Subscribing is the best way to get our best stories immediately.
آزاد کشمیر کے سابق وزیر اعظم سردار تنویر الیاس پر ان کی کابینہ کے سابق وزیر اکمل سرگالہ نے 2 ارب 62 کروڑ روپے کی مبینہ کرپشن میں ملوث ہونے کا الزام لگایا ہے۔
اپنے ایک ویڈیو پیغام میں اکمل سرگالہ نے پاکستان تحریک انصاف کے چار دھڑوں میں تقسیم ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے سردار تنویر الیاس پر الزام لگایا کہ وہ ریاست کا لوٹا ہوا پیسہ استعمال کرکے پی ٹی آئی میں ایک علحیدہ دھڑا بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔
سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے سابق وزیر جنگلات اکمل سرگالہ نے پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کی جانب سے عدالتی فیصلہ اور 2 ارب 62 کروڑ روپے کی کرپشن کے سیکنڈل سامنے آنے کے باوجود سردار تنویر الیاس کے تادیبی کاروائی نہ کرنے پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ سردار تنویر الیاس کو ابھی تک نہ پارٹی صدارت سے ہٹایا گیا اور نہ ہی انہیں ڈی نوٹیفائی کیا گیا۔
اکمل سرگالہ نے کہا کہ اس وقت پاکستان تحریک انصاف آزاد کشمیر چار دھڑوں میں تقسم ہوچکی ہے، ایک دھڑے کی قیادت بیرسٹر سلطان محمود چوہدری جبکہ دوسری کے سابق وزیراعظم سردار تنویر الیاس کررہے ہیں۔ ایک دھڑا وزیر اعظم آزاد کشمیر چوہدری انوار الحق ہے جبکہ چوتھا ہم خیال گروپ ہے جس کا میں بھی حصہ ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم خیال گروپ کسی جماعت میں شامل ہوگا یا پھر آزاد حیثیت سے اسمبلی میں کرار ادا کرے گا اس کا فیصلہ اور آئندہ کے سیاسی لائحہ عمل کا اعلان جلد ایک اجلاس طلب کرکے باہمی مشاورت سے کیا جائے گا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے چئیرمین اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ایک طرف پارلیمان اور دوسری طرف اعلیٰ عدلیہ ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے فیصلوں کو نہیں مان رہے۔ عدالت قانون بننے سے پہلے ہی اسے ختم کر رہی ہے۔
نوڈیرو میں تعلقہ رتوڈیرو کے عوام، کارکنان اور پارٹی عہدیداران کی عید ملن پارٹی میں شرکت کے دوران خطاب میں بلاول نے کہا کہ سب کو مل کر پاکستان کو مسائل سے نکالنے کی کوشش کرنی ہو گی۔
انہوں نے کہا کہ عام آدمی کی معاشی صورتحال بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ مخالفین سے بھی مذاکرات کرنے ہوں تو کیے جائیں۔
وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ سیلاب اور قدرتی آفات کے نتائج آج تک برداشت کر رہے ہیں، پورے ملک میں انتخابات ایک ہی دن ہونے چاہئیں، سازش کرنے والوں کی کوششیں آج بھی جاری ہیں، ان کی پہلی کوشش ہے صرف پنجاب میں پہلے الیکشن کرائے جائیں۔
انہوں نے کہا کہ سازشی عناصرملک میں سیاسی افراتفری چاہتے ہیں، ایسی لڑائی نہ کریں جس سے جمہوریت کو نقصان پہنچے، اس طرح کی لڑائی سے وفاق کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے، بات چیت سے ملک کو بڑے نقصان سےبچانے کی کوشش کرنی چاہیے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ ون یونٹ لاگو کرنے کی کوشش کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں، سازشیں کرنے والوں کو متنبہ کرتے ہیں ہوش کے ناخن لیں۔
عید ملن کی اس تقریب میں آصفہ بھٹو زرداری، پیپلزپارٹی شعبہ خواتین کی مرکزی صدر بی بی فرالک تالپور نے بھی شرکت کی۔
بلاول بھٹو زرداری اور بی بی آصفہ بھٹو زرداری کو عید ملن پارٹی میں روایتی سندھی اجرک کے تحائف پیش کئے گئے۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چئیرمین عمران خان کا کہنا ہے کہ حکومت سے پی ٹی آئی کا کوئی رابطہ نہیں ہوا، اسد قیصر کو بات کرنے کا مینڈیٹ دیا ہی نہیں، بات چیت کا مینڈیٹ صرف شاہ محمود کو دیا اور ان سے کسی نے بات نہیں کی، مجھے خوف ہے کہ مذاکرات کے بہانے یہ الیکشن اکتوبر سے بھی آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔ اگر یہ مئی میں اپنی حکومت گرادیں تو ہم بات کرسکتے ہیں۔
نجی ٹی وی اے آر وائی کو دئے گئے انٹرویو میں عمران خان نے کہا کہ انہوں نے پنجاب اور خیبر پختونخوا حکومت اس لیے ختم کیں کہ مریم نواز سمیت چار پانچ پی ڈی ایم رہنما کہہ رہے تھے کہ الیکشن چاہییں تو پنجاب اور خیبرپختونخوا حکومتیں گرائیں۔ عمران خان نے کہا کہ کہ وزارت عظمی سے ہٹائے جانے کے بعد ان کی جب جنرل باجوہ سے ملاقات ہوئی تو جنرل باجوہ نے بھی کہا کہ اگر آپ الیکشن چاہتے ہیں تو اپنی حکومتیں گرا دیں جس پر ہم نے حکومتیں گرا دیں۔ لیکن اب پی ڈی ایم والے ایسے بھاگ رہے ہیں جیسے بچے گراؤنڈ سے وکٹیں اٹھا کر بھاگ جاتے ہیں۔
عمران خان کا انٹرویو نشر ہونے کے بعد پی ٹی آئی نے ٹوئٹر پر جاری بیان میں کہا کہ پی ٹی آئی چیئرمین کے بیان کو بعض میڈیا پرسن غلط رنگ دے رہیں ہے۔ پی ٹی آئی نے اپنے آفیشل ٹوئیٹر ہینڈل سے انٹرویو کا کلپ بی ٹوئٹ کیا۔
انٹرویو میں عمران خان نے مزید کہا کہ ’جنرل باجوہ نے ایکسٹینشن کا پلان کیا ہوا تھا، امریکہ میں لابی کرنا شروع کردی تھی انہوں نے کہ امریکن ان کی ایکسٹینشن (توسیع) کو اینڈورس (توثیق) کریں، اس کیلئے ہندوستان سے بھی اچھے تعلقات چاہتے تھے، کشمیریوں کی ان کو کوئی فکر نہیں تھے، کیونکہ اگر آپ مودی کو بلا لیتے ہیں تو کشمیریوں کو تو آپ نے ختم کردیا نا‘۔
انہوں نے کہا کہ ’جنرل باجوہ کی کوئی آئیڈیالوجی نہیں تھی، ہر انسان کا کوئی نظریہ ہوتا ہے، میں نے جو ان کو ریڈ کیا ہے جنرل باجوہ کا کوئی نظریہ نہیں تھا، اگر کشمیری جاتے ہیں تو جائیں، اگر ملک کے بڑے بڑے داکو ملک کا پیسہ چوری کرکے باہر لے گئے ہیں تو ان ساروں کو پتا تھا، یہی آئی ایس آئی، یہی باجوہ کو پتا تھا کہ نواز شریف اور زردری کتنا پاکستان کا پیسی چوری کرکے باہر لے کر گئے ہیں، مجھے پریزینٹیشنز دی ہوئی ہیں پچھلی آئی ایس آئیز نے، ان کو ساری ڈیڑٹیلز تھیں کہ انہوں نے کتنا پیسہ چوری کیا ہے جو پبلک میں نہیں آتا، ان کے پاس اور ڈیٹیلز ہیں کہ انہوں نے کتنا پیسہ چوری کیا ہے‘۔
عمران خان نے کہا کہ سوموٹو نوٹس لے کر ہی قاسم سوری کی رولنگ مسترد کی گئی تھی تو اس وقت تو تعریفیں کی گئی تھیں، اب سپریم کورٹ نے سوموٹو لیا ہے تو ان کو بڑی تکلیف ہورہی ہے، ہمارے لیے رات 12 بجے عدالتیں کھلی تھیں ہم نے تب بھی سپریم کورٹ کے فیصلے سے انکار نہیں کیا تھا۔
سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ حکومت تاخیری حربے استعمال کر رہی ہیں کہ کسی طرح 14 مئی کو عبور کرلیں، ہم سپریم کورٹ کے ساتھ ہیں، 14 مئی سے آگے نہیں جائیں گے، حکومت کے پاس کوئی پرپوزل ہے تو دے دے ہم بات کرلیں گے۔
انہوں نے کہا کہ جون جولائی میں عام انتخابات کی تجویز دیں ہم بات کریں گے، مئی میں اسمبلیاں تحلیل کریں، نیوٹرل نگراں حکومت لائیں پھر بات ہو سکتی ہے۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ ان لوگوں کی تاریخ ہے، یہ لوگوں کو خریدتے ہیں یا بلیک میل کرتے ہیں، مریم نواز خود کہتی ہے کہ میں نے ویڈیوز بنائی ہوئی ہیں، یہ لوگ آڈیوز ریکارڈ کراتے ہیں اور پھر انہیں لیک کرتے ہیں، آڈیو ریکارڈنگ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
حکومت سے مذاکرات کی آفر کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسد قیصر کو بات کرنے کا مینڈیٹ نہیں دیا بلکہ شاہ محمود قریشی بات کریں گے، شاہ محمود قریشی سے ابھی تک کسی نے مذاکرات کیلئے رابطہ نہیں کیا، پی ڈی ایم، پیپلزپارٹی سب نے کہا کہ اپنی حکومتیں گرائیں الیکشن کرادیں گے، ہم نے اپنی اسمبلیاں تحلیل کردیں تو اب یہ الیکشن سے بھاگ رہے ہیں۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے لندن پلان کے بارے میں بات کرتے ہوئے بتایا کہ نواز شریف کو گارنٹی دی گئی تھی کہ عمران خان اور پی ٹی آئی کو ختم کردیں گے، لندن پلان میں ہمیں کمزور کرنا تھا، کیسز کرنے تھے جیلوں میں ڈالنا تھا، الیکشن کمیشن ان کے ساتھ ملا ہوا ہے، نگراں حکومتوں کو بھی یہ استعمال کررہے ہیں، ان لوگوں کی پوری کوشش ہے کسی طرح پی ٹی آئی کو کمزور کردیا جائے، پہلے یہ لوگوں کو گرفتارکرتے تھے اب باقاعدہ انہیں اغوا کیا جاتا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں چیئرمین پی ٹی آئی نے بتایا کہ جنرل (ر) قمرجاوید باجوہ نے بھی ایسے جھوٹ بولے جو کبھی نہیں سنے تھے، جب ہماری حکومت گرائی گئی تو اس وقت پتہ چلا قمر باجوہ ہم سے جھوٹ بولتا رہا، مڈل ایسٹ کے ایک رہنما نے ایک سال پہلے مجھے بتایا تھا کہ قمر باجوہ تمہارے خلاف ہوگیا ہے، اس کے علاوہ آئی بی ہیڈ نے بھی مجھے ذاتی طور پر آکر بتایا کہ قمر باجوہ شہباز شریف کو لانا چاہتا ہے۔
عمران خان نے بتایا کہ میں نے باجوہ سے براہ راست پوچھا کہیں آپ شہباز شریف کو لانے کا تو نہیں سوچ رہے؟ جس کے جواب میں قمر باجوہ نے کہا یہ نہیں ہوسکتا، شریف برادران تو میرے سب سے بڑے دشمن ہیں، باجوہ کو کہا کہ شہباز شریف پر 17 ارب روپے کی کرپشن کے کیسز ہیں، ساتھ یہ بھی کہا کہ سنا ہے کہ یہ لوگ آپ کو مزید توسیع آفر کر رہے ہیں تو ہم بھی آفر کردیتے ہیں، پہلا جھوٹ یہ تھا کہ کہتے تھے میں مدت میں توسیع نہیں لوں گا، اس کے بعد دو جنرل ہمارے پاس آئے اور ہمارے لوگوں کو توسیع کیلئے راضی کیا۔
مسلم لیگ (ق) کے چودھری شجاعت حسین نے امیر جماعت اسلامی سراج الحق سے ٹیلی فونک رابطہ کیا اور انہیں عید کی مبارکباد دی، دونوں رہنماؤں نے سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال بھی کیا۔
امیر جماعت اسلامی نے فون کرنے پر چودھری شجاعت حسین کا شکریہ ادا کیا۔
سراج الحق کا کہنا تھا کہ پورے ملک میں ایک ہی دن متفقہ رائے سے الیکشن کا انعقاد مسئلہ کا حل ہے، اتفاق رائے کے بغیر کسی ایک صوبے میں الیکشن مسائل میں اضافہ کرے گا، ڈائیلاگ کیلئے دیگر سیاسی جماعتوں سے مشاورت جاری ہے۔
چودھری شجاعت نے بھی ملک میں ایک ہی دن انتخابات پر زور دیا، دونوں رہنماؤں کے درمیان رابطے جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا۔
چودھری شجاعت حسین کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں کے درمیان ڈائیلاگ کیلئے جماعت اسلامی کا کردار اہم ہے، رابطوں اور تبادلہ خیال کے ذریعے ہی بہتر راستہ نکل سکتا ہے۔
پاکستان میں انتخابات کے حوالے سے پیدا ہونے والا سیاسی بحران شدت اختیار کرتا جارہا ہے، اپوزیشن اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اپنا پورا زور پنجاب الیکشن پر لگا رہی ہے تو حکومتی اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) پورے ملک میں ایک ہی دن الیکشن کیلئے کوشاں ہے۔ سپریم کورٹ کے احکامات کے باوجود انتخابات کا یہ اونٹ فی الحال کسی کروٹ بیٹھتا دکھائی نہیں دے رہا۔
ایک جانب عدالتِ عظمیٰ کا حکم اور پی ٹی آئی کا مطالبہ ہے کہ پنجاب میں فوری الیکشن ہوں تو دوسری جانب حکومتی اتحاد نے پارلیمنٹ کے ذریعے الیکشن سے واضح انکار کردیا ہے۔
ساتھ ہی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے یہ بھی عذر دیا ہے کہ 14 مئی کو انتخابات کیلئے ادارے پوری طرح تیار نہیں ہیں۔
عمران خان متعدد مواقع پر واضح کرچکے ہیں کہ مذاکرات کا محور انتخابات کا 90 دن میں ہونا ہے، جبکہ حکومتی اتحاد باالخصوص مسلم لیگ (ن) بضد ہیں کہ الیکشن ایک ساتھ اکتوبر میں ہوں۔
ایسے میں جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے ”سیاسی فریقین“ کے درمیان مذاکرات کا بیڑہ اٹھایا، انہوں نے پی ٹی آئی کے چئیرمین عمران خان اور وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کی اور مثبت اشاروں کی نوید سنائی۔
بدھ کو سپریم کورٹ میں بھی دوران سماعت اٹارنی جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ’سیاسی جماعتیں مذاکرات پر آمادہ ہو رہی ہیں اور عدالت کچھ مہلت دے تو معاملہ سلجھ سکتا ہے۔‘
جس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ ’سیاسی جماعتیں ایک مؤقف پر آجائیں تو عدالت گنجائش نکال سکتی ہے۔‘
حکومت کے اہم اتحادی اور پیپلز پارٹی کے شریک چئیرمین آصف زرداری بھی مذاکرات کے ذریعے بحران کا حل نکالنے کے حامی ہیں اور گذشتہ چند دنوں کے دوران پیپلز پارٹی کا وفد مختلف جماعتوں سے مل چکا ہے۔ لیکن پی ڈی ایم میں مذاکرات پر واضح اختلاف رائے موجود ہے۔
مذاکرات کا یہ سلسلہ کسی نتیجہ خیز حل کو حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا، کیونکہ جمیعت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان عمران خان سے مذاکرات کے خلاف ہیں۔
پی ٹی آئی سے مذاکرات نہ کرنے کے مؤقف پر قائم جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ ہم عمران خان سےمذاکرات کے فلسفے اور دلیل کو نہیں مانتے۔
دوسری جانب سپریم کورٹ نے تمام جماعتوں کے قائدین کو 26 اپریل کو سر جوڑنے کا موقع دیا ہے اور کسی نتیجے پر پہنچنے کا کہا ہے۔
دونوں فریقین نے مذاکرات کیلئے کمیٹیاں قائم کردی ہیں، عمران خان اور وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقاتوں کا حصہ رہے جماعت اسلامی کے نائب امیر لیاقت بلوچ نے بی بی سی گفتگو میں کہا کہ ’ہم چاہتے ہیں کہ کچھ قدم عمران خان آگے بڑھیں اور کچھ اتحادی حکومت اور انتخابات کی کسی ایسی تاریخ پر اتفاق رائے ہو جائے جس پر دونوں کا اتفاق ہو۔‘
لیکن فی الحال حکومتی اتحاد کو انتخابات ہوتے نظر نہیں آرہے، اور ایسا لگتا ہے کہ پیپلز پارٹی بھی مذاکرات کا دم گھٹتا پارہی ہے۔ کیونکہ پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ نے آج نیوز سے گفتگو میں کہا ہے کہ مذاکرات اس ماحول میں نہیں ہو سکتے، موجودہ صورتحال میں انارکی پھیلنے کا خدشہ ہے۔ جبکہ پیپلز پارٹی نے ملک میں ایک ہی دن انتخابات کرانے کے لئے 25 اپریل کو سندھ بھر میں احتجاج کا اعلان کردیا ہے۔
اس حوالے سے پیپلز پارٹی کے رہنما منظور وسان کا کہنا ہے کہ ہم الیکشن کے لئے تیار ہیں اکتوبر میں نہیں تو اگست میں الیکشن ہوجائے۔
لیکن وفاقی وزیر توانائی اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما خرم دستگیر کا کہنا ہے ضروری ہے الیکشن سے پہلے ہم سب اس بات متفق ہوں کہ ہم سب کو الیکشن کے نتائج قبول ہوں۔
ایک طرف جہاں جماعت اسلامی مذاکرات کے زریعے فریقین کو کسی بیچ کے راستے پر لانے کیلئے کوشش کر رہی ہے تو دوسری جانب اس کا اپنا مؤقف ہے کہ انتخابات پورے ملک میں ایک ہی دن ہوں۔
امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ وفاق اور صوبوں میں ایک ساتھ الیکشن کرائے جائیں، 14 مئی کو الیکشن کے فیصلے سے انتشار پیدا ہوگا۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ صرف پنجاب اور خیبرپختونخوا میں الیکشن کوئی قبول نہیں کرے گا، الیکشن کسی ایک پارٹی لیڈر کے کہنے پر نہیں ہوگا، تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹنا پڑے گا۔
امریکی جریدے بلوم برگ نے رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان کی قبل از وقت انتخابات کی خواہش نے پاکستان کو آئینی بحران میں دھکیل دیا ہے۔
مضمون میں کہا گیا کہ عمران خان تیزی سے پاکستان کو بحران اور انتشار کی جانب دھکیل رہے ہیں، بحران کے نتیجے میں پاکستان میں جمہوری عمل کے مستقبل کے بارے میں تشویش بڑھ گئی ہے۔
امریکی جریدے کی جانب سے شائع کیے جانے والے آرٹیکل میں کہا گیا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) چیئرمین عمران خان کی قبل از انتخابات کی خواہش کے باعث پاکستان ایک آئینی بحران کا شکار ہورہا ہے، جبکہ اس معاملے میں چیف جسٹس عمر عطاء بندیال مرکزی کردار بن چکے ہیں، جنہوں نے سابق وزیراعظم کی جانب سے دو صوبوں کی اسمبلیوں کو تحلیل کیے جانے کے بعد ازخود نوٹس لے کر انتخابات کا حکم جاری کیا، مگر وفاقی حکومت چیف جسٹس کی جانب سے اس مداخلت کو قبول کرنے پر تیار نہیں ہے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان میں وفاقی حکومت نے ازخود نوٹس لینے کے معاملہ پر چیف جسٹس کے اختیارات کو محدود کرنے کیلئے قانون سازی کی ہے جبکہ چیف جسٹس نے 8 رکنی بینچ تشکیل دے کر اس قانون سازی کو مکمل ہونے سے قبل ہی روکنے کا حکم جاری کروایا۔ جس کے بعد چیف جسٹس اور وفاقی حکومت کے درمیان ایک تصادم کی صورتحال پیدا ہو چکی ہے۔
بلوم برگ کی رپورٹ میں کہا گیا کہ عمران خان کی ناکام خارجہ پالیسی اور ملک کی ڈوبتی اقتصادی صورتحال نے تحریکِ عدم اعتماد کا راستہ اپنایا۔
بلوم برگ نے مضمون میں لکھا کہ حکومت کے مطابق اس وقت عمران خان کے پیدا کردہ حالات کی وجہ سے ڈیفالٹ سے بچنے، آئی ایم ایف پروگرام بحالی کی ضرورت ہے۔
بلوم برگ کے مطابق پاکستان کی سپریم کورٹ میں تقسیم نظر آرہی ہے، تشدد کی فضا قائم ہونے کا بھی خدشہ ہے، عمران خان ملٹری اسٹیبلشمنٹ، امریکہ سے دوبارہ تعلقات استوار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما فواد حسین چوہدری نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی ساس کی مبینہ آڈیو لیک پر ردعمل میں کہا ہے کہ جب وزیر اعظم آفس اور وزیراعظم ہاؤس کی آڈیو ریلیز کی گئیں اور ہم نے سپریم کورٹ سے بارہا درخواست کی کہ دیکھیں یہ سلسلہ تباہ کن ہے اگر ملک کے وزیر اعظم کا دفتر اتنا غیر محفوظ ہے کہ وہاں ہر میٹنگ کی ریکارڈنگ ہو رہی ہے تو باقی کون محفوظ ہو گا؟
ٹوئٹر پر جاری اپنے پیغام میں انہوں نے لکھا کہ ’ایجنسیوں کا یہ کردار کس مہذب ملک میں ہے؟‘
اپنے ٹوئٹ میں انہوں نے مزید لکھا کہ ’یہ درخواست مہینوں گزرنے پر بھی ابھی سپریم کورٹ میں نہیں لگی، اب کوئ جج، سیاستدان، سرکاری ملازم حتیٰ کہ گھریلو خواتین بھی اس تھرڈ کلاس سوچ کا شکار ہیں، اور کوئ کچھ نہیں کر سکتا۔‘
انہوں نے کہا کہ فئیر ٹرائل لاء کے تحت ایسی غیر قانونی فون ٹییپنگ کی سزا تین سال قید ہو سکتی ہے۔
اپنے ایک اور ٹوئٹ میں فواد چوہدری نے لکھا کہ ’آئین پر عملدرآمد کی گفتگو ان حکومتی کارندوں کو سازش لگتی ہے، ہر ذی شعور جس کا مفاد لفافے سے نہیں جڑا اس کا تجزیہ یہ ہی ہو گا کہ ملک میں سیاسی استحکام کیلئے انتخابات کے علاوہ کوئی اور طریقہ نہیں، ہاں لفافے چاہتے ہیں ملک ایسے ہی چلے چار دن اور دھاڑی لگ جائے‘۔
فواد چوہدری نے مزید لکھا کہ ’عدلیہ کے خلاف قرارداد پر جیف جسٹس صاحب کے داماد کی والدہ اور داماد کے بھائی کے دستخط ہیں، اگر چیف جسٹس اس سے بلیک میل ہونے لگے تو ادارہ کیا چلنا ہے، جسٹس منصور علی شاہ اور اطہرمن اللہ کو ان آڈیو لیکس پر پوزیشن لینی چاہئے اس سے پہلے اطہر من اللہ جسٹس ثاقب نثار کی آڈیو کا پول کھول چکے ہیں۔‘
وزیرداخلہ رانا ثناء اللہ نے آڈیو لیک کا ازخود نوٹس لینے کا مطالبہ کردیا۔
مبینہ آڈیو لیک سے متعلق فیصل آباد میں کی گئی پریس کانفرنس میں رانا ثناء اللہ نے کہا کہ کافی دیر سے سوشل اور مین اسٹریم میڈیا پر ایک آڈیو چل رہی ہے، جس میں ماہ جبین نون صاحبہ اور رافعہ طارق رحیم صاحبہ جو کہ ہماری معزز بہنیں ہیں۔ ان کی ایک گفتگو جو کہ انتہائی تشویشناک ہے، وہ چیف جسٹس آف پاکستان سے متعلق گفتگو فرما رہی ہیں، اس گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان کی درازی عمر اور ان کی ہمت و جرات کیلئے دعائیں مانگی گئیں، ساتھ ساتھ انہیں یہ تجویز بھی دی گئی ہے کہ آپ فوری طور پر فیصلہ کریں۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ آڈیو میں بتایا جارہا ہے ’میں نے کہا ہے عمر کو کہ تم جو ہے وہ فوراً فیصلہ کرو اور الیکشن فوری طور پر ہونے چاہئیں اور یہ فیصہ ہر قیمت پر ہونا چاہئیے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’کیا وہ (مخصوص ججز) اپنے بچوں، عزیزوں کے کہنے پر فیصلے کرتے ہیں۔ ان کے عزیز کیسے اس قسم کی گفتگو کر سکتے ہیں۔ انھیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ یہ چیزیں انصاف کے تقاضوں کے برعکس ہیں۔‘
انہوں نے کہا تو یہ ایک ایسی گفتگو ہے جسے سننے والے ہر پاکستانی میں تشویش کی لہر دوڑتی ہے، ’کہ کیا ہمارے انصاف کے ایوانوں میں بیٹھنے والے جو لوگ ہیں ، کیا وہ اپنے بچوں کے کہنے پہ، اپنے عزیزوں کے کہنے پہ، ساس سسر، ماں باپ، بہن بھائی، بیٹی بیٹا ، ان کے کہنے کے اوپر فیصلے کرتے ہیں؟‘
رانا ثناء نے کہا کہ اس سے پہلے جب بابا رحمتے جب اس ملک پر زحمت بن کر مسلط تھے، وہ جو خود کرتے تھے وہ بھی ساری دنیا میں آج مزاق کا باعث بنا ہوا ہے۔ ’جس دن انہوں نے میاں نواز شریف کو نااہل کیا اس دن گیلری میں ان کی فیملی بیٹھی تھی، ان کی بیٹیوں کے متعلق جو ہے یہ بڑی مصدقہ خبریں ہیں کہ وہ بیٹھیں اور اس وقت انہوں نے جو ہے وہ یعنی نعرے بلند کئے جب میاں نواز شریف کو نااہل کرنے کا فیصلہ سنایا گیا‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’آصف سعید کھوسہ صاحب کی فیملی سے متعلق اس قسم کی گفتگو ہوتی رہی ہے‘۔
وزیر داخلہ نے مزید کہا کہ ’ایک سٹنگ جج جو کہ تین ممبر بینچ میں شامل ہیں، ان کے بیٹے ان کی فیملہ کا جو ہے یہ بات بڑی عام ہے کہ وہ پی ٹی آئی کے بڑے سرگرم رکن ہیں‘۔
ان کے مطابق تو یہ ساری چیزیں انصاف کے تقاضوں کے برعکس ہیں۔ جب گھریلو خواتین سیاست میں ہدایات دیں گی کہ تم اس طرح سے غداری میں سب کو لپیٹ دو، غداری کا بیانیہ چلا دو، جب فائلوں کو سائن کرنے کیلئے کہیں گی کہ پانچ قیراط ہیرے کی انگوٹھی چاہئیے تین کی نہیں چاہئیے، اور اس کیس جس پر سارے ملک کی نظریں ہیں، ججز کو منسوب کرکے تبصرے کریں گی تو گھریلو خواتین کو اس قسم کی گفتگو نہیں کرنی چاہئیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایک محترم جج کو قائل کیا جارہا ہے کہ آپ یہ فیصلہ کریں، اور ساتھ اپنی بزرگی اپنے رشتے کا واسطہ دیا جارہا ہے، اس کو اثر انداز کیا جارہا ہے۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ اس کا حساب ہونا چاہئیے کہ آڈیو ٹیپ کس نے کی، لیکن شکوک و شبہات سے بالاتر ہونے کیلئے آپ سامنے آئیں اور آڈیو کا فرانزک آڈٹ کرائیں، یا تو یہ کہیں کہ یہ آڈیو درست ہے ایسا ہی ہوا ہے ، یہ گفتگو ہوئی ہے، لیکن اس کو ریکارڈ کیوں کیا گیا تو ٹھیک ہے اس کیوں کا جواب ہم دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ اس کیوں کا جواب ہم جس نے گفتگو ریکارڈ کی اس سے لیں گے اور اسے سزا بھی دی جائے گی۔
قوزیر داخلہ نے کہا کہ ’پتا چل سکتا ہے کہ اگر کسی نے جعلی آڈیو بنا کر پھیلائی ہے۔ فرانزک آڈٹ سمیت قانونی کارروائی کی جائے۔ جن پر الزام آئے وہ استعفی دیں۔‘
آڈیو کا فرانزک آڈٹ کرائیں، اگر یہ غلط ہوئی تو ان کے خلاف پرچہ ہونا چاہئیے۔
رانا ثنا اللہ نے کہا کہ ’کیا معزز جج صاحبان ان عزیزوں کے خلاف کوئی ایکشن لیں گے؟ اگر یہ آڈیو غلط ثابت ہوئی تو پرچہ ہونا چاہیے۔ اگر یہ گفتگو سچ ہوئی تو اس کے نتائج ہوں گے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ضد، انا پر مبنی فیصلے اور دھڑے بندی کا حساب ہونا چاہیے۔ مسلم لیگ ن کی طرف سے مطالبہ ہے کہ اس آڈیو پر ازخود نوٹس لیا جانا چاہیے۔‘
وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے کہا کہ جن کے بارے میں بات کی جا رہی ہے انہیں ’گریس کا مظاہرہ کر کے مستعفی ہوجانا چاہیے۔‘
وزیر داخلہ نے کہا کہ ’اگر یہ جعلی ہے تو پتا کیا جائے یہ کس نے کیا۔ اگر یہ درست ہے تو جن کے بارے میں گفتگو کی گئی انھیں استعفی دینا چاہیے۔‘
وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی ساس ماہ جبین نون کی مبینہ آڈیو لیک کا ٹرنسکرپٹ اپنی پریس کانفرنس میں پیش کیا جس میں دکھایا گیا کہ آڈیو لیک میں جسٹس عمر عطا بندیال کی ساس ماہ جبین نون اور وکیل خواجہ طارق رحیم کی اہلیہ گفتگو کر رہی ہیں۔
لیک ہونے والی مبینہ آڈیو میں ماہ جبین نون کہتی ہیں کہ رات سے نا عمر کے لیے پڑھ پڑھ کے، میں تمہیں نہیں بتا سکتی، دعائیں مانگ رہی ہوں۔
رافعہ طارق کہتی ہیں، یار لوگوں کو بھی کہا ہے اور عمر کو ایک میسج بھیجا میں نے، تم لاہور کے جلسے میں وہاں موجود تھیں، وہاں لاکھوں بندا تھا، اسی طرح ہر شہر میں لاکھوں بندا ہے، اور تم صرف یہ اندازہ لگالو کہ تمہارے لیے کتنی دنیا دعا کر رہی ہے اس وقت، جس سے تمہاری ہمت اور تمہاری سیفٹی۔
چیف جسٹس کی ساس ماہ جبین کہتی ہیں، اللہ ان کو کمزور کرے اور ان کو ہمت دے جس پر رافعہ طارق بولیں رات کو میں نے دونوں کو اس کو اور منیب کو گڈ بھیجا تو دونوں نے پتا ہے کیا مجھے بھیجا، وہ نہیں شکل ہوتی کہ دانتوں میں آپ دبا لیتے ہو اپنی زبان، مجھے کہہ رہے تھے کہ، بی کیئرفُل، وائے شُڈ آئی بی کیئر فُل، وائے؟
ماہ جبین بولیں جلد سے جلد الیکشن ہوں ابھی، جس پر رافعہ طارق نے کہا الیکشن، دیکھو ناں، اگر نہیں ہوتے ناں پھر یہ اپنا سمجھ لیں کہ پھر مارشل لا لگے گا، یہ نہیں رہ سکتے ناں، بس ختم بات۔
ماہ جبین نے کہا مارشل لا بھی وہ وہ کمبخت نہیں لگانے کو تیار ناں، رافعہ طارق نے کہا بالکل تیار ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر اور چیف آرگنائزر مریم نواز نے مبینہ آڈیو لیک پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’جہاں فیصلے آئین اور قانون نہیں بلکہ بیگمات، ساسوں کی پسند اور ناپسند کی بنیاد پر ہورہے ہوں، وہاں فتنہ اور انتشار ہو گا اور تعمیر و ترقی صرف خواب رہے گی۔ پہلے بھی کہا تھا چیف جسٹس صاحب! یہ پاکستان کی عدلیہ ہے، جوائے لینڈ نہیں۔‘
وزیر اعظم شہباز شیرف کے معاون خصوصی ملک احمد خان نے لاہور میں پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ ایک ادارے میں سیاسی چپقلش شروع ہوگئی ہے، پارلیمنٹ ایک سپریم کا ادارہ ہے، کوئی پارلیمنٹ کو ڈکٹیٹ نہ کرے۔
ملک احمد خان نے کہا کہ مبینہ آڈیو ججز کے کوڈ آف کنڈکٹ کی واضح پامالی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہیکرز کس طرح گفتگو کر پبلک کردیتے ہیں، ہیکرز کس طرح لوگوں کے نمبرز حاصل کرلیتے ہیں، یہ تو کسی دن قومی سلامتی کا مسئلہ بن سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ثاقب نثار سے گفتگو کرنے والے طارق رحیم کی بیگم کی آڈیو ہے، ایف آئی اے اس معاملے کی تحقیقات کرے۔
رہنما ن لیگ عطا تارڑ کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ پارلیمنٹ پاکستان کا سپریم ادارہ ہے، پارلیمنٹ میں قانون سازی پر سوالات نہیں اٹھائے جاسکتے، ججز کی فیملی کا کوڈ آف کنڈکٹ پر اثر انداز ہونا سوالیہ نشان ہے۔
انہوں نے اپنے ویڈیو بیان میں کہا کہ کسی جماعت کی حمایت کرنا کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی ہے، آرٹیکل 209 کے تحت ریفرنس دائر ہونے پر اسے فکس نہیں کیا جاسکتا۔
اپنے ایک ایک ٹویٹ میں انہوں نے لکھا ’یہ آڈیو جب سوشل میڈیا پر سنی تو یقین ہو گیا کہ سازش گہری ہے۔ فیملیز کی خاطر آئین اور قانون کو روند دیا گیا ہے۔ چیف صاحب اور دو ساتھیوں کی فیملیز جلسوں میں شرکت کے ساتھ ساتھ، جلد الیکشن کرا کر عمران نیازی کو بر سر اقتدار لانے کے لئے کوشاں ہیں۔ 63 A کی تشریح اب سمجھ آئی؟‘
وفاقی وزیر توانائی خرم دستگیر کا کہنا ہے کہ الیکشن کی تاریخ کا تعین عدالت کے ذریعے نہیں ہو سکتا تاریخ کا اعلان کرنا الیکشن کمیشن کا کام ہے۔
عید کے دوسرے روز گوجرانوالہ میں قائم چائلڈ پروٹیکشن ہوم دورے کے موقع پر وفاقی وزیر توانائی خرم دستگیر نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کی تاریخ کا تعین عدالت کے ذریعے نہیں ہو سکتا تاریخ کا اعلان کرنا الیکشن کمیشن کا کام ہے۔
خرم دستگیر کا کہنا تھا کہ اگر کسی بنیاد پر مذاکرات ہو سکتے ہیں وہ ایک ہی بنیاد ہے کہ اکتوبر 2023 کے انتخابات کو ہم سب مل کر صاف شفاف اور غیر آئینی مداخلت سے پاک کریں، کیونکہ 2018 میں جس طرح عوام کے ووٹ پر ڈاکا ڈالا گیا، ووٹ کے تقدس کو پامال کیا گیا وہ پی ڈی ایم کی جماعتوں کے لیے اور عوام کے لیے ایک تباہ کن اور زہریلا تجربہ ثابت ہوا ہے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ اگر عمران خان کی فاشسٹ جماعت دوسری سیاسی جماعتوں کی عوامی حیثیت مانے سے انکاری ہے تو پھر مذاکرات نہیں ہو سکتے، اب یہ نہیں ہو سکتا کہ الیکشن ہو جائیں اور فاشسٹ پارٹی آکر کہہ دے کہ میری دو تہائی اکثریت نہیں آئی میں الیکشن نہیں مانتا، الیکشن سے پہلے ہم سب اس بات متفق ہوں کہ ہم سب کو الیکشن کے نتائج قبول ہوں۔
خرم دستگیر کا کہنا تھا کہ مذاکرات سے قبل انہیں یہ قبول کرنا پڑے گا کہ جو پی ڈی ایم کی حکومت موجود ہے اس نے 2018 کے دھاندلی ذدہ انتخابات کے باوجود پاکستانی عوام کے 68 فیصد ووٹ لیے ہوئے ہیں۔
وفاقی وزیر نے مزید کہا کہ اس بات پر مذاکرات ضرور ہونے چاہیے کہ قانون میں کس قسم کی تبدیلیاں ہونی چاہیے، ہم وہ پارلیمنٹ کے ذریعے کرنے کو تیار ہیں، 2023 کا الیکشن ایک مثالی الیکشن ہوگا جس میں عوام کی رائے واضح طور پر بیلٹ بکس کے ذریعے حکومتوں کا قیام کریں گی۔ ایک دوسرے کا باہمی احترام اور ایک دوسرے کی عوامی حثیثت کا اعتراف کیے بغیر معاملات آگے نہیں بڑھ سکتے۔
سربراہ پی ڈی ایم مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ ہم عمران خان سےمذاکرات کے فلسفے اور دلیل کونہیں مانتے۔
پی ٹی آئی سے مذاکرات نہ کرنے کے مؤقف پر قائم جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ میں اپنی پریس کانفرنس کی حرف بہ حرف گفتگو پر قائم ہوں، ہم عمران خان سےمذاکرات کے فلسفے اوردلیل کونہیں مانتے۔
مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ ہم کیوں جھکیں اور کس کے سامنے جھکیں، جس نے ملک کو دیوالیہ کیا اس سے مذاکرات کس لیے کریں، 90 دن میں الیکشن آئین کا تقاضہ ہے، عمران خان کو راضی کریں تو پھر کوئی بات نہیں۔
پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما منظوروسان نے نئی پیش گوئی کی ہے کہ اپریل میں اہم فیصلے نہیں ہوئے تو مئی میں بہت سےلوگ جیلوں میں یا بیرون ملک ہوں گے۔
اپنے خوابوں اور پیشگوئیوں کی وجہ سے مشہور پیپلزپارٹی کے رہنما اور صوبائی وزیر منظور وسان کا کہنا ہے کہ مستقبل میں ملک کے حالات بہتر نہیں لگ رہے، انتخابات ملتوی ہوئے تو ملک میں ایمرجنسی بھی لگ سکتی ہے، حالات خراب ہوئے تو ملک کے لئے نقصاندہ ہوگا۔
منظور وسان کا کہنا تھا کہ عمران خان غلطی پر غلطی کرتے رہیں گے اور الیکشن اکتوبر میں نہیں ہوسکیں گے، اور اگر عام انتخابات ہو بھی گئے تو اس کے بعد بھی عمران خان وزیراعظم نہیں بنیں گے، اپریل میں اہم فیصلے نہیں ہوئے تو مئی میں بہت سےلوگ جیلوں میں یا بیرون ملک ہوں گے۔
پیپلزپارٹی کے رہنما نے کہا کہ ہم الیکشن کے لئے تیار ہیں اکتوبر میں نہیں تو اگست میں الیکشن ہوجائے، آئندہ انتخابات میں پی پی پی، ن لیگ اور پی ٹی آئی میں کانٹے کا مقابلہ ہوگا، لیکن اگر پنجاب میں الیکشن ہورہے ہیں تو خیبر پختون خواہ میں کیوں نہیں۔
پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما خورشید شاہ کا کہنا ہے کہ ملک میں انارکی پھیلنے کا خدشہ ہے،موجودہ صورتحال میں مذاکرات نہیں ہوسکتے۔
سکھر میں آج نیوز سے خصوصی بات کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ مذاکرات اس ماحول میں نہیں ہو سکتے، موجودہ صورتحال میں انارکی پھیلنےکا خدشہ ہے۔
خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ عمران خان سے پہلے ہی کہا تھا کہ اسمبلیوں سے استعفے نہ دیںو، اور پہلے بھی ہم ہی ان کو اسمبلی میں واپس لائے تھے، اور کہا تھا کہ پارلیمنٹ میں رہ کرکام کرو، ان کےغلط فیصلوں نے پاکستان کو یہاں لاکھڑا کیا ہے۔
پیپلزپارٹی کے رہنما نے کہا کہ عمران خان کو پارلیمنٹ کا تجربہ نہیں، اور جن کو پارلیمنٹ کا تجربہ نہ ہو وہ بات ماننے کو تیار نہیں ہوتے، اس لئے جب مذاکرات کا ماحول بنے گا تو مذاکرات ہوں گے، عدلیہ تقسیم ہوچکی ہے، یہ انارکی ہے، پارلیمنٹ کی خودمختاری تک حالات بہترنہیں ہوسکتے، مذاکرات کی فضا پیدا ہونے تک بات چیت کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
تحریک انصاف نے عید کے تیسرے دن سے پنجاب میں انتخابی مہم شروع کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
تحریک انصاف کے جنرل سیکرٹری اسد عمر نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اعلان کیا کہ کل سے پنجاب کے تمام حلقوں میں پی ٹی آئی الیکشن مہم کا باقاعدہ آغاز کر دے گی۔
جنرل سیکرٹری تحریک انصاف کا مزید کہنا تھا کہ کوئی الیکشن کے لئے تیار ہو یا نہ ہو ہم تیار ہیں۔
پی ٹی آئی کے سینیٹر فیصل جاوید نے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ جمہورکی زبردست پزیرائی سے انتخابات میں عمران خان بڑی کامیابی حاصل کریں گے، اور پنجاب اور خیبرپختونخوا کے معرکے کی بعد اگلا پڑاؤ سندھ اور بلوچستان میں ہوگا-
فیصل جاوید نے بتایا کہ عید کے دوسرے دن بھی عمران خان کی رہائش گاہ پر ان کے چاہنے والوں کی آمد جاری ہے، عمران خان آج رات 7 بجے اپنی رہائش گاہ پر کارکنان سے خطاب کریں گے۔
عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کا کہنا ہے کہ اگرعدلیہ کافیصلہ نہ ماناگیاتوآئین اور قانون کے خلاف بغاوت کرنے والے اسی کے کٹہرے میں ہوں گے۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنی ٹویٹ میں سابق وزیر داخلہ شیخ رشید کا کہنا تھا کہ 27 اپریل بروز جمعرات کام سیدھے ہوں گے یا نہیں اس کا فیصلہ سپریم کورٹ کرے گی۔
شیخ رشید نے کہا کہ یہ کہنا کہ الیکشن کے دن خانہ جنگی ہوگی بیوقوفی اور کم عقلی کی دلیل ہے، اگر عدلیہ کا فیصلہ نہ مانا گیا تو آئین اور قانون کے خلاف بغاوت کرنے والے اسی کے کٹہرے میں ہوں گے۔
شیخ رشید کا مزید کہنا تھا کہ عدلیہ ٹھوک کر آئین اور قانون کا فیصلہ دے قوم ساتھ کھڑی ہے۔
پیپلزپارٹی نے ملک بھر میں ایک دن انتخابات کرانے کیلئے سندھ بھر میں احتجاج کا اعلان کردیا۔
وفاق میں حکومتی اتحادی جماعت پیپلزپارٹی نے ملک میں ایک ہی دن انتخابات کرانے کے لئے سندھ بھر میں احتجاج کا اعلان کردیا۔
اس حوالے سے پیپلزپارٹی سندھ کے صدر نثار کھوڑو کا کہنا تھا کہ صوبے بھر میں 25 اپریل کو احتجاج ہوگا، سندھ کو ون ڈے پول کے علاوہ کوئی فیصلہ قبول نہیں۔
نثار کھوڑو نے کہا کہ ہمارا مطالبہ ہے کہ الیکشن ایکٹ کی شق 69 کے تحت پورے ملک میں ایک ساتھ انتخابات کرائے جائیں، الگ الگ انتخابات ملک کو تقسیم کرنے کے مترداف ہوگا۔
پیپلزپارٹی سندھ کے صدر نے مزید کہا کہ انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کا اختیار ہے، انتخابات کا فیصلہ الیکشن کمیشن کو کرنے دیا جائے۔
ایک طرف پیپلزپارٹی سندھ کی جانب سے ایک ہی دن انتخابات کے لئے احتجاج کا اعلان کردیا گیا ہے اور دوسری جانب پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے نے بھی سیاسی میدان میں اترنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔
بلاول بھٹو نے 6 رکنی ٹکٹس ریویو کمیٹی قائم کردی ہے، جس میں یوسف رضا گیلانی، نیئربخاری، مخدوم احمد محمود، قمرزمان، رانا فاروق سعید اور سید حسن مرتضی شامل ہیں۔
چیئرمین پی پی پی کے پولیٹیکل سیکرٹری جمیل سومرو نے اس حوالے سے نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا ہے۔ جس کے مطابق کمیٹی الیکشن کیلئے امیدواروں کی فہرست تیار کرے گی۔
چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کا کہنا ہے کہ میرے دور میں طاقت میرے پاس نہیں بلکہ جنرل باجوہ کے پاس تھی اور انہوں نے ہی ہمیں ملک میں انصاف قائم نہیں کرنے دیا۔
لاہور زمان پارک میں عید کی مبارکباد دینے آئے کارکنان سے خطاب کرتے ہوئے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا کہنا تھا کہ آزاد لوگ ہی اونچی پرواز کرسکتے ہیں، غلام قومیں کبھی ترقی نہیں کرسکتیں۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ کوئی معاشرہ تب آزاد ہوتا ہے جب اس کو حقوق مل رہے ہوں، ہم نے پاکستان میں انصاف کا نظام لانا ہے جہاں کمزور اور طاقتور برابرہوں، 14مئی کی تاریخ کو مدنظر رکھتے ہوئے انتخابی مہم شروع کی جائے۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ انتخابات عدلیہ کی جانب سے مقرر کردہ تاریخ پر ہوں گے، پوری قوم عدلیہ کے ساتھ کھڑی ہے، ملکی مسائل کا واحد حل فوری صاف وشفاف انتخابات ہیں، اگر انہوں نے سپریم کورٹ کا فیصلہ نہ مانا تو میں کسی وقت بھی کال دے سکتاہوں۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ میرے ساڑھے 3 سالہ دور میں طاقت میرے پاس نہیں جنرل باجوہ کے پاس تھی، وہ کرپشن اور چوری کو برا نہیں سمجھتے تھے اور ان کی حمایت کرتے تھے جنہوں نے آتےہی این آراو لیے، سابق آرمی چیف نے ہی نے ہمیں ملک میں انصاف قائم نہیں کرنے دیا۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ ملک کو دلدل سے نکالنےکیلئے سب سے پہلے قانون کی حکمرانی قائم کرنا ہوگی، آج کل حالات یہ ہیں کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ حکومت نہیں مان رہی، جب تک عوام کی طاقت سےحکومت نہیں آئے گی ملکی حالات بہتر نہیں ہوں گے۔
تحریک انصاف کے چیئرمین نے مزید کہا کہ انصاف کا نظام قائم کرنے سے اوورسیز پاکستان ملک میں سرمایہ کاری کرےگا، اوورسیز پاکستانی کے سرمایہ کاری کرنے سے ہمیں مانگنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔
امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ وفاق اور صوبوں میں ایک ساتھ الیکشن کرائے جائیں، 14 مئی کو الیکشن کے فیصلے سے انتشار پیدا ہوگا۔
لاہو رمیں میڈیا سے بات کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی سراج الحق کا کہنا تھ اکہ ملک کو دلدل سے نکالنے کا واحد راستہ باہمی مشاورت ہے، سیاسی قائدین کو ایک تاریخ پر متفق ہونا پڑے گا۔
امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ وفاق اور صوبوں میں ایک ساتھ الیکشن کرائے جائیں، 14مئی کو الیکشن کے فیصلے سے انتشار پیدا ہوگا۔
سراج الحق کا مزید کہنا تھا کہ صرف پنجاب اور کے پی میں الیکشن کوئی قبول نہیں کرے گا، الیکشن کسی ایک پارٹی لیڈر کے کہنے پر نہیں ہوگا، تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹنا پڑے گا۔