Aaj News

جمعہ, نومبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Awwal 1446  

سپریم کورٹ نے سندھ میں کم از کم اجرت 19 ہزار مقرر کرنے پر حکم امتناع دے دیا

اسلام آباد:سپریم کورٹ آف پاکستان نے سندھ میں کم از کم اجرت 19 ہزار...
اپ ڈیٹ 07 دسمبر 2021 03:35pm

اسلام آباد:سپریم کورٹ آف پاکستان نے سندھ میں کم از کم اجرت 19 ہزار مقرر کرنے پر حکم امتناع دے دیا ۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 2رکنی بینچ نے سندھ میں کم از کم اجرت 25 ہزار مقرر کرنے کلیخلاف درخواستوں پر سماعت کی۔

سپریم کورٹ نےسندھ میں کم از کم اجرت 19 ہزار مقرر کرنے پر حکم امتناع دیتے ہوئے اٹارنی جنرل پاکستان اور ایڈووکیٹ جنرل سندھ کو نوٹس جاری کردیئے۔

سپریم کورٹ نے ریمارکس دیئے کہ اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل سندھ عدالت کی کم از کم اجرت کے طریقہ کار پر معاونت کریں، سندھ کابینہ نے 25 جون کو 25 ہزار روپے کم از کم اجرت مقرر کی، نجی صنعت کے وکیل نے اجرت کا طریقہ کار آئین کے منافی قرار دیا ہے۔

سپریم کورٹ نے واضح کہا کہ اگر عدالت نے حتمی فیصلے میں حکم امتناع واپس لیا تو درخواست گزار تمام مہینوں کی اجرت ادا کریں گے،کیس 3رکنی بنچی کے سامنے مقرر کیا جائے۔

نجی صنعت کے وکیل نے گزارش کی کہ سندھ ویج بورڈ نے کم از کم اجرت 19 ہزار کرنے کی سفارش کی تھی، وزیر اعلیٰ سندھ نے سفارش کے برعکس اجرت 25 ہزار کردی،قانون کے مطابق وزیر اعلی یا سندھ حکومت کی پاس خود سے اجرت بڑھانے کا اختیار نہیں،باقی صوبوں میں اجرت 20 ہزار اور سندھ میں 25 ہزار ہے، سندھ کی انڈسٹری کیلئے 25 ہزار اجرت دینا ممکن نہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ صوبائی خود مختاری کی بات بھی تو کی جاتی ہے،بعدازاں عدالت نے کیس کی سماعت جنوری 2022 تک ملتوی کردی۔

واضح رہے کہ سندھ ہائیکورٹ نے 25 ہزار روپے کم از کم اجرت برقرار رکھی تھی جس کیخلاف نجی صنعت نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔

سپریم کورٹ :برطرف ملازمین کی نظرثانی اپیل پر سماعت ایک روز کیلئے ملتوی

ادھر سپریم کورٹ آف پاکستان نے برطرف ملازمین کی نظرثانی اپیل پر سماعت ایک روز کیلئے ملتوی کردی۔

جسٹس عمرعطا ءبندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5رکنی لارجر بینچ نے برطرف ملازمین کی نظرثانی اپیل پر سماعت کی۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ جو 2003 کے فیصلے میں حاصل نہیں کرسکے وہ 2010 میں بحالی ایکٹ سے مل گیا، جب سپریم کورٹ نے پہلے بحال نہیں کیا تو اب کیا جواز ہے؟ ۔

آئی بی کے وکیل اعتزازاحسن نے دلائل میں کہاکہ 1996 میں نگران حکومت نے نوکریوں سے نکالا۔

جسٹس عمرعطا ءبندیال نے ریمارکس دیئے کہ نگران حکومت نے نوکریوں سے درست نکالا یاغلط؟ یہ فیصلہ ہوچکا ہے،نظرثانی کیس میں ملازمین کے حق میں پہلے آرڈیننس بعد میں ایکٹ آیا، اس پردلائل دیں۔

اعتزازاحسن نے کہاکہ کیس میں آرڈیننس یا ایکٹ کی ضرورت ہی نہیں ہے، ملازمین نے آرڈیننس کے اجراء کے بعد بھی 10سال تک ملازمت کی۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے کہاکہ کیا غیر آئینی بھرتی ہونے والا شخص 10سال تک ملازمت کرنے پر دیگر مراعات کا حقدار ہوگا؟۔

اعتزازاحسن نے کہا کہ کسی قانون کو کالعدم قرار دینے کا اطلاق مستقبل پرہوتا ہے، قانون کو کالعدم قرار دینے سے ماضی کی بھرتیاں اثرانداز نہیں ہو سکتیں، عدالت سے شکوہ ہے کہ ملازمین کوسنے بغیر فیصلہ دیا گیا۔

اعتزاز احسن کے دلائل مکمل ہونے کے بعد سوئی ناردرن گیس کمپنی اوراسٹیٹ لائف انشورنس کے وکیل لطیف کھوسہ نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ ملازمین 1993سے1996کےدرمیان بھرتی ہوئے 1997 میں ایگز یکٹوآرڈر سے تمام ملازمین کو برطرف کردیا تھا۔

بعدازاں سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت ایک روز کیلئے ملتوی کردی۔

Supreme Court

اسلام آباد

sindh

Justice Qazi Faez Isa