Subscribing is the best way to get our best stories immediately.
نائب چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) شاہ محمود قریشی نے پارٹی کارکنان کو ہدایت کی کہ اگر رہائش کا انتظام ہے تو 25 نومبر کی رات کو پنڈی پہنچ جائیں اور جو 26 کو آنا چاہتے ہیں وہ صبح پنڈی پہنچیں۔
لاہور میں میڈیا سے اسد عمر اور دیگر پارٹی رہنماؤں کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہمارا مارچ آئین اور قانون کے دائرے میں ہوگا، 26 نومبر کو ملک بھر سے قافلے راولپنڈی آئیں گے جب کہ عمران خان خود حقیقی آزادی مارچ میں شرکت کرکے آئندہ لائحہ عمل سے آگاہ کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ 26 نومبر کو عوام سے بروقت نکلنے کی اپیل کی ہے، رہائش کا بندوبست ہے تو کارکنان 25 نومبر کو راولپنڈی پہنچ جائیں، البتہ پارٹی اقبال پارک میں رہائش کا انتظام کر رہی ہے۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ مارچ میں کہیں سڑکیں، بازار بند نہیں ہوئے، عمران خان پر منصوبے کے تحت وزیر آباد میں قاتلانہ حملہ ہوا جس کے باوجود کارکان مشتعل نہیں ہوئے، حملے کی ایف آئی آر پولیس کی مدعیت میں درج ہوئی، اس مقدمے کی کوئی حیثیت نہیں۔
پارٹی وائس چیئرمین کا مزید کہنا تھا کہ شوکت ترین نے آج معاشی صورتحال سے بتایا، لہٰذا فوری الیکشن نہ ہوئے تو معیشت کو مزید نقصان ہوگا، پاکستان تیزی سے ڈیفالٹ کی طرف جارہا ہے، الیکشن پر اسرار اقتدار کے لئے نہیں بلکہ ڈیفالٹ سے بچانے کے لئے ہے۔
اس موقع پر پی ٹی آئی جنرل سیکرٹری اسد عمر کا کہنا تھا کہ راولپنڈی میں مری روڈ پر عوام جمع ہوں گے، 25 نومبر کو قافلہ راولپنڈی پہنچنا شروع ہو جائیں گے جب کہ راولپنڈی کے اقبال پارک میں خیمہ بستی بنائی جائے گی۔
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ جس کے پاس اختیار ہے وہی آرمی چیف کی تعیناتی کرے گا۔
سکھر میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ 2014 میں 120 کا دھرنا دیا گیا جس کی وجہ سے چینی صدر کا دورہ ملتوی ہوا اور اب سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کو اپنا دورہ ملتوی کرنا پڑا۔
انہوں نے کہا کہ اہم تعیناتی معمول کا عمل ہے، اپنی مرضی کی تعیناتی کا مطالبہ عجیب ہے کیونکہ کل ہو کوئی اپنی مارضی کی تعیناتی چاہئے گا، لہٰذا فیصلہ کسی کی مرضی سے نہیں بلکہ آئین کے مطابق ہوگا۔
پی ڈی ایم سربراہ نے کہا کہ حکومتی اتحادی جماعتیں ٹیم کی طرح کام کررہی ہیں، چیلنجز سے نمٹنے کے لئے مل کر کوششیں کرنا ہوں گی جب کہ عوامی رابطہ مہم کے لئے مختلف صوبوں میں جا رہے ہیں۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ یہ لانگ مارچ نہیں فرلانگ مارچ ہے، انہوں نے ماضی کے مارچ میں بھی فساد پھیلایا، ان کا مقصد اسلام آباد میں امن خراب کرنا ہے، البتہ ہمارا مارچ انتہائی پُر امن تھا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ مشکل معاشی حالات سے باہر آگئے ہیں،معیشت کی بہتری کی جانب سفر کا آغاز ہوگیا ہے، پہلے روپے کی قدرایک جگہ ٹھہر نہیں رہی تھی مگر اب ڈالر اور پیٹرول کی قیمتوں میں استحکام آیا ہے۔
لاہور: پاکستان تحریک انصاف کا 26 نومبر کی کال کے معاملے پر اجلاس ہوا ہے۔
عمران خان کی زیر صدارت زمان مارک میں پارٹی کا اہم اجلاس ہوا جس میں اسد عمر، شاہ محمود قریشی، فواد چوہدری اور اعظم سواتی نے شرکت کی۔
پی ٹی آئی کے اہم اجلاس میں علی زیدی، شاہ فرمان، عمران اسماعیل سمیت ڈاکٹر یاسمین راشد، حماد اظہر، شفقت محمود، زلمی بخاری اور اعجاز چوہدری بھی شریک ہوئے۔
تحریک انصاف کے اجلاس میں راولپنڈی کال اور موجودہ سیاسی صورتحال پر گفتگو کی گئی جب کہ ملک کے معاشی بحران اور اس سے پیدا صورتحال پر بھی مشاورت کی گئی۔
واضح رہے کہ گزشتہ دنوں پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان 26 نومبر بروز ہفتہ حقیقی آزادی مارچ کو راولپنڈی پہنچنے کی تاریخ دے چکے ہیں جس میں وہ خود بھی شرکت کریں گے۔
لاہور ہائیکورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کا آزادی مارچ روکنے کی درخواست نمٹا دی، عدالت نے ایڈیشنل آئی جی پنجاب کو ایک ہفتے میں درخواست پر فیصلہ کرنے کی ہدایت کر دی۔
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس جواد حسن نے تاجر نعیم میر کی آزادی مارچ روکنے کے لئے دائر درخواست پر سماعت کی، درخواست میں تحریک انصاف کے آزادی مارچ پر اعتراض اٹھایا گیا تھا۔
سماعت کے دوران وفاقی حکومت کے وکیل نے بتایا کہ سپریم کورٹ نے اسی نوعیت کی درخواست نمٹا دی ہے جبکہ اسلام آباد ہائیکورٹ اور لاہور ہائیکورٹ راولپنڈی بینچ میں بھی معاملہ زیر سماعت ہے۔
درخواست میں نشاندہی کی گئی کہ آزادی مارچ کی وجہ سے کاروباری سرگرمیاں متاثر ہو رہی ہیں اس لیے اسے روکا جائے۔
عدالت نے ایڈیشنل آئی جی پنجاب کو درخواست پر ایک ہفتے میں فیصلہ کرنے کا حکم دیتے ہوئے درخواست نمٹا دی۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے 26 نومبر کو راولپنڈی میں حقیقی آزادی مارچ کے اجتماع کے لئے راولپنڈی کی انتظامیہ کے بعد اسلام آباد انتظامیہ کو بھی باضابطہ طور پردرخواست دے دی۔
پی ٹی آئی اسلام آباد کے صدر علی نواز اعوان کی جانب سے جمع درخواست میں بتایا گیا کہ تحریک انصاف 26 نومبر کو فیض آباد کے مقام پر عوامی اجتماع کا انعقاد کرے گی، چیئرمین عمران خان کا ہیلی کاپٹر پریڈ گراؤنڈ اسلام آباد میں لینڈ کرے گا اور پھر سابق وزیراعظم پریڈ گراؤنڈ سے فیض آباد حقیقی آزادی مارچ کی قیادت کے لئے روانہ ہوں گے۔
علی نواز اعوان نے کہا کہ 26 نومبر کو راولپنڈی میں ایک پرامن اور جمہوری عوامی اجتماع کا انعقاد کر رہے ہیں ،عمران خان کے ہیلی کاپٹر کی پریڈ گراؤنڈ کے مقام پر لینڈنگ کی بھی اجازت دی جائے۔
اس سے قبل پی ٹی آئی نے ڈی سی راولپنڈی کو بھی فیض آباد کے قریب دھرنے کے لئے باضابطہ درخواست جمع کراوئی تھی۔
درخواست میں مؤقف اپنایا گیا تھاکہ تحریک انصاف 26 نومبر کو فیض آباد کے پاس عوامی جلسہ ، دھرنا دے گی، عمران خان اس کی قیادت کریں گے، سیاسی شو میں خواتین اور بچوں کی بھی بڑی تعداد شرکت کرے گی، انتظامیہ اس موقع پر سیکیورٹی کے لئے معقول انتظامات کرے۔
وزیردفاع خواجہ آصف نے تصدیق کردی ہے کہ پاک فوج کے اعلیٰ ترین عہدوں پر تقرری کا عمل آج سے شروع ہوگیا ہے۔
خواجہ آصف نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ یہ عمل انشاءاللہ جلد تمام تر آئینی تقاضوں کے مطابق تکمیل پاجائے گا۔
صحافتی حلقوں میں یہ بات زیرگردش ہے کہ نئے آرمی چیف کے معاملے پراتفاق رائے پونے کے بعد نئے چئیرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی اورآرمی چیف کی تعیناتی کی سمری وزیراعظم ہاؤس کوموصول ہوگئی ہے۔
ذرائع کے مطابق چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی اورآرمی چیف کے ناموں پراتفاق رائے کے بعد وزیراعظم شہباز شریف کو وزارت دفاع کی جانب سے موصول ہونے والی سمری میں سینیارٹی اوراہلیت کی بنیاد پر 5 سے 6 نام شامل ہیں۔
اس حوالے سے وزیراعظم شہبازشریف کی زیرصدارت مشاورتی اجلاس میں وفاقی وزراء خواجہ آصف، راناثنااللہ اور ایازصادق شریک ہوئے اور سیاسی صورتحال سمیت اہم امورپرغورکیا۔
اپنی ٹویٹ میں پاک فوج کے اعلیٰ ترین عہدوں پہ تقرری کا عمل آج سے شروع ہونے کی تصدیق کرنے والے وزیردفاع نے میڈیا ٹاک میں کہا کہ، ”اتحادیوں کے ساتھ ہرقدم اور ہرسطح پرمشاورت جاری ہے اور اس حوالے سے کوئی ڈیڈ لاک نہیں ہے، سمری آنے پر ناموں سے متعلق بحث ہوگی ۔ افواج کی لیڈر شپ سے پوچھاجائے گا افواج کواعتماد میں لے کر پھرفیصلہ کیا جائے گا“۔
انہوں نے کہا کہ ، ”فی الحال ایسی کوئی پیشرفت نہیں ہوئی جو میڈیاپراطلاعات آرہی ہیں، میڈیا کا اپنا حق ہے لیکن بات وہی ہے جو میں نے آپ کو بتائی ہے اوراس حوالے سے روزانہ تبادلہ خیال ہورہا ہے“۔
وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کہ چکے ہیں کہ عمران خان کی اعلان کردہ تاریخ سے پہلے ہی آرمی چیف کی تقرری کا فیصلہ ہوچکا ہوگا۔
جیونیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے رانا ثناء کا کہنا تھا کہ جب بھی آرمی چیف کی تقرری ہوئی اس طرح کے حالات پہلے نہیں ہوئے،آرمی چیف کی تقرری پرعمران نیازی نے تماشہ لگانے کی کوشش کی جس میں وہ ناکام ہوا۔انہوں نے کہا کہ یہ لانگ مارچ نہیں رینگ مارچ ہے جورینگ رہا ہے، راولپنڈی میں پی ٹی آئی کی تاریخ کا سب سے چھوٹا اجتماع ہوگا۔
دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے نئے آرمی چیف کی تعیناتی پر صدرکی جانب سے سمری روکنے کی تجاویز کو مسترد کیے جانے کے بعد اطلاعات گرم تھیں کہ اس اہم تقررکا عمل آج سے شروع ہونے کا امکان ہے۔
موجودہ آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ کی مدت ملازمت 29 نومبرکوختم ہوگی اور امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ 27 نومبر سے قبل ہی نئے آرمی چیف کی تعیناتی کردی جائے گی کیونکہ اس اہم تقرری کے امیدواروں میں سے ایک جنرل عاصم منیر 27 نومبر کو ہی ریٹائر ہونے والے ہیں۔
وزیراعظم آفس کے ذرائع کا کہنا تھا کہ وزارت دفاع نئے آرمی چیف کے تقرر کی سمری 27 نومبر سے پہلے بھیج دے گی۔ اس حوالے سے حکومت، اتحادی اورملٹری اسٹیبلشمنٹ ایک پیج پر ہیں اورتینوں کے درمیان مشاورت کا عمل مکمل ہوچکا ہے۔
چند روز قبل وزیردفاع خواجہ آصف بھی کہہ چکے تھے کہ آرمی چیف کی تعیناتی کا عمل پیر سے شروع ہوجائے گا اور اگلے ہفتے آرمی چیف کا نام بھی سامنے آجائے گا، البتہ جو بھی نام ہوا اس پرعسکری اور سیاسی قیادت کا مکمل اتفاق ہوگا۔ پیرکو تعیناتی کا عمل شروع ہوا تومنگل یا بدھ کو نام سامنے آجائے گا۔
اس سارے پراسیس کو متنازع بنانے کا قصوروارعمران خان کو ٹھہرانے والے خواجہ آصف کا مزید کہنا تھا کہ پاک فوج اور وزیراعظم شہباز شریف میں اتفاق سے بدھ تک نئے آرمی چیف کا نام آجائے گا۔ کوئی بھی فیصلہ اتحادیوں کی مشاورت کے بغیر نہیں ہورہا، جو نام سمری میں آئیں گے انہی میں سے ایک پر اتفاق ہوگا، تعیناتی میں کوئی ابہام نہیں لیکن عمران خان ابہام پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
اس سے قبل وزیراعظم شہبازشریف اپنے دورہ لندن کے دوران نواز شریف سے مشاورت کے بعد وطن واپسی پر تمام اتحادیوں کو اعتماد میں لے چکے تھے۔
دوسری جانب کئی میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا جارہا تھا کہ اپنا اختیاراستعمال کرتے ہوئے صدرمملکت ڈاکٹرعارف علوی نئے آرمی چیف کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن 25 روز تک روک سکتے ہیں۔
وزیرخارجہ بلاول بھٹوزرداری نے بھی گزشتہ روز پریس کانفرنس میں عمران خان سے حقیقی آزاری مارچ چند ہفتے کے لئے موخر کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہاتھا کہ آرمی چیف کی تعیناتی سے متعلق سوال پرکہا تھا کہ یہ قانونی طور پروزیراعظم کی صوابدید ہے، لہٰذا پیپلز پارٹی وزیراعظم کے فیصلے کو سپورٹ کرے گی، البتہ اگرصدرمملکت عارف علوی نے اس ضمن میں کوئی غیرآئینی کام کیا تو انہیں نتیجہ بھگتنا پڑے گا۔
اس پرپی ٹی آئی کے نائب صدر شاہ محمود قریشی کی جانب سے کہا گیاکہ آرمی چیف کی تعیناتی کے معاملے پر صدرعارف علوی اور پارٹی کی جانب سے سمری روکنے سے متعلق کوئی تجویز زیرِغورنہیں نہ ہی اس قسم کی کوئی گفتگو ہوئی ہے۔ ان کا کہنا تھا، ”ہمیں کسی شخصیت پراعتراض نہیں، سبھی اس عہدے کے اہل ہیں، ہماری کوئی ترجیح یا چوائس نہیں“۔
بلاول بھٹو کے بیان کو نامناسب قرار دینے والے شاہ محمود نے مزید کہا کہ، ”صدر عارف علوی نے اپنی آئینی ذمہ داریاں نبھائیں، ابھی سمری آئی ہے نہ بھیجی گئی۔ صدر اس معاملے میں محتاط ہیں اور آئین و قانون کا احترام کرتے ہیں“ ۔
اس حوالے سے ترجمان وزیراعظم فہد حسین نے ڈان سے بات کرتے ہوئے صدر کی جانب سے ایسے کسی اقدام کے امکان کو مسترد کرتے ہوئے واضح کیا تھا کہ آئین کے تحت نئے آرمی چیف کے تقرر کے اختیارات وزیر اعظم کے پاس ہیں اور وہ انہیں استعمال کرتے ہوئے موزوں ترین شخص کا انتخاب کریں گے۔ نئے آرمی چیف کے تقرر کا عمل آئینی طریقہ کار کے مطابق آگے بڑھ رہا ہے۔
اس ضمن میں صدرعارف علوی کے کردارسے متعلق فہد حسین کا کہنا تھا کہ ، ”صدر بھی اپنا وہی آئینی کردار ادا کریں گے جو اس حوالے سے آئین میں بیان کیا گیا“۔
معاملے پروزیراعظم کے معاون خصوصی برائے قانون و انصاف عرفان قادرکاکہنا تھا کہ صدرمملکت سمری نہیں روک سکتے کیونکہ آئین کے آرٹیکل 243 کے تحت آرمی چیف کا تقرر صرف وفاقی حکومت کا کام ہے۔ یہ آرٹیکل واضح کرتا ہے کہ فوج کی کمان اورکنٹرول وفاقی حکومت کے پاس ہے جس کی مزید وضاحت آرٹیکل 90 اور 91 میں کی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ صدر سمری مؤخر نہیں کرسکتے اورانہیں فوراً اس پر دستخط کرنا ہوں گے۔
نئے آرمی چیف کی تعیناتی کے معاملے پرحکومت اور دفاعی حکام میں مکمل اتفاق کی اطلاعات سامنے آگئیں، اس حوالےسے نام کا اعلان جلد متوقع ہے۔
نئے آرمی چیف کی تعیناتی کے حوالے سے وزیراعظم شہباز شریف نے اپنا ہوم ورک مکمل کرلیا۔
اطلاعات ہیں کہ حکومت اور دفاعی حکام کے درمیان تمام اہم فیصلے باہمی اتفاق سے طے پاگئے ہیں۔
چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی اورآرمی چیف کے ناموں پر سیاسی اور عسکری حکام متفق ہیں۔ باہمی اتفاق رائے کےبعد نئے آرمی چیف کے نام کا اعلان جلدکردیا جائے گا۔
وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ یہ کہہ چکے تھے کہ عمران خان کی اعلان کردہ تاریخ سے پہلے ہی آرمی چیف کی تقرری کا فیصلہ ہوچکا ہوگا۔
واضح رہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے آرمی چیف کی تعیناتی پرصدرکی جانب سے سمری روکنے کی تجاویز کومسترد کیےجانے کے بعد اطلاعات تھیں کہ اس اہم تقررکا عمل آج سے شروع ہوگا۔
موجودہ آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ کی مدت ملازمت 29 نومبرکوختم ہوگی اور امکان ظاہرکیا جارہا تھا کہ 27 نومبرسے قبل ہی نئے آرمی چیف کی تعیناتی کردی جائے گی کیونکہ اس اہم تقرری کےامیدواروں میں سے ایک جنرل عاصم منیر 27 نومبر کو ہی ریٹائرہونے والے ہیں۔
رانا ثناء سے قبل وزیردفاع خواجہ آصف کہہ چکے تھے کہ آرمی چیف کی تعیناتی کا عمل پیر سے شروع ہوجائے گا اور اگلے ہفتے آرمی چیف کا نام بھی سامنے آجائے گا، البتہ جو بھی نام ہوا اس پر عسکری اور سیاسی قیادت کا مکمل اتفاق ہوگا۔ پیرکو تعیناتی کا عمل شروع ہوا تومنگل یا بدھ کو نام سامنے آجائے گا۔
ملک کے نئے آرمی چیف کی تقرری کا عمل آج شروع ہونے کی خبروں کے درمیان پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے بتایا ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت کی میٹنگ آج ہورہی ہے۔
فواد چوہدری کی ٹویٹ کے مطابق عمران خان کی صدارت میں ہونے والی اس ملاقات میں سیاسی صورتحال، حقیقی آزادی مارچ کے راولپنڈی مرحلے اور دیگر معاملات پر گفتگو کی جائے گی۔
پی ٹی آئی رہنما کے مطابق پارٹی کی مرکزی قیادت کی ملاقات میں ملک کے معاشی بحران اور اس سے پیدا ہونے والی صورتحال بھی زیر بحث آئے گی۔
وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ عمران خان کی اعلان کردہ تاریخ سے پہلے ہی آرمی چیف کی تقرری کا فیصلہ ہوچکا ہوگا۔
جیونیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے رانا ثناء کا کہنا تھا کہ جب بھی آرمی چیف کی تقرری ہوئی اس طرح کے حالات پہلے نہیں ہوئے،آرمی چیف کی تقرری پرعمران نیازی نے تماشہ لگانے کی کوشش کی جس میں وہ ناکام ہوا۔
انہوں نے کہا کہ یہ لانگ مارچ نہیں رینگ مارچ ہے جورینگ رہا ہے، راولپنڈی میں پی ٹی آئی کی تاریخ کا سب سے چھوٹا اجتماع ہوگا۔
دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے نئے آرمی چیف کی تعیناتی پر صدرکی جانب سے سمری روکنے کی تجاویز کو مسترد کیے جانے کے بعد اب اطلاعات ہیں کہ اس اہم تقررکا عمل آج سے شروع ہونے کا امکان ہے۔
موجودہ آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ کی مدت ملازمت 29 نومبرکوختم ہوگی اور امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ 27 نومبر سے قبل ہی نئے آرمی چیف کی تعیناتی کردی جائے گی کیونکہ اس اہم تقرری کے امیدواروں میں سے ایک جنرل عاصم منیر 27 نومبر کو ہی ریٹائر ہونے والے ہیں۔
ڈان اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق وزیراعظم آفس کے ذرائع کا کہنا ہے کہ وزارت دفاع نئے آرمی چیف کے تقرر کی سمری 27 نومبر سے پہلے بھیج دے گی۔ اس حوالے سے حکومت، اتحادی اورملٹری اسٹیبلشمنٹ ایک پیج پر ہیں اورتینوں کے درمیان مشاورت کا عمل مکمل ہوچکا ہے۔
اس خبرکی توثیق یوں بھی ہوتی ہے کہ وزیردفاع خواجہ آصف کہہ چکے ہیں کہ آرمی چیف کی تعیناتی کا عمل پیر سے شروع ہوجائے گا اور اگلے ہفتے آرمی چیف کا نام بھی سامنے آجائے گا، البتہ جو بھی نام ہوا اس پر عسکری اور سیاسی قیادت کا مکمل اتفاق ہوگا۔ پیرکو تعیناتی کا عمل شروع ہوا تومنگل یا بدھ کو نام سامنے آجائے گا۔
اس سارے پراسیس کو متنازع بنانے کا قصوروارعمران خان کو ٹھہرانے والے خواجہ آصف کا مزید کہنا تھا کہ پاک فوج اور وزیراعظم شہباز شریف میں اتفاق سے بدھ تک نئے آرمی چیف کا نام آجائے گا۔ کوئی بھی فیصلہ اتحادیوں کی مشاورت کے بغیر نہیں ہورہا، جو نام سمری میں آئیں گے انہی میں سے ایک پر اتفاق ہوگا، تعیناتی میں کوئی ابہام نہیں لیکن عمران خان ابہام پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
اس سے قبل وزیراعظم شہبازشریف اپنے دورہ لندن کے دوران نواز شریف سے مشاورت کے بعد وطن واپسی پر تمام اتحادیوں کو اعتماد میں لے چکے ہیں۔
دوسری جانب کئی میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا جارہا ہے کہ اپنا اختیار استعمال کرتے ہوئے صدرمملکت ڈاکٹرعارف علوی نئے آرمی چیف کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن 25 روز تک روک سکتے ہیں۔
وزیرخارجہ بلاول بھٹوزرداری نے گزشتہ روز پریس کانفرنس میں عمران خان سے حقیقی آزاری مارچ چند ہفتے کے لئے موخر کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہاتھا کہ آرمی چیف کی تعیناتی سے متعلق سوال پرکہا تھا کہ یہ قانونی طور پروزیراعظم کی صوابدید ہے، لہٰذا پیپلز پارٹی وزیراعظم کے فیصلے کو سپورٹ کرے گی، البتہ اگرصدرمملکت عارف علوی نے اس ضمن میں کوئی غیرآئینی کام کیا تو انہیں نتیجہ بھگتنا پڑے گا۔
اس پرپی ٹی آئی کے نائب صدر شاہ محمود قریشی کی جانب سے کہا گیاکہ آرمی چیف کی تعیناتی کے معاملے پر صدرعارف علوی اور پارٹی کی جانب سے سمری روکنے سے متعلق کوئی تجویز زیرِغورنہیں نہ ہی اس قسم کی کوئی گفتگو ہوئی ہے۔ ان کا کہنا تھا، ”ہمیں کسی شخصیت پراعتراض نہیں، سبھی اس عہدے کے اہل ہیں، ہماری کوئی ترجیح یا چوائس نہیں“۔
بلاول بھٹو کے بیان کو نامناسب قرار دینے والے شاہ محمود نے مزید کہا کہ، ”صدر عارف علوی نے اپنی آئینی ذمہ داریاں نبھائیں، ابھی سمری آئی ہے نہ بھیجی گئی۔ صدر اس معاملے میں محتاط ہیں اور آئین و قانون کا احترام کرتے ہیں“ ۔
ترجمان وزیراعظم فہد حسین نے ڈان سے بات کرتے ہوئے صدر کی جانب سے ایسے کسی اقدام کے امکان کو مسترد کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ آئین کے تحت نئے آرمی چیف کے تقرر کے اختیارات وزیر اعظم کے پاس ہیں اور وہ انہیں استعمال کرتے ہوئے موزوں ترین شخص کا انتخاب کریں گے۔ نئے آرمی چیف کے تقرر کا عمل آئینی طریقہ کار کے مطابق آگے بڑھ رہا ہے۔
اس ضمن میں صدرعارف علوی کے کردارسے متعلق فہد حسین کا کہنا تھا کہ ، ”صدر بھی اپنا وہی آئینی کردار ادا کریں گے جو اس حوالے سے آئین میں بیان کیا گیا“۔
معاملے پروزیراعظم کے معاون خصوصی برائے قانون و انصاف عرفان قادرکاکہنا ہے کہ صدرمملکت سمری نہیں روک سکتے کیونکہ آئین کے آرٹیکل 243 کے تحت آرمی چیف کا تقرر صرف وفاقی حکومت کا کام ہے۔ یہ آرٹیکل واضح کرتا ہے کہ فوج کی کمان اورکنٹرول وفاقی حکومت کے پاس ہے جس کی مزید وضاحت آرٹیکل 90 اور 91 میں کی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ صدر سمری مؤخر نہیں کرسکتے اورانہیں فوراً اس پر دستخط کرنا ہوں گے۔
سربراہ عوامی مسلم لیگ اور پی ٹی آئی اتحادی شیخ رشید نے سابق وزیراعظم نواز شریف پراپنی مرضی کے آرمی چیف کی تعیناتی کاالزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ عمران خان کو کسی کی تعیناتی پربھی اعتراض نہیں۔
وزیرخارجہ بلاول بھٹوزرداری نے گزشتہ روز پریس کانفرنس میں عمران خان سے حقیقی آزاری مارچ چند ہفتے کے لئے موخر کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہاتھا کہ تحریک عدم اعتماد سے بچنے کے لئے عمران خان آرمی چیف کو مدتِ ملازمت میں تاحیات توسیع دینا چاہتے تھے تاہم پاکستان کی خوش قسمتی ہے اورجنرل باجوہ کا بھی شکریہ جنہوں نے اس پیشکش کو مسترد کیا۔
آرمی چیف کی تعیناتی سے متعلق سوال پربلاول کا کہنا تھا کہ یہ قانونی طور پروزیراعظم کی صوابدید ہے، لہٰذا پیپلز پارٹی وزیراعظم کے فیصلے کو سپورٹ کرے گی، البتہ اگرصدرمملکت عارف علوی نے اس ضمن میں کوئی غیرآئینی کام کیا تو انہیں نتیجہ بھگتنا پڑے گا۔
بلاول کے اس موقف پرردعمل میں شیخ رشید نے اپنی ٹویٹ میں مخالفین کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لکھا کہ نوازشریف نگراں کا دورانیہ بڑھوانا اورمن پسند تعیناتی بھی چاہتے ہیں لیکن ایک ٹکٹ میں 2 مزے نہیں مل سکتے۔
شیخ رشید نے بلاول کی پریس کانفرنس کے حوالے سے لکھا کہ ، ”وزیرخارجہ بلاول اپنے ملک کے صدرکو دھمکیاں دےرہا ہے، مانگے تانگے کی حکومت کا یہی نتیجہ ہوتا ہے“۔
انہوں نے واضح کیا کہ ، ”چیئرمین پی ٹی آئی کو عمران خان کو کسی کی تعیناتی پراعتراض نہیں، جو بھی نیا آرمی چیف آئےگا وہ سیاسی گند اپنے کندھوں پر نہیں اٹھائےگا اور ملک کو الیکشن کی طرف لے کر جائے گا“ ۔
شیخ رشید نے حسب معمول سیاسی پیشگوئی کرتے ہوئے یہ دعویٰ بھی کیا کہ آئندہ 5 روز سیاست میں فیصلہ کن ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ، ”پی ڈی ایم کا اسیاسی جنازہ نکل چکا ہےجس کی سیاسی چیخیں بلاول کی پریس کانفرس میں واضح ہیں“۔
اشیخ رشید کے مطابق آئندہ72 گھنٹوں میں صورتحال واضح ہوجائےگی، 26 نومبرکوعمران خان کاراولپنڈی میں تاریخی استقبال کریں گے۔
پاکستان تحریک انصاف کے نائب چیئرمین شاہ محمود قریشی نے نئے آرمی چیف کی تعیناتی کے معاملے پرصدر ملکت اور پارٹی کی جانب سے سمری روکنے کی تجویز سے متعلق خبروں کو ردکیا ہے۔
ہم نیوز کو دیے جانے والے انٹرویومیں پی ٹی آئی کے نائب چیئرمین نے کہا کہ آرمی چیف کی تعیناتی کے معاملے پر صدرعارف علوی اور پارٹی کی جانب سے سمری روکنے سے متعلق کوئی تجویز زیرِغور نہیں نہ ہی اس قسم کی کوئی گفتگو ہوئی ہے۔
شاہ محمود نے واضح کیا کہ آرمی چیف کی تعیناتی کے حوالے سے پی ٹی آئی کوکسی بھی شخصیت پراعتراض نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا، “ ہمیں کسی شخصیت پراعتراض نہیں، سبھی اس عہدے کے اہل ہیں، ہماری کوئی ترجیح یا چوائس نہیں“۔
بلاول بھٹو کے بیان کو نامناسب قرار دینے والے شاہ محمود نے مزید کہا کہ، ”صدرعارف علوی نے اپنی آئینی ذمہ داریاں نبھائیں، ابھی سمری آئی ہے نہ بھیجی گئی۔ صدر اس معاملے میں محتاط ہیں اور آئین و قانون کا احترام کرتے ہیں“ ۔
انہوں نے کہا کہ ادارے سے ہمارا اختلاف ہے اور نہ ہی تھا ، لیکن ہم اپنے مؤقف پرقائم ہیں کہ ہماری حکومت منصوبہ بندی کے تحت باہرکی گئی۔
واضح رہے کہ وزیرخارجہ بلاول بھٹوزرداری نے گزشتہ روز پریس کانفرنس میں عمران خان سے حقیقی آزاری مارچ چند ہفتے کے لئے موخر کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہاتھا کہ تحریک عدم اعتماد سے بچنے کے لئے عمران خان آرمی چیف کو مدتِ ملازمت میں تاحیات توسیع دینا چاہتے تھے تاہم پاکستان کی خوش قسمتی ہے اورجنرل باجوہ کا بھی شکریہ جنہوں نے اس پیشکش کو مسترد کیا۔
آرمی چیف کی تعیناتی سے متعلق سوال پربلاول کا کہنا تھا کہ یہ قانونی طور پروزیراعظم کی صوابدید ہے، لہٰذا پیپلز پارٹی وزیراعظم کے فیصلے کو سپورٹ کرے گی، البتہ اگرصدرمملکت عارف علوی نے اس ضمن میں کوئی غیرآئینی کام کیا تو انہیں نتیجہ بھگتنا پڑے گا۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے اسلام آباد میں فیض آباد کے قریب دھرنا دینے کا فیصلہ کرلیا۔
پی ٹی آئی نے ڈی سی راولپنڈی کو فیض آباد کے قریب دھرنے کے لئے باضابطہ درخواست جمع کرادی ہے۔
تحریک انصاف کی جانب سے درخواست ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی واثق قیوم نے جمع کرائی۔
درخواست میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ تحریک انصاف 26 نومبر کو فیض آباد کے پاس عوامی جلسہ اور دھرنا دے گی، عمران خان اس کی قیادت کریں گے، سیاسی شو میں خواتین اور بچوں کی بھی بڑی تعداد شرکت کرے گی، انتظامیہ اس موقع پر سیکیورٹی کے لئے معقول انتظامات کرے۔
دوسری جانب تحریک انصاف کے رہنماؤں کی راولپنڈی انتظامیہ اورپولیس افسران سے ملاقات ہوئی، جس میں 26 نومبر کے پاور شو کے لئے انتظامات کا جائزہ لیا۔
پی ٹی آئی کی جانب سے مری روڈ فیض آباد کےقریب مرکزی اسٹیج لگایا جائے گا، جلسے کے دوران مری روڈ اور میٹرو سروس کو بھی بند رکھنے کی تجویز پرغور کیا گیا۔
یاد رہے کہ 19 نومبر کو سابق وزیراعظم عمران خان نے 26 نومبر کو راولپنڈی پہنچنےکی کال دی تھی ۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم سب نے ہفتے کو ایک بجے پنڈی پہنچنا ہے، ہمیں حقیقی آزادی کے لئے گھروں سے نکلنا ہے، لہٰذا 26 نومبر کو پوری قوم پنڈی پہنچے گی جہاں صاف و شفاف الیکشن کا مطالبہ کریں گے۔
ملکی دارالحکومت اسلام آباد میں امن عامہ کی صورتِ حال کا جائزہ لینے کیلئے کیپیٹل پولیس کے افسران کا اجلاس ہوا جس میں ریڈ زون کی سیکیورٹی کو یقینی بنانے کے لئے پولیس، ایف سی اور رینجرز تعینات کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
ترجمان پولیس کے مطابق اجلاس میں طے کیا گیا کہ کوئی بھی سیاسی سرگرمی قانون کے مطابق اور انتظامیہ کی اجازت سے ہوگی، کسی قسم کے غیرقانونی عمل کو ہرگز برداشت نہیں کیا جائے گا۔
ترجمان پولیس کا کہنا تھا کہ چھبیس نومبر کو راولپنڈی سے اسلام آباد کے داخلی راستوں کو بند کیا جا سکتا ہے۔
ترجمان پولیس کے مطابق دہشتگردی کے خطرات کے پیش نظر سرچ آپریشنز کئے جائیں گے۔ سیکیورٹی پر تعینات نفری کی رہائش، خوراک اور دیگر سہولیات کی نگرانی سی پی او ہیڈ کوارٹر کریں گے، ڈیوٹی پرتعینات تمام اہلکاروں کو جدید ٹیکنالوجی سے لیس کیا جائے گا۔
دوسری جانب تحریک انصاف کے مرکزی رہنماؤں نے راولپنڈی ضلعی انتظامیہ اور پولیس افسران سے ملاقات کی جس میں 26 نومبر پاور شو کے انتظامات کا جائزہ لیا گیا۔
پی ٹی آئی جلسے کے دوران مری روڈ اور میٹرو بس سروس کو بند رکھنے کی تجویز پرغورکیا گیا۔