الیکشن کمیشن پاکستان میں زیرِ التوا اہم درخواستیں
یوں تو پاکستان میں الیکشن کمیشن کا کردار عام انتخابات یا ضمنی انتخابات کے وقت ہی اہمیت اختیار کرتا ہے، لیکن گذشتہ چند ہفتوں سے الیکشن کمیشن آف پاکستان میں چند ایسی درخواستیں زیر التوا ہیں جن پر تمام سیاسی جماعتوں کی نظریں جمی ہوئی ہیں۔
پاکستان کی سیاست میں الیکشن کمیشن کے فیصلوں کو ہمیشہ سے ہی اہمیت حاصل ہے لیکن حالیہ چند فیصلوں نے ملکی سیاست کا رخ ہی تبدیل کر دیا ہے۔
الیکشن کمیشن میں دائر چند ایسی درخواستیں زیر التوا ہیں جن پر تمام سیاسی جماعتوں کی نظریں مرکوز ہیں۔
٭ ڈسکہ ضمنی انتخابات کے نتائج کالعدم قرار دینے کا فیصلہ
18 فروری کو ڈسکہ سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 75 میں ضمنی انتخابات ہوئے تو اپوزیشن جماعتوں نے انہیں دھاندلی زدہ قرار دیتے ہوئے نتائج روکنے کا مطالبہ کیا اور چند پولنگ سٹیشنز پر دوبارہ انتخابات کروانے کی درخواست کر دی۔
ماضی کے برعکس الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ضمنی انتخابات میں پریذائیڈنگ افسران کے مبینہ طور پر لاپتہ ہونے کا نوٹس لیتے ہوئے نہ صرف نتائج روکنے کا اعلان کیا، بلکہ ’صاف شفاف، منصفانہ انتخاب‘ نہ ہونے پر ان انتخابات کو کالعدم قرار دیتے ہوئے پورے حلقے میں دوبارہ انتخابات کروانے کی ہدایت کی۔
٭ سینیٹ انتخابات پرانے طریقے کے مطابق کرنے کا فیصلہ
سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کروانے سے متعلق سپریم کورٹ آف پاکستان نے صدارتی ریفرنس پر رائے دیتے ہوئے کرپٹ طریقہ کار روکنے کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال کرنے کی ہدایت کی تو الیکشن کمیشن نے وقت کی کمی کے باعث حالیہ سینیٹ انتخابات پرانے طریقہ کار کے مطابق کروانے کا فیصلہ کیا، اور آئندہ انتخابات کے دوران سپریم کورٹ کی ہدایات پر عمل کرنے کا اعلان کیا۔
٭ فیصل واوڈا اور یوسف رضا گیلانی کا سینیٹ کامیابی کا نوٹی فیکیشن روکنے کی درخواست
سینیٹ انتخابات سے ایک روز قبل سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے علی حیدر گیلانی کی ووٹ کی خرید و فروخت اور ضائع کرنے کی ویڈیو منظرعام پر آئی تو حکمران جماعت نے یوسف رضا گیلانی کو نااہل قرار دینے اور سینیٹ انتخابات میں کامیابی کا نوٹی فیکیشن روکنے کی استدعا کے لیے الیکشن کمیشن سے رجوع کر لیا۔
دوسری جانب مسلم لیگ ن نے سابق وفاقی وزیر فیصل واوڈا کو نااہل قرار دینے کی درخواست الیکشن کمیشن میں زیر التوا ہونے کے باعث سینیٹ میں ان کی کامیابی کا نوٹی فیکیشن روکنے کے لیے رجوع کر لیا۔
الیکشن کمیشن نے دونوں فریقین کی جانب سے دائر درخواستوں کو قابل سماعت تو قرار دیا لیکن نوٹی فیکیشن روکنے کی استدعا مسترد کر دی ہے۔
یہ تو تھے ماضی قریب کے چند واقعات جس کے باعث الیکشن کمیشن کبھی حکومت تو کبھی حزب اختلاف کی جانب سے تنقید کی زد میں رہا۔ اب ان درخواستوں کا تذکرہ کرتے ہیں جو کہ الیکشن کمیشن کے پاس زیر التوا ہیں اور ان فیصلوں کا ملکی سیاست پر گہرا اثر ہو سکتا ہے۔
٭ تحریک انصاف کا فارن فنڈنگ کیس
حکمران جماعت تحریک انصاف کے اپنے ہی منحرف رکن اکبر ایس بابر کی الیکشن کمیشن میں درخواست زیر التوا ہے جس میں انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ ’تحریک انصاف غیر ملکی ذرائع سے فنڈز حاصل کرتی رہی ہے۔‘
درخواست کے مطابق تحریک انصاف نے نہ صرف مبینہ طور پر غیر ملکی فنڈنگ حاصل کی بلکہ ممنوعہ ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے فنڈنگ پاکستان لائی گئی۔ اکبر ایس بابر کی یہ درخواست 2014 میں الیکشن کمیشن میں دائر کی گئی تھی تاہم مختلف فورمز سے حکم امتناع لینے کے باعث درخواست پر کارروائی متعدد بار تعطل کا شکار رہی لیکن اب الیکشن کمیشن کی تشکیل کردہ سپیشل سکروٹنی کمیٹی تحریک انصاف کے اکاؤنٹس کی جانچ پڑتال کر رہی ہے۔
٭ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے خلاف درخواستیں
اپوزیشن جماعتوں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے مالی ذرائع سے متعلق درخواست الیکشن کمیشن میں زیر التوا ہے۔
حکمران جماعت تحریک انصاف کی جانب سے دائر کی گئی درخواست میں دونوں اپوزیشن جماعتوں پر اثاثے غیر تصدیق شدہ ہونے اور بیرون ملک سے فنڈنگ حاصل کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
٭ فیصل واوڈا کی نا اہلی کی درخواست
الیکشن کمیشن کے پاس سابق وفاقی وزیر فیصل واوڈا کی درخواست 18 مارچ کو سماعت کے لیے مقرر ہے جس میں فیصل واوڈا پر عام انتخابات کے دوران کاغذات نامزدگی میں جھوٹا بیان حلفی جمع کروانے کا الزام ہے۔
اسی کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ یہ کہہ چکی ہے کہ بظاہر فیصل واوڈا نے جھوٹا بیان حلفی جمع کروایا تاہم عدالت نے نااہلی کا معاملہ الیکشن کمیشن کے سپرد کردیا ہے۔
الیکشن کمیشن متعدد بار وفاقی وزیر فیصل واوڈا سے جواب طلب کر چکا ہے لیکن وہ پیش نہیں ہوئے اور عدم پیروی پر انہیں جرمانہ بھی عائد کیا گیا ہے۔ تاہم گذشتہ سماعت پر فیصل واوڈا نے الیکشن کمیشن کے سامنے مؤقف اپنایا کہ وہ اپنی والدہ کی علالت کے باعث پیش نہ ہو سکے جس پر کمیشن نے انہیں ایک اور مہلت دیتے ہوئے 18 مارچ کو تحریری جواب داخل کرنے کی ہدایت کی ہے۔
٭ یوسف رضا گیلانی اور دیگر کی نااہلی کی درخواست
سینیٹ انتخابات میں مبینہ طور پر ووٹ کی خرید و فروخت اور لالچ دینے کے الزم میں سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور علی حیدر گیلانی کو نااہل کرنے کی درخواست 22 مارچ کو سماعت کے لیے مقرر ہے۔
تحریک انصاف کی جانب سے دو متفرق درخواستوں میں علی حیدر گیلانی اور یوسف رضا گیلانی پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ ارکان اسمبلی کو لالچ دینے اور ووٹ کی خرید و فروخت میں ملوث رہے ہیں جس کی بنیاد پر انہیں نا اہل قرار دیا جائے۔
تاہم الیکشن کمیشن آف پاکستان نے علی حیدر گیلانی کی ویڈیو میں شامل تحریک انصاف کے ارکان قومی اسمبلی کو بھی فریق بنانے کی ہدایت کر رکھی ہے۔
Comments are closed on this story.