی کا مقصد صرف اسی حد تک ہے۔

سپریم کورٹ نے تمام صوبائی پراسیکیوٹر جنرلز، سربراہ پراسیکیوشن ایف آئی اے اور تمام صوبائی ایڈووکیٹ جنرل کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ازخود نوٹس کی سماعت 27 مئی تک ملتوی کردی۔

Chief Justice

Supreme Court

اسلام آباد

justice umer ata bandiyal

suo motu notice