Aaj News

جمعہ, نومبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Awwal 1446  

رکن پارلیمنٹ کو ووٹ ڈالنے سے نہیں روکا جاسکتا نہ ہی آئین میں کوئی گنجائش ہے، چیف جسٹس

اٹارنی جنرل نے 1992کےعدالتی فیصلے کا حولہ دیتے ہوئے بتایا کہ اُس سال بہت کچھ ہوا لیکن اس انداز میں وفاداریاں تبدیل نہیں ہوئی، سندھ ہاؤس میں حکومتی اراکین نےوزیراعظم کےخلاف ووٹ دینےکا کہا، اس بات کے جواب میں جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ووٹ کا حق پارٹی اراکین نہیں اراکین اسمبلی کو ہے۔
شائع 24 مارچ 2022 07:56pm
چیف جسٹس اف پاکستان عمر عطا بندیال۔  فوٹو — فائل
چیف جسٹس اف پاکستان عمر عطا بندیال۔ فوٹو — فائل

اسلام آباد: چیف جسٹس اف پاکستان عمر عطا بندیال نے صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران کہا کہ رکن پارلیمنٹ کے ووٹ ڈال کر شمار نہ کیا جانا توہین آمیزہے۔

چیف جسٹس کی سربراہی میں لارجر بنچ کی صدارتی ریفرنس پرسماعت کی گئی جس میں انہوں نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ رکنِ پارلیمنٹ کے ووٹ ڈال کر شمار نہ کیا جانا توہین آمیزہے، آرٹیکل 63اے میں نااہلی کا پورا نظام دیا گیا ہے، اصل سوال صرف نااہلی کی مدت کا ہے عدالت کا کام خالی جگہ پرکرنا نہیں ایسے معاملات ریفرنس کے بجائے پارلیمنٹ میں حل ہونےچاہیے۔

سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے 1992کےعدالتی فیصلے کا حولہ دیتے ہوئے بتایا کہ اُس سال بہت کچھ ہوا لیکن اس انداز میں وفاداریاں تبدیل نہیں ہوئی، سندھ ہاؤس میں حکومتی اراکین نےوزیراعظم کےخلاف ووٹ دینےکا کہا، اس بات کے جواب میں جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ووٹ کا حق پارٹی اراکین نہیں اراکین اسمبلی کو ہے۔

دوسری جانب جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ پارٹی ڈسپلن کی پابندی لازمی بنانے کیلئے ارٹیکل 63 اے لایا گیا، ٹکٹ لیتےوقت امیدواروں کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ کب آزادی سےووٹ نہیں دے سکتے ہیں۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ سیاسی جماعتیں ادارے ہیں،ڈسپلن کی خلاف ورزی سےادارے کمزورہوتے ہیں، پارٹی لائن کی پابندی نہ ہوتوسیاسی جماعت تباہ ہوجائے گی اور اگر سب نےاپنی مرضی کی توسیاسی جماعت ادارہ نہیں ہجوم بن جائے گی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کےسیاسی اورقانونی محرکات الگ ہیں، عدالت کا کام خالی جگہ پر کرنا نہیں بلکہ ایسے معاملات ریفرنس کے بجائے پارلیمنٹ میں حل ہونے چاہیئے ووٹ ڈال کرشمارنہ کیاجاناتوہین آمیزہے اور ہم آرٹیکل 63 اے کی روح کو نظرانداز نہیں کرسکتے۔

اٹارنی جنرل نے ہارس ٹریڈنگ کا معاملہ پارلیمنٹ پر چھوڑنے کاموقف اپنایا تو جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ کیا فلور کراسنگ کی اجازت دیگرترقی یافتہ ممالک میں ہوتاہے اور کیا پارٹی لیڈرکوبادشاہ سلامت بنانا چاہتے ہیں؟ جس پر اٹارنی جنرل بولے کہ کسی کو بادشاہ نہیں تولوٹا بھی نہیں بنانا چاہیے جبکہ مغرب کےبعض ممالک میں فلورکراسنگ کی اجازت ہے۔

اس کے علاوہ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جتنامرضی غصہ ہوپارٹی کیساتھ کھڑے رہنا چاہیے، مغرب میں لوگ پارٹی کےاندرغصےکا اظہارکرتے ہیں دوسری کشتی میں چھلانگ لگانےوالےکوسیٹ سےہاتھ دھوناپڑتا ہے، اس بات پر اعجازالاحسن بولے کہ کیا دوسری کشتی میں چھلانگ لگا کرحکومت گرائی جاسکتی ہے؟زیادہ ترجہموری حکومتیں چند ووٹوں کی برتری سے ہی قائم ہوتی ہیں، جسٹس منیب نے کہا کہ چھلانگیں لگتی رہیں تومعمول کی قانون سازی بھی نہیں ہوسکتی،اب پنڈورا باکس کھل گیا تو میوزیکل چیئر ہی چلتی رہےگی۔

مزید براں، جسٹس مظہرعالم بولے کہ کسی کوووٹ ڈالنے پرمجبورنہیں کیا جاسکتا البتہ ارٹیکل 63(4) میں بہت واضح ہے جس کے تحت ممبرشپ ختم ہونا نااہلی ہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا آئین میں پارٹی سربراہ نہیں پارلیمانی پارٹی کو بااختیار بنایا ہے، پارٹی کی مجموعی رائے انفرادی رائے سے بالاتر ہوتی ہے، سیاسی نظام کےاستحکام کیلئے اجتماعی رائےضروری ہوتی ہے پارٹی پالیسی سےانحراف روکنےکیلئےارٹیکل63 اے شامل کیاگیا جبکہ ایک تشریح تویہ ہے کہ انحراف کرنےوالےکاووٹ شمارنہ ہو۔ اس معاملے پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ اٹھارہوں ترمیم میں ووٹ شمار نہ کرنےکا کہیں ذکر نہیں ہے۔

سماعت کے اختتام میں عدالت نے صوبائی حکومتوں اور اسلام آباد کو ریفرنس پرنوٹسز بھی جاری کرتے ہوئے سماعت ایک روز کیلئے ملتوی کردی۔

Supreme Court

Vote of Confidence

Article 63 (A)