Aaj News

جمعہ, نومبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Awwal 1446  

توہین مذہب کے الزام سے بری شخص پولیس اہلکار کے ہاتھوں ہلاک

پاکستان کے وسطی ضلع صادق آباد میں پولیس اہلکار نے توہین مذہب کے...
اپ ڈیٹ 04 جولائ 2021 10:11am

پاکستان کے وسطی ضلع صادق آباد میں پولیس اہلکار نے توہین مذہب کے مقدمے میں بری ہونے والے شخص کو قتل کردیا ہے۔

ترجمان پولیس احمد نواز نے بین الاقوامی خبر رساں ادارے رائٹرز کو بتایا کہ مقتول محمد وقاص کے قتل کا مذکورہ واقعہ جمعہ دو جولائی کو پیش آیا۔

احمد نواز کے مطابق 21 سالہ ملزم عبدالقادر نے کچھ ماہ قبل ہی پولیس فورس میں شمولیت اختیار کی تھی، ملزم نے تفتیش کاروں کو بتایا کہ اس نے وقاص کو اس لئے قتل کیا کہ 'اس نے توہینِ رسالت کی تھی'۔

جرمن خبر رساں ادارے ڈیوچ ویلے کے مطابق پولیس کا کہنا ہے کہ ابتدائی تفتیش میں زیرحراست ملزم قادر نے بتایا وہ محمد وقاص کو سن 2016 ہی میں قتل کرنا چاہتا تھا تاہم اسے جیل منتقل کر دیے جانے کی بنا پر وہ یہ کام نہ کر سکا۔

واضح رہے کہ مقتول وقاص پر سنہ 2016 میں توہین رسالت کے ایک مقدمے میں فرد جرم عائد کی گئی تھی، جس میں آن لائن گستاخانہ مواد شیئر کرنے کا الزام تھا، جو پیغمبر اسلام کی توہین تھی۔ لاہور ہائیکورٹ نے 2020 میں یہ سزا ختم کی اور وقاص کو جیل سے رہا کردیا گیا۔

پولیس ترجمان نے رائٹرز کو بتایا، 'مقتول رہائی کے بعد بھی کچھ عرصہ انڈر گراؤنڈ رہا، اور کچھ ہفتوں قبل ہی گھر لوٹا تھا۔'

خیال رہے کہ پاکستان بنیادی طور پر ایک اسلامی ریاست ہے جس میں قانون کے مطابق نبی کریم ﷺ کی توہین کرنے پر سزائے موت لازمی ہے۔ توہین رسالت کے قوانین جنرل ضیاء الحق کی آمرانہ حکومت کے دوران، پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 295-B اور 295-C کے ذریعے متعارف کروائے گئے تھے۔ اگرچہ عدالتوں نے سزا یافتہ افراد میں سے کچھ کو سزائے موت سنائی ہے، لیکن پاکستان نے توہین مذہب کے الزامات کے تحت کبھی پھانسی نہیں دی۔

اس واقعے کے بعد ایک مرتبہ پھر پاکستان میں "توہین مذہب کے قوانین" اور لوگوں کی جانب سے یوں قانون ہاتھ میں لے کر پرتشدد واقعات میں ملوث ہونا زیربحث ہے۔

گزشتہ برس 2020 میں احمدی برادری سے تعلق رکھنے والے ایک پاکستانی نژاد امریکی شہری طاہر نسیم کو توہین مذہب کے مقدمے کی سماعت کے دوران ایک عدالت کے اندر جج کے سامنے قتل کر دیا گیا تھا۔ سن 2017 میں مشال نامی ایک نوجوان کو ایک جامعہ میں لوگوں کے مجمع نے تشدد کر کے ہلاک کر دیا گیا تھا۔

2019 میں پاکستان میں پنجاب کے جنوبی شہر ملتان کی بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی کے سابق لیکچرار جنید حفیظ کو بھی پنجاب کی ایک عدالت نے توہین مذہب کے مقدمے میں موت کی سزا سنائی تھی۔ جنید حفیظ پرالزام ہے کہ وہ لبرل خیالات کے لوگوں کو یونیورسٹی میں بلا کر مذہبی منافرت کے مرتکب ہوئے ہیں۔ ایک تقریب کے دوران مبینہ طور شعبہ انگلش لٹریچر کی سربراہ شیریں زبیر سمیت مختلف لوگوں نے خطاب کیا۔ لوگوں نے الزام لگایا تھا کہ اس میں حفیظ نے ایسے کلمات کہے ہیں جن سے مذہب کی دل آزاری ہوتی ہے۔

13 مارچ 2013 کو جنید کو توہینِ مذہب کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا جبکہ شعبۂ انگلش کی سربراہ شیریں زبیر ملک چھوڑ کر چلی گئیں۔ جبکہ جنید حفیظ تاحال جیل میں ہیں۔

سن 2018 میں مسیحی خاتون آسیہ بی بی کے توہین مذہب سے جڑے ایک مقدمے میں سپریم کورٹ سے رہائی کے بعد بہت بڑے مظاہرے دیکھنے میں آئے تھے اور اسی تناظر میں آسیہ بی بی کو بیرون ملک منتقل ہونا پڑا تھا۔

پاکستان

Murder

Blasphemy Law