پاکستان میں ایک سال سے زائد کے عرصے بعد پولیو کیس رپورٹ
رپورٹ: کامران علی
پشاور: ملک میں 22 اپریل کو خیبر پختونخواہ کے ضلع شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے 15 ماہ کے لڑکے میں پولیو کی تصدیق کے بعد پاکستان کی پولیو سے پاک ملک کی امید پر پانی پھر گیا ہے۔
ایمرجنسی آپریشن سینٹر کے کوآرڈینیٹر عبدالباسط نے تصدیق کی کہ "پاکستان میں 15 ماہ اور خیبر پختونخوا میں 21 ماہ کے بعد یہ پہلا کیس ہے۔"
نیشنل ایمرجنسی آپریشن سینٹر کی پریس ریلیز میں بچے کے والدین کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ بخار ہونے سے پہلے اور نچلے اعضاء کی کمزوری کے بعد بچہ بالکل ٹھیک تھا، کمزوری ختم ہونے کے بعد والدین میران شاہ میں ڈاکٹر سے مشورہ کے لیے گئے لیکن حالت بگڑنے کی وجہ سے وہ بچے کو حیات آباد میڈیکل کمپلیکس پشاور لے گئے جہاں ڈاکٹر نے بچے کو اے ایف پی کیس (ایکیوٹ فلاکیڈ فالج) قرار دیا۔
صوبائی ایمرجنسی آپریشن سینٹر کے مطابق بچے کے والدین نے اسے ویکسین پلانے سے انکار کردیا جس کے نتیجے میں کیس کا پتہ چلا ہے۔
ای او سی کوآرڈینیٹر نے ریمارکس دیئے کہ بچے کے ماموں بھی پولیو مہم میں ایریا انچارج ہیں، لیکن رضاکار پولیو ورکرز کی مدد سے خاندان نے جعلی فنگر مارکنگ کی ہے۔
کوآرڈینیٹر باسط نے کہا کہ علاقے میں وائرس کے مزید پھیلاؤ کو روکنے ہنگامی حفاظتی ٹیکوں کی مہم کیلئے ٹیمیں تعینات کی گئی ہیں۔ تاہم، والدین اور محکمہ صحت کے تعاون کے بغیر مہمات کامیاب نہیں ہو سکتیں۔
آج نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے باسط نے کہا کہ کے پی محکمہ صحت کے ورکرز پولیو پروگرام میں رضامندی اور تعاون نہیں کر رہے۔
انہوں نے بتایا ہے کہ "ان علاقوں میں پولیو پروگرام میں عدم تعاون، رکاوٹوں اور مسائل کی وجہ سے بہت سے ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسرز کا تبادلہ کر دیا گیا ہے، لیکن صورتحال اب بھی حوصلہ افزا نہیں ہے۔"
باسط مزید بتاتے ہیں کہ حوصلہ افزائی کیلئے وزیرستان میں پولیو رضاکاروں کو نسبتاً دوگنی تنخواہیں دی جاتی ہیں۔ لیکن قبائلی اضلاع خصوصاً وزیرستان میں پولیو ورکرز کیلئے سیکیورٹی کے خراب حالات کی وجہ سے پولیو ٹیمیں وہاں جانے سے گریزاں ہیں۔
ای او سی کوآرڈینیٹر نے ناکام مہم کے چار اہم عوامل کی نشاندہی کی ہے، جس میں والدین کا ویکسین سے انکار، جعلی فنگر مارکنگ، پولیو کے حوالے سے محکمہ صحت کا عدم تعاون اور مستقل پولیو ورکرز کی عدم دستیابی شامل ہیں۔
پولیو کے کیسز میں زبردست کمی کے باوجود پاکستان ان دو ممالک میں سے ایک ہے، جہاں سے پولیو کا ابھی تک خاتمہ نہیں ہو سکا ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان کے علاوہ افغانستان میں اب بھی پولیو کا مکمل طور پر خاتمہ نہیں ہوا ہے۔
پولیو سے پاک ملک بننے کیلئے مسلسل تین سال تک صفر پولیو کیس رپورٹ کرنا ضروری ہے۔
آج نیوز کے ساتھ ای او سی کے اشتراک کردہ اعداد و شمار کے مطابق، کے پی میں 2018 میں آٹھ، 2019 میں 93 اور 2020 میں 22 کیسز رپورٹ ہوئے جو کہ گزشتہ چار سالوں میں 123 کیسز ہیں۔ جبکہ پاکستان میں 2018 سے اب تک پولیو کے 244 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔
Comments are closed on this story.