ہم نے آئین کی تشریح آئندہ نسلوں کیلئے کرنی ہے، چیف جسٹس عمر عطاء بندیال
اسلام آباد: سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح کیلئےصدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ آرٹیکل 63 اے کی تشریح کرے گی، سپریم کورٹ کو25 منحرف اراکین سے کوئی غرض نہیں، ہم نےآئین کی تشریح آئندہ نسلوں کیلئےکرنی ہے، چاہے تنقید ہو، ہم ہنس کرآئینی ذمہ داری پوری کرتےہیں۔
چیف جسٹس عمرعطاء بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5رکنی لارجر بینچ نے آرٹیکل63اےکی تشریح کیلئےصدارتی ریفرنس پرسماعت کی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ایک بات واضح کردیناچاہتےہیں، ازخودنوٹس کسی کی خواہش پرنہیں لتیے، سپریم کورٹ سوچ بچار کے بعد ازخود نوٹس لیتی ہے،ڈپٹی اسپیکرکی رولنگ پر12 ججزایک ساتھ بیٹھے، آئینی بحران کو بھانپتے ہوئے ججزکی متفقہ رائے تھی کہ سپریم کورٹ کونوٹس لیناچاہیئے، ریفرنس اورآئینی درخواستیں عدالت کے سامنے ہیں، مخدوم علی خان کی التواء کی درخواست بھی آئی ہے۔
معاون وکیل نے کہا کہ مخدوم علی خان 15مئی کی شام ملک واپس پہنچیں گے۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ اتنا انتظارکرنا ممکن نہیں ہوگا، مخدوم علی خان سےجلدواپس آنے کی درخواست کریں، بابراعوان کے بعد اظہرصدیق کامؤقف بھی سنیں گے، قانونی سوال پرعدالت اپنی رائے دینا چاہتی ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ سوال صرف آرٹیکل63اےکی تشریح کاہے،تشریح وفاق پرلاگوہویا صوبوں پریہ ہمارامسئلہ نہیں،عدالت کی رائے پرعملدرآمد کے تمام فریق پابند ہوں گے۔
پی ٹی آئی کے وکیل اظہر صدیق نے کہا کہ سینیٹ الیکشن میں عدالتی رائے کا احترام نہیں کیاگیا۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ نئےاٹارنی جنرل بھی اپنی رائےدیناچاہتےہیں،63اے کے تحت نااہلی ریفرنس الیکشن کمیشن میں زیرالتواءہے،الیکشن کمیشن سے ایک فریق سپریم کورٹ اپیل میں آئے گا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آئین کا تحفظ ہمارا فرض ہے، آرٹیکل 63 اے کی تشریح کریں گے، ازخود نوٹس بینچ کی مرضی سے لیا جاتاہے،ڈپٹی اسپیکررولنگ پر ازخود نوٹس آئین کے تحت لیا،ازخودنوٹس لینےکےدائرہ اختیارکوریگولیٹ کرنےجارہےہیں، جلد ازخود نوٹس لینے کے رولزطے کر لیں گے،آرٹیکل 63 اے کی تشریح آئین کا معاملہ ہے ، سپریم کورٹ آرٹیکل 63 اے کی تشریح کرے گی، چاہے تنقید ہو، ہم ہنس کرآئینی ذمہ داری پوری کرتےہیں۔
وکیل بابر اعوان نے کہا کہ عدالت کا بڑا ادب اور احترام ہے، جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ کی ادب کی بات کی قدرکرتے ہیں، کاش یہ ادب واحترا م لوگوں میں بھی پھیلائیں،لوگوں کوبتائیں کہ عدالت رات کوبھی کھلتی ہے،بلوچستان ہائیکورٹ رات ڈھائی بجے بھی کھلی تھی۔
وکیل بابراعوان نے کہا کہ اس بحث میں نہیں جانا چاہیئے،وکالت میں اس سےمشکل حالات بھی دیکھے ہیں،آرٹیکل 63 اےاور62 کوملا کرپڑھا جائے۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ منحرف ارکان کیخلاف الیکشن کمیشن میں ریفرنس ہے،ریفرنس کے باوجودقانونی سوال اپنی جگہ پرموجودہے،آرٹیکل 63 اے آئین کا حصہ ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا الیکشن کمیشن انحراف رکن کوبد دیانت قرار دے سکتا ہے؟، جس پر وکیل بابراعوان نے کہا کہ الیکشن کمیشن رکن کوبدیانت یا ایماندار قرار دے سکتا ہے، پنجاب اسمبلی ارکان نے کھلے عام دوسری جماعت کو ووٹ دیا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا نااہلی صرف دوسری جماعت میں جانےسےہی ہوتی ہے؟عدالت انحراف پرنااہلی کی سزا ہونی چاہیئے یا نہیں؟۔
جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ ہم نےآئین کی تشریح آئندہ نسلوں کیلئےکرنی ہے، آرٹیکل 63اور64 دونوں میں سیٹ خالی ہوجاتی ہےلیکن دونوں آرٹیکل ایک نہیں ہیں،ہم نے آئین کی ان شقوں کے مقصد تک پہنچناہے، سپریم کورٹ کو25 منحرف اراکین سے کوئی غرض نہیں،عدالت اورایگزیکٹوکے فنکشنزمیں فرق ہوتا ہے، عدالت واقعے کے رونما ہونے کے بعد فیصلہ کرتی ہے، ازخود نوٹس کے اثرات کی مثال دی جاتی ہے، ریکوڈک میں ایگزیکٹوذمہ داری پوری کرنےمیں ناکام ہوئی۔
وکیل بابراعوان نے کہاکہ ہائیکورٹ نےصدرسےمتعلق تضحیک آمیزریمارکس دیئے،جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ صدرسے متعلق ریمارکس اگردرست نہیں تودرخواست دیں۔
بعدازاں سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کی آئینی درخواست پرفریقین کو نوٹس جاری کرتےہوئے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔
Comments are closed on this story.