Aaj News

بدھ, اکتوبر 16, 2024  
12 Rabi Al-Akhar 1446  
Live
Budget 2024 25

آئی ایم ایف نے ٹیکس وصولیاں تسلی بخش نہ ہونے پر منی بجٹ کا خدشہ ظاہر کردیا

آئی پی پیز کے ساتھ کیے گئے معاہدوں سے اقتصادی مشکلات پیدا ہورہی ہیں، آئی ایم ایف ذرائع
شائع 24 جولائ 2024 09:28pm

بین الاقوامی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) نے محصولات کی صورتحال غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے حکومت کو قاضح کردیا ہے کہ قرض کیلئے شرائط ہر صورت پوری کرنی ہوں گی، ورنہ منی بجٹ لانا ہوگا۔

ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ حکومت پاکستان کوئی ایسا اقدام نہ کرے جس سے بجٹ اہداف متاثر ہوں۔ زرعی ٹیکس کا ہدف صوبوں اور وفاق کے درمیان تعاون پر منحصر ہے، زرعی ٹیکس کا قانون بننے پر لاگو ہونے کا امکان ہے، ٹیکسوں کے نئے اسٹرکچر کی تشکیل کے لیے وفاق اور صوبوں کا تعاون لازم ہے۔

بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے ذمہ دار عمران خان ہیں، عظمیٰ بخاری

ذرائع کا کہنا ہے کہ پی آئی اے اور بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی نجکاری سے متعلق فیصلے نئے آئی ایم ایف پروگرام کے تحت کیے جائیں گے۔

آئی ایم ایف کے ذرائع نے حکومت کی تبدیلی کی قیاس آرائیوں پر تبصرے سے گریز کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئی ایم ایف سیاسی معاملات پر کوئی تبصرہ نہیں کرتا۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کوسیاسی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے اپنے طور پر اقدامات کرنا ہوں گے۔

ایم کیوایم پاکستان نے آئی پی پیز کیخلاف سندھ اسمبلی میں قرارداد جمع کرادی

آئی ایم ایف ذرائع کے مطابق پاکستان کے لیے نیا قرض پروگرام آخری ہونے پر بھی تبصرہ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اس کا دارو مدار نئے قرض پروگرام کی کامیابیوں پر ہوگا۔

آئی ایم ایف ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈالر کی قیمت کا تعین کرنا مارکیٹ کا اختیار ہے۔

آئی ایم ایف ذرائع نے اس بات کا اعتراف کیا کہ حکومت مہنگائی سے نمٹنے کے لیے اقدامات کررہی ہے اور حکومت ٹیکس مشینری کی استعداد بڑھانے کی کوشش کررہی ہے۔

اسلام آباد میں برتھ اور ڈیتھ سرٹیفکیٹ بننے بند

ذرائع آئی ایم ایف کے مطابق نئے آئی ایم ایف پیکیج کی قسطیں جاری کرنے کی ٹائم لائن تیار کی جارہی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ آئی پی پیز کے ساتھ کیے گئے معاہدوں سے اقتصادی مشکلات پیدا ہورہی ہیں۔

ٹیکس لگنے کے بعد گھی اور کوکنگ آئل کی قیمتوں میں اضافے کی فہرست

بڑے پیمانے پر ٹیکس لگانے کے بعد اے برانڈ اور بی برانڈ کے آئل اور گھی کی قیمت میں درجہ بندی کے اعتبار سے اضافہ ہوا۔
شائع 12 جولائ 2024 10:02am
فوٹو — فائل
فوٹو — فائل

اسلام آباد: بجٹ 25-2024 میں بڑے پیمانے پر ٹیکس لگانے کے بعد کھانے پکانے کے تیل اور پیٹرول جیسی بنیادی اشیا میں اضافے کے بعد پاکستان کی افراط زر میں غیر معمولی اضافہ ہوگیا ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق کوکنگ آئل میں 30 سے ​​40 روپے فی کلو کا فرق دیکھا گیا جبکہ پاؤڈر دودھ، پیک شدہ دودھ، چائے اور دیگر اشیا کی قیمتوں میں بھی جولائی میں اضافہ دیکھا گیا۔

کوکنگ آئل اور گھی کی تازہ ترین قیمت

رفحان کارن آئل 5 لیٹر 4,900 روپے

اوکے کوکنگ آئل 5 لیٹر 2,025 روپے

ڈالڈا کوکنگ آئل 5 لیٹر 2585 روپے

ڈالڈا سورج مکھی کا تیل 5 لیٹر 2585 روپے

میزان کوکنگ آئل 5 لیٹر 2400 روپے

ڈالڈا کوکنگ آئل 1 لیٹر 525 روپے

ایوا کوکنگ آئل 5 لیٹر 2590 روپے

سیزن کینولا آئل 3 لیٹر 1,351 روپے

ڈالڈا کینولا آئل 5 لیٹر 2585 روپے

صوفی کینولا آئل 5 لیٹر 2600 روپے

حبیب کوکنگ آئل 5 لیٹر 2,445 روپے

صوفی سورج مکھی کا تیل 5 لیٹر 2,650 روپے

فارما اور صحت کی دیکھ بھال کے شعبے بھی معاشی بحران کا شکار

ماہرین توجہ کی کمی اور متضاد پالیسی سازی پر افسوس کر رہے ہیں
شائع 11 جولائ 2024 05:33pm

پاکستان کی معیشت اور اس کے عوام کو صحت کے بحران کا سامنا ہے۔ بھاری قرضوں کے بوجھ تلے دبی اور ٹیکس کے اقدامات سے چھلنی معیشت جس میں کما کر دینے والے شعبوں کو نشانہ بنایا گیا ہے، اس کے حوالے سے پالیسی سازی کو ملک کو اس کے خطرناک راستے سے نکالنے کے لیے انتہائی اہم سمجھا جاتا ہے۔

تاہم، جب صحت کی دیکھ بھال اور دواسازی کے شعبوں کی بات آتی ہے تو ایک ایسا علاقہ جہاں ترقی پذیر قومیں توجہ مرکوز کرتی ہیں کیونکہ وہ پائیدار ترقی کی تلاش میں ہیں، ماہرین توجہ کی کمی اور متضاد پالیسی سازی پر افسوس کرتے ہیں۔

مزید برآں، اسمگلنگ اور جعلی ادویات کے ریکیٹ میں پھنسے ہاتھوں کا مفادات اضافی سر درد کا باعث بنا ہوا ہے۔

تازہ ترین اقتصادی سروے کے مطابق پاکستان میں متوقع عمر 67 سال کے لگ بھگ ہے، جو کہ تقریباً تمام ہم مرتبہ ممالک سے کم ہے۔ جنوبی ایشیا میں اوسط عمر 71.6 سال ہے۔

2023 میں شائع ہونے والی ایک تحقیقی رپورٹ، ”پاکستان میں ہیلتھ کیئر: نیویگیٹنگ چیلنجز اور ایک روشن مستقبل کی تعمیر“ میں کہا گیا ہے کہ ’پاکستان کے ٹھوکریں کھانے والے اور سمجھوتہ کرنے والے صحت کی دیکھ بھال کے نظام‘ کا حل مناسب مالی مدد اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی ہے۔ اس مقالے میں پاکستان میں اہم شعبے کو درپیش دیگر کئی چیلنجز پر بھی بات کی گئی۔

سینئر قیادت کے عہدوں پر فائز رہ چکے دواسازی کی صنعت سے وابستہ ایک سابق ایگزیکٹو ارشد رحیم نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ پاکستان کا ہیلتھ بجٹ دنیا میں سب سے کم ہے۔ جی ڈی پی کا 2 فیصد سے بھی کم یہ بجٹ علاقائی یا ہم مرتبہ ممالک کے مقابلے میں کم ہے۔ بنگلہ دیش اپنی جی ڈی پی کا 5 فیصد صحت کے لیے مختص کرتا ہے۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق صحت کا بجٹ جی ڈی پی کا کم از کم 6 فیصد ہونا چاہیے۔

ارشد رحیم نے اس بات پر زور دیا کہ ملک کے صحت کے شعبے کو صحت مند طرز زندگی کے ساتھ بیماریوں سے بچاؤ اور صحت کے فروغ کے اقدامات کی سخت ضرورت ہے۔

انہوں نے ڈاکٹروں کی طرف سے تجویز کردہ معیاری ادویات کی تقسیم کی اہمیت پر بھی زور دیا، جیسا کہ صحت سہولت کارڈ کے تحت کیا گیا تھا، جس سے مریضوں کو کارڈ کے ذریعے ادویات تک رسائی حاصل تھی۔

انہوں نے اصرار کیا کہ ’یہ دوبارہ شروع ہونا چاہئے‘ ۔

ارشد رحیم کئی اعلیٰ عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں، بشمول وائیتھ پاکستان کے سی ای او کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔ وہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (DRAP) میں پالیسی بورڈ کے رکن کے طور پر بھی خدمات انجام دے چکے ہیں۔

انہوں نے معیاری ادویات کی دستیابی پر زور دیا کیونکہ ناقص کوالٹی کی ادویات مریضوں کو زیادہ مہنگی پڑتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ملک کا مستقبل صحت مند آبادی پر منحصر ہے۔

ارشد رحیم نے معیشت میں خامیوں یا رساؤ کی نشاندہی بھی کی جن کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ بچائے گئے فنڈز کو ان علاقوں کی طرف موڑنے کی ضرورت ہے جو لوگوں کی زندگیوں میں مثبت تبدیلی لا سکیں۔

انہوں نے کہا، ’تاہم، اس کیلئے عملی حل تجویز کیے جانے چاہئیں۔ صحت کے شعبے کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے یہ پیسہ کہاں سے آئے گا؟ حکومت کو خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں پر توجہ دینی چاہیے اور ان کا رخ موڑنا چاہیے‘۔

پاکستان فارماسیوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (پی پی ایم اے) کے سابق چیئرمین توقیر الحق نے بھی حکومت کو صحت کے شعبے پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت پر زور دیا۔

انہوں نے کہا کہ یہ حکومت کا فرض ہے کہ وہ معاشرے کے پسماندہ طبقات کی مدد کرے اور ان کی مدد کرے۔

اوپر مذکورہ تحقیقی مقالے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ زندگی بچانے والی زیادہ تر دوائیں اتنی مہنگی ہیں کہ لوگوں کے لیے برداشت نہیں ہو سکتی۔

مقالے مزید کہا گیا، ’مارکیٹ میں ادویات کی کمی ہمیشہ ہوتی رہتی ہے‘۔

توقیرالحق نے نشاندہی کی کہ اس معاملے میں حکومتی مداخلت کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا، ’حکومت مختلف ضروری چیزوں کے لیے سبسڈی دے رہی ہے۔ غریبوں کے لیے ادویات خریدنے کے لیے بھی سبسڈی ہونی چاہیے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ سرکاری ہسپتالوں کے ذریعے مفت یا کم از کم سبسڈی والی ادویات فراہم کرے‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ حکومت ماضی میں اس طرح کی حمایت کی پیشکش کرتی تھی، لیکن اب اسے تقریباً ختم کر دیا گیا ہے، جس میں بجٹ کی غلطیوں کی مثالیں ہیں۔

صنعت کے عہدیدار نے تجویز پیش کی کہ سرکاری انشورنس پالیسی کے تحت صحت کارڈ پورے ملک میں کام کریں۔

سابق چیئرمین بجٹ سے بھی مایوس ہوئے، خاص طور پر یہ دیکھ کر کہ حکومت نے صحت کے شعبے سے وابستہ مختلف اشیاء پر ٹیکس بڑھا دیا۔

بہت سے ماہرین دواسازی اور صحت کی دیکھ بھال کے شعبوں کی اہمیت کو ٹھوس اور غیر محسوس فوائد کے لیے اہم قرار دیتے ہیں۔ ہنر اور ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ ہنر مند افراد کی منتقلی صنعت کی تمام اہم خصوصیات ہیں۔

تاہم، یہ حکومت کی متضاد پالیسی سازی اور اعلیٰ سطح کی مداخلت ہے جس نے کئی کھلاڑیوں کو پاکستان کی مارکیٹ سے نکلنے پر مجبور کیا ہے۔

مزید برآں، یہ دلیل دی گئی ہے کہ پاکستان کے پاس بین الاقوامی معاہدوں اور تعاون کا فقدان ہے، جس سے اس کی مارکیٹ تک رسائی اور برآمدی صلاحیت محدود ہے۔

بجٹ صحت کی دیکھ بھال کے شعبے کے لیے انتہائی منفی ہے، ماہرین صحت

ٹیکسوں میں اضافے اور تبدیلیوں سے معیاری صحت کی دیکھ بھال تک عوام کی رسائی متاثر ہو جائے گی، ماہرین
شائع 11 جولائ 2024 05:22pm

فارماسیوٹیکل انڈسٹری کے ماہرین نے پاکستان میں ٹیکسوں میں حالیہ تبدیلیوں، خاص طور پر پہلے سے مشکلات کا شکار صحت کی دیکھ بھال کے شعبے پر ٹیکسوں کے اضافے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

ماہرین کا استدلال ہے کہ ٹیکسوں میں اضافے اور تبدیلیوں سے مذکورہ شعبے پر بوجھ پڑے گا اور معیاری صحت کی دیکھ بھال تک عوام کی رسائی متاثر ہو جائے گی۔

پاکستان فارماسیوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے سابق چیئرمین توقیر الحق نے آج نیوز پر نشر ہونے والے ایک پروگرام کے دوران کہا، ’یہ میں نے اپنے 35 سالہ کیرئیر میں سب سے مشکل بجٹ دیکھا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’دواسازی کے نقطہ نظر سے، لوگ جدوجہد کر رہے ہیں کیونکہ علاج پہلے ہی مہنگا ہو رہا ہے۔ صنعت پر کئی ٹیکس لگائے گئے ہیں، اور بالآخر، یہ لوگ ہی ادا کریں گے‘۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ تنخواہ دار طبقے پر ٹیکسوں میں اضافہ اور ایک کروڑ روپے سے زائد تنخواہوں پر ٹیکسوں پر اضافی 10 فیصد سرچارج اس شعبے کو مزید دباؤ میں ڈالے گا۔

توقیر الحق نے کہا، ’پہلے ہی تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس میں اضافہ کیا گیا تھا، لیکن اب، انہوں نے ایک کروڑ روپے سے زائد تنخواہوں پر ٹیکس پر 10 فیصد سرچارج لگا دیا ہے جو فنانس بل کا حصہ بھی نہیں تھا۔‘

انہوں نے تجویز دی کہ حکومت 10 کروڑ روپے سالانہ کمانے والوں کو ٹیکس نیٹ میں لائے۔

ہیلتھ کیئر ڈیوائسز ایسوسی ایشن آف پاکستان (ایچ ڈی اے پی) کے وائس چیئرمین عدنان صدیقی نے صحت کی دیکھ بھال کے نظام میں طبی آلات اور تشخیص کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔

انہوں نے کہا کہ ’اب تمام تشخیصی کٹس پر سیلز ٹیکس عائد کیا گیا ہے‘، اس سے طبی ٹیسٹوں اور تشخیصی کٹس کی قیمت میں تقریباً 20 سے 25 فیصد اضافہ ہوگا۔

توقیر الحق نے یہ بھی نشاندہی کی کہ ٹیکس میں تبدیلیاں برآمدی صنعت کی حوصلہ شکنی کرتی ہیں، جو سرمایہ کاری کے لیے ایک اہم شعبہ تھا۔

انہوں نے کہا کہ آپ (حکومت) نے برآمدی صنعت کی مکمل حوصلہ شکنی کی ہے۔

انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ برآمدات پر نئے ٹیکس سے 300 ملین ڈالر کی ادویات کی برآمدات آدھی رہ جائیں گی۔

ان کا کہنا تھا کہ برآمدات پر مکمل اور حتمی ایک فیصد ٹیکس تھا۔ لیکن اب 29 فیصد انکم ٹیکس اور مزید 10 فیصد سپر ٹیکس بھی لگا دیا گیا ہے۔ کون سرمایہ کاری کرے گا؟

صنعتی ماہرین نے مشورہ دیا کہ حکومت کو موجودہ ٹیکس دہندگان پر ٹیکس بڑھانے کی بجائے ٹیکس نیٹ کو بڑھانے پر توجہ دینی چاہیے۔

انہوں نے خبردار کیا کہ موجودہ طریقہ کار ایک بڑی غیر دستاویزی معیشت اور اسمگلنگ کا باعث بن سکتا ہے۔

تاہم، توقیر الحق نے تسلیم کیا کہ غیر ضروری ادویات کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے سے ادویات کی رسائی میں بہتری آئی ہے اور مارکیٹ میں جعلی ادویات کم ہوئی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ڈی ریگولیشن، بہتر حجم اور کاروبار کے بعد صنعت برآمدات کی طرف بڑھنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ’لیکن برآمدات پر نئے ٹیکس صنعت کے لیے ایک دھچکا ہیں۔‘

پاکستان کے مالی سال 25-2024 کے لیے حال ہی میں طے شدہ بجٹ کو معیشت کے تقریباً تمام شعبوں کی طرف سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے کیونکہ اسلام آباد اپنے بڑھتے ہوئے اخراجات کو زیادہ ٹیکس لگا کر متوازن کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

بہت سے تجزیہ کاروں اور ماہرین نے اسے ایک ایسا بجٹ قرار دیا ہے جو صرف نقدی پر مبنی لین دین کی حوصلہ افزائی کرے گا اور معیشت سست روی کا شکار ہوگی، جو پہلے ہی جنوبی ایشیا میں سب سے سست رفتار سے بڑھ رہی ہے۔

وفاقی حکومت نے فیڈرل ملازمین کی تنخواہوں میں کتنا اضافہ کیا ہے؟ نوٹیفکیشن جاری

تنخواہوں میں اضافہ کا اطلاق یکم جولائی سے کردیا گیا ہے
شائع 10 جولائ 2024 07:02pm

وفاقی حکومت نے فیڈرل ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کر دیا ہے جس کا نوٹیفکیشن جاری ہو گیا ہے ۔

نوٹیفیکیشن کے مطابق گریڈ ایک سے 16 تک ملازمین کی بنیادی تنخواہ میں 25 فیصد اضافہ کیا گیا ہے ۔

گریڈ17 سے 22 تک کے ملازمین کی تنخواہوں میں 20 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ جبکہ ریٹائرڈ ملازمین کی پنش میں 15 فیصد اضافہ ہوا ہے ۔

نوٹیفکیشن ج کے مطابق تنخواہوں میں اضافہ کا اطلاق یکم جولائی سےکردیا گیا ہے۔

ڈیپارٹمنس ختم ہوں گے لیکن بجٹ تو وہی رہے گا، عمر ایوب

یہ دہشت گرد بجٹ ہے، یہ پاکستانی عوام پر ڈرون حملہ ہوا ہے، پی ٹی آئی رہنما
شائع 10 جولائ 2024 03:13pm

پاکستان تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل عمر ایوب نے کہا ہے کہ ڈیپارٹمنس ختم ہوں گے لیکن بجٹ تو وہی رہے گا، آئی ایم ایف کا دباؤ ہے، یہ دہشت گرد بجٹ ہے، یہ پاکستانی عوام پر ڈرون حملہ ہوا ہے۔

خزانہ کمیٹی اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے کہا کہ یہ ترمیمی بل اتنی عجلت میں کیوں لایا گیا، 7 ترامیم لارہے ہیں ہمیں میٹنگ سے پہلے مسودہ بھی نہیں دیا گیا، آج فائنانس کمیٹی اجلاس میں تین وفاقی وزراء آگئے، یہ وزراء اپنی کسی ایک قائمہ کمیٹی میں آجائیں تو بڑی بات ہوتی ہیں۔

عمر ایوب نے کہا کہ میں نے پوچھا کن پٹی پر پستول 30 بور کا تھا یا 9 ایم ایم کا، یہ آئی ایم ایف کا دباؤ ہے اور کیا ہے، یہ دہشت گرد بجٹ ہے، یہ پاکستانی عوام پر ڈرون ہوا، یہ بجٹ پاکستانی عوام پر دہشت گردی کا حملہ ہوا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ بورڈ آف ڈائریکٹرز سے ربر اسٹیمپ لگوائیں گے، مرضی کے فیصلے کرائیں گے، وزارتیں ختم کرنے سے کیا ہوگا کیا کوئی نفری میں تبدیلی آئے گی، ڈیپارٹمنس ختم ہوں گے لیکن بجٹ تو وہی رہے گا۔

بجٹ اجلاس میں اپوزیشن کی تمام کٹوتی تحاریک ناکام ہوئیں، قانون سازی کا طریقہ کار معطل کرکے 5 سرکاری بل منظور کیے گئے، فافن

بجٹ بحث میں کس جماعت نے کتنا حصہ ڈالا؟ فارفن کی رپورٹ جاری
شائع 09 جولائ 2024 04:42pm

فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) نے بجٹ پر قومی اسمبلی میں بحث سے متعلق رپورٹ جاری کردی ہے۔

رپورٹ کے مطابق بجٹ اجلاس میں 179 قانون سازوں نے تجاویز پر بحث میں حصہ لیا جبکہ اپوزیشن کے قانون سازوں نے بحث کیلئے 52 فیصد حصہ لیا۔

فافن کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ بجٹ پیش کرنے اور ایوان سے منظوری سمیت تقریباً 48 گھنٹے کارروائی ہوئی، جس می ں پیپلز پارٹی کے 40، ن لیگ کے 37 اور متحدہ قومی موومنٹ کے 18 ارکان نے بجٹ پر بحث کی، جبکہ 5، 5 جے یو آئی اور آزاد ارکان نے بھی بجٹ بحث میں حصہ لیا۔

200 یونٹ والے بجلی صارفین کو اگلے 3 ماہ کیلئے رعایت دے رہے ہیں، وزیراعظم

رپورٹ کے مطابق قانون سازون نے تقریروں میں بجٹ تجاویز پر تنقیدی خیالات کا اظہار کیا، تنقید حکومتی اور اپوزیشن بینچوں دونوں اطراف سے کی گئی۔

اس کے علاوہ وزیر خزانہ کی بجٹ تقریر کل بجٹ کی کارروائی کے دو فیصد پر محیط تھی جبکہ اپوزیشن کے قانون سازوں نے 422 کٹوتی تحریکیں پیش کیں اور اپوزیشن کی تمام کٹوتی کی تحریکیں ناکام ہوگئیں۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ اضافی گرانٹس 23-2022 اور 24-2023 بغیر کسی بحث کی منظوری کی گئیں، ایوان نے مقررہ قانون سازی کا طریقہ کار معطل کرکے پانچ سرکاری بل منظور کیے جبکہ بجٹ سیشن میں تین قراردادیں بھی منظور کی گئیں۔

حکومت نے 200 یونٹ والے صارفین کیلئے بجلی کی قیمت بڑھانے کا فیصلہ واپس لے لیا

رپورٹ میں کہا گیا کہ موجودہ مالی سال کیلئے 103 مطالبات زر بغیر کسی کٹوتی تحریک کے منظور کرلئے گئے، وزیراعظم اور وزرا نے بجٹ اجلاس میں کم از کم نو یقین دہانیاں کروائیں۔

’کھلے دودھ کی قیمت 300 روپے فی کلو پر پہنچ سکتی ہے‘

لاہور : ڈیری اور کیٹل فارمز ایسوسی ایشن نے جانوروں کی فیڈ اور خام مال پر لگنے والے ٹیکسز کو مسترد کردیا
شائع 08 جولائ 2024 09:21pm
فوٹو۔۔۔فائل
فوٹو۔۔۔فائل

لاہور : ڈیری اور کیٹل فارمز ایسوسی ایشن نے جانوروں کی فیڈ اور خام مال پر لگنے والے ٹیکسز کو مسترد کردیا ہے۔ عہدیداران کا کہنا ہے جانوروں کی خوراک پر ٹیکس سے ڈیری اور پولٹری انڈسٹری متاثر ہورہی ہے، ٹیکسز سے ’کھلے دودھ کی قیمت 300 فی کلو پر پہنچ سکتی ہے‘۔

پریس کلب لاہور میں ڈیری اینڈ کیٹل فارمز ایسوسی ایشن کے عہدیداران نے پریس کانفرنس میں جانوروں کی خوراک اور خام مال پر لگائے گئے حالیہ ٹیکسز کے خلاف آواز بلند کی۔

ماہانہ پنشن ختم کردی گئی، نیا نظام نافذ

عہدیداران نے کہا کہ ٹیکسز سے دودھ، گوشت، مرغی اور انڈے کی پیداواری لاگت میں اضافہ ہوگا، جس کا بوجھ صارف پر پڑے گا، جو عام شہری برداشت نہیں کرسکیں گے۔

پیٹرول پمپس مالکان کے بعد فلور ملز کا بھی سپلائی بند کرنے کا اعلان

ڈیری اینڈ کیٹل ایسوسی ایشن کا کہنا تھا کہ حکومت عوام کو میسر سستی پروٹین سورس کو متاثر نہ کرے کیونکہ اس سے بچے مزید غذائی قلت کا شکار ہو جائیں گے، دودھ کی قیمت کا تعین طلب اور رسد کے مطابق ہی کیا جائے۔

نیٹ فلکس سبسکرپشن فیس پر نیا ٹیکس بینک وصول کرے گا

بینک اب نیٹ فلکس پر اضافی ٹیکس وصول کرنے کے لیے ودہولڈنگ ایجنٹ کے طور پر کام کریں گے
اپ ڈیٹ 09 جولائ 2024 09:08am

گزشتہ برس بینکوں کو اشتہاری خدمات پر صوبائی سیلز ٹیکس کا 13 فیصد کٹوتی کرنے پر مجبور کرنے کے بعد سندھ ریونیو بورڈ (ایس آر بی) نے اب نیٹ فلکس پر اضافی ٹیکس عائد کردیا ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق بینک اب پاکستان میں ویڈیو آن ڈیمانڈ اسٹریمنگ سروس پر نیا ٹیکس لگا رہے ہیں۔

نیٹ فلکس کے صارفین کو اب ڈیبٹ کارڈ کے ساتھ سبسکرپشن فیس ادا کرنے پر آئی ٹی سروسز پر 3 فیصد سیلز ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔

مزید برآں، بین الاقوامی ٹرانزیکشنز (فائلرز) پر 5 فیصد ایڈوانس ٹیکس، اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کے علاوہ کارڈ ٹرانزیکشن چارجز 4 فیصد مقرر کیے گئے ہیں۔

ایف بی آر نے نیٹ فلکس کو کروڑوں روپے انکم ٹیکس دینے کا نوٹس بھیج دیا

نان فائلرز کے لیے بین الاقوامی لین دین پر ایڈوانس ٹیکس مختلف ہے۔ غیر اے ٹی ایل افراد پر ایڈوانس ٹیکس 10 فیصد ہوگا۔ بینک اب نیٹ فلکس پر اضافی ٹیکس وصول کرنے کے لیے ایس آر بی کی جانب سے ودہولڈنگ ایجنٹ کے طور پر کام کر رہے ہیں۔

قیمتوں کا تعین (بغیر ٹیکس)

موبائل: 250 روپے ماہانہ بیسک: روپے 450 روپے ماہانہ اسٹینڈرڈ: 800 روپے ماہانہ پریمیم: 1,100 روپے ماہانہ

نیٹ فلکس نے اپنی ویب سائٹ پر واضح کیا گیا کہ صارف کہاں رہتا ہے اس پر منحصر ہے کہ ان سے سبسکرپشن کی قیمت کے علاوہ ٹیکس بھی وصول کیا جائے۔

گزشتہ ہفتے کی رپورٹ کے مطابق نئے فنانس بل 2024 کے تحت اب ٹیک کمپنیوں کو ٹیکس کے دائرے میں شامل کیا گیا جو پاکستان میں ڈیجیٹل ذرائع/موجودگی سے آمدنی کماتی ہیں۔ اس طرح نیٹ فلکس پاکستان میں موجود ہے اس لیے ٹیکس ادا کرنے کا پابند ہے۔

تاجروں کی سفارشات اور صنعت کار کے تحفظات کو ضرور دیکھیں گے، وفاقی وزیرخزانہ

آئی ایم ایف سے پیچھا چھڑانا ہے تو ایکسپورٹ کو لیڈ کرنا پڑے گا، براہ راست بیرونی سرمایہ کاری لانا ہوگی، محمد اورنگزیب
اپ ڈیٹ 06 جولائ 2024 10:22pm
فوٹو۔۔۔فائل
فوٹو۔۔۔فائل

وفاقی وزیرخزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ مشکل فیصلوں کی وجہ سے انڈسٹری مشکل میں ہے تاہم بجٹ کے حوالے سے تاجروں کی سفارشات کو دیکھیں گے۔ آئی ایم ایف سے پیچھا چھڑانا ہے تو ایکسپورٹ کو لیڈ کرنا پڑے گا، براہ راست بیرونی سرمایہ کاری لانا ہوگی۔

لاہور میں ایف پی سی سی آئی آفس میں بزنس کمیونٹی سے خطاب میں محمد اورنگزیب نے کہا کہ بجٹ کو وسیع النظری میں دیکھنے کی ضرورت ہے، تاجروں کے ساتھ صنعت کار کے تحفظات کو ضرور دیکھیں گے۔ آئی ٹی کو آگے بڑھانا ہے اور اس ملک میں اسمال میڈم بزنس کو آگے بڑھانا چاہیے۔ انڈسٹری کو کیسے آگے چلانا ہے، اسی مالی سال میں آپ کو بہتری نظر آئے گی۔

پیٹرول پمپس مالکان کے بعد فلور ملز کا بھی سپلائی بند کرنے کا اعلان

انھوں نے کہا کہ چھوٹے تاجر پر ٹیکس کا اطلاق ہوگا، یہ پہلے ہوا نہیں اس لیے آپ سب اعتراض کر رہے، نان فائلر کا ٹیکس اتھارٹی کے پاس تمام ڈیٹا موجود ہے، ایف بی آر کو ٹھیک کرنا پڑے گا۔ ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو کو اگلے دو تین سال میں 13 فیصد پر لے کر جانا ہے، ٹیکس لگانا ہوگا کیونکہ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے، انفورسمنٹ ہوگی تو اضافی ٹیکس اکٹھا ہو گا۔

بھاری ٹیکسوں، بجلی نرخوں نے کراچی میں بڑی ٹیکسٹائل فیکٹری بند کرادی

ان کا کہنا تھا کہ اضافی وزارتیں بند کردینی چاہیے، کسی کو اسپیڈ منی نہ دیں، کسی ایف بی آر سے رابطہ نہ کریں اور اصلاحات کو آسان کرنا ہوگا جو ہم کر رہے ہیں، ہم اصلاحات کرکے بہتری لائیں گے۔ جب کہ پنشن ایک بہت بڑا بوجھ ہے، اخراجات میں کمی ناکارہ محکمے بند کرنے سے ہوگی۔ وفاقی کابینہ کی تنخواہیں نہ لینے سے خزانے پر کوئی بڑا فرق نہیں پڑا۔

وزیرخزانہ نے کہا کہ سول بیوروکریسی میں یکم جولائی کے بعد مسلح افواج کی پنشنز کے حوالے سے ایک سال آگے کیا ہے کیونکہ ان کا سروس اسٹرکچر مختلف ہے۔ بیوروکریسی اور حکمرانوں کی مراعت کم نہیں کی جا رہیں۔

حکومت نے عوام پر پھر بجلی گرادی، فی یونٹ نرخ بڑھا دیے

ان کا کہنا تھا کہ آئی پی پیز کو دیکھ رہے ہیں، اس پر ضرور کام کرنا ہو گا۔ عمران خان کی حکومت میں آئی پی پی پر تھوڑا سا کام ہوا تھا، ہم بھی چاہتے ہیں اس مسئلے کو حل کیا جائے۔

محمد اورنگزیب نے کہا کہ ہمیں ایف بی آر کے ادارے کو ٹھیک کرنا ہوگا، ایف بی آر اینڈ ٹو اینڈ ڈیجیٹائزیشن پر کام تیزی سے جاری ہے، جب تک صعنت کار ایف بی آر کو انٹر ٹین کرنا بند نہیں کرتے وہ تو آتے رہیں گے۔

وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ پالیسی ریٹ کو اس سال کم کیا جائے گا، پالیسی ریٹ اسٹیٹ بینک کا کام ہے، اس پر محتاط بات کرتا ہوں لیکن میرا اندازہ ہے کہ پالیسی ریٹ میں کمی کے لیے گنجائش موجود ہے یقیناً اسے کم کیا جانا چاہیے۔

ملٹری آفیشلز اور بیورو کریٹس کو ٹیکس سے استثنیٰ دینے کیخلاف درخواست سماعت کیلئے مقرر

لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس عابد عزیز شیخ 8 جولائی کو درخواست پر سماعت کریں گے
شائع 06 جولائ 2024 07:35pm
فوٹو۔۔۔فائل
فوٹو۔۔۔فائل

لاہور ہائیکورٹ نے ملٹری آفیشلز اور بیورو کریٹس کو ٹیکس سے استثنیٰ دینے کیخلاف درخواست سماعت کےلیے مقرر کرلی ہے۔

جسٹس عابد عزیز شیخ 8 جولائی کو درخواست پر سماعت کریں گے، درخواست شہری مشکور حسین نے ندیم سرورایڈووکیٹ کی وساطت سے دائر کی ہے۔

درخواست میں وفاقی حکومت اور ایف بی آر کو فریق بنایا گیا ہے۔ اور استدعا کی گئی ہے کہ انکم ٹیکس آرڈیننس کے سیکشن 236 سی کی بذریعہ فنانس ایکٹ ترمیم غیرقانونی قرار دی جائے۔

بیوروکریٹس اور ملٹری آفیشلز کو پراپرٹی بیچنے پر ٹیکس سے استثنیٰ دینے کا اقدام چیلنج

شہری کی جانب سے یہ استدعا بھی کی گئی کہ درخواست کے حتمی فیصلے تک سیکشن 236 سی پرعملدرآمد روکا جائے۔

آئی ایم ایف سے پروگرام جلد طے ہو جائیگا، نان فائلر کی اصطلاح ختم کرینگے، وزیر خزانہ کا تنخواہ دار طبقے پر بوجھ بڑھنے کا اعتراف

بھاری ٹیکسوں، بجلی نرخوں نے کراچی میں بڑی ٹیکسٹائل فیکٹری بند کرادی

کارکن کہیں اور ملازمت تلاش کریں، کمپنی کو بھاری نقصان کا سامنا ہے، ٹیکسٹائل
شائع 05 جولائ 2024 07:49pm
فوٹو۔۔۔فائل
فوٹو۔۔۔فائل

وفاقی بجٹ میں عائد بھاری ٹیکسوں اور بجلی نرخوں میں اضافے کے پیش نظر کراچی میں قائم ٹیکسٹائل یونٹ نے اپنے دروازے ورکرز کیلئے بند کردیے، جس سے ملک کی برآمدی صنعت میں ممکنہ طور پر بڑے پیمانے پر گراوٹ کا اشارہ ملتا ہے۔

واضح رہے کہ بزنس ریکارڈر کی رپورٹ کے مطابق یکم جولائی، 2024 کو جاری ایک ہینڈ آؤٹ میں ناز ٹیکسٹائل (پرائیویٹ) لمیٹڈ نے اپنے کارکنوں کو مطلع کیا کہ وہ کہیں اور ملازمت تلاش کریں کیونکہ کمپنی کو آرڈر کی کمی کی وجہ سے بھاری نقصان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

کمپنی ہینڈ آؤٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ 31 جولائی تک آپ کا آخری دن ہوگا اور آپ کے تمام واجبات 10 اگست تک ادا کردیئے جائیں گے۔

ملک بھر میں پیٹرولیم مصنوعات کی فروخت 18 سال کی کم ترین سطح پر آگئی

اس حوالے سے آل ایکسپورٹ ایسوسی ایشنز آف پاکستان کے چیف کوآرڈینیٹر محمد جاوید بلوانی نے فیکٹری کی بندش کی تصدیق کرتے ہوئے بزنس ریکارڈر کو بتایا کہ بھاری ٹیکس، ایندھن، بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافے کی وجہ سے صنعتی پیداوار میں کمی واقع ہوئی ہے۔

پیٹرولیم ڈیلرز کا ہڑتال موخر کرنے کا اعلان، مطالبات پر قائم ہیں، چیئرمین پاکستان پیٹرولیم ڈیلرز

محمد جاوید بلوانی نے خدشہ ظاہر کیا کہ زیادہ سے زیادہ صنعتی یونٹس ملک میں معاشی افراتفری کا شکار ہونے جا رہے ہیں، جبکہ اگلے چھ ماہ میں برآمدات میں ممکنہ کمی نظر آرہی ہے، کیونکہ متعدد صنعتیں اپنے پری بجٹ ایکسپورٹ آرڈرز مکمل کرنے کے بعد اپنا کام بند کرنے جا رہی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ موجودہ معاشی حالات میں عام لوگوں کے ساتھ برآمد کنندگان اور دیگر کاروباری حضرات بھی مطمئن نہیں ہیں۔

عورت فاؤنڈیشن کا وفاقی بجٹ میں عائد ٹیکسوں کو واپس لینے اور خواتین کو خصوصی چھوٹ دینے کا مطالبہ

دودھ، بچوں کی خوراک، اسکولوں اور تعلیم کیلئے ضروری اشیاء کو ٹیکس سے مکمل استثنیٰ دیا جائے، تنقیدی جائزہ کی رپورٹ میں مطالبہ
شائع 03 جولائ 2024 05:36pm
فوٹو۔۔۔میٹا اے آئی
فوٹو۔۔۔میٹا اے آئی

عورت فاؤنڈیشن نے وفاقی بجٹ میں عائد ٹیکسوں کو واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔عورت فاؤنڈیشن نے وفاقی بجٹ برائے سال 25-2024 پر اپنی تنقیدی جائزہ کی رپورٹ جاری کی ہے۔ یہ جائزہ رپورٹ پاکستان کے معروف ماہر اقتصادیات ڈاکٹر قیصر بنگالی نے عورت فاؤنڈیشن کے لیے تحریر کی ہے۔

عورت فاؤنڈیشن کی رپورٹ میں فوری سفارشات کے مطابق بجٹ 25-2024 میں لگائے گئے تمام تنزل پسندانہ ٹیکسوں کا نفاذ فوری طور پر ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ انکم ٹیکس استثنیٰ کی حد 100،000 روپے ماہانہ یا 12 لاکھ روپے سالانہ سے شروع کی جائے۔

رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ عورتوں پر غربت کے بڑھتے ہوئے منفی رجحانات کے پیش نظر انہیں خصوصی ٹیکس چھوٹ دی جانی چاہیے۔ خاص طور پر بیوہ، طلاق یافتہ، اورغیر شادی شدہ خواتین کو۔ تمام ضروری اشیاء خوردونوش بشمول دودھ، بچوں کی خوراک، بیکری کی مصنوعات، اسکولوں اور تعلیم کے لیے ضروری اشیاء کو ٹیکس سے مکمل طور پر استثنیٰ دیا جائے۔

رپورٹ میں ادارہ جاتی سفارشات بھی کی گئی ہیں جن کے مطابق پاکستان میں اقتصادی بحران کی بنیادی طور پر دو وجوہات ہیں۔ جن میں روپے کا خسارہ اور ڈالر کا خسارہ شامل ہیں۔ دوسرے الفاظ میں انہیں بجٹ خسارہ اور تجارتی خسارہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ اس بحران نے ایسی صورتحال پیدا کردی ہے جہاں اخراجات آمدنی سے دو گنا زیادہ اور درآمدات برآمدات سے دوگنا زیادہ ہیں۔ اور یہ دو طرح کے سو فیصد سے زائد خسارے گذشتہ دو دہائیوں سے قرضوں کی مدد سے پورے کیے جارہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ قومی معیشت اب صرف قرضوں کی ادائیگی تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔ ہماری معیشت بجائے اس کے کہ اپنی پیداواری بنیاد کو مستحکم کرتی یہ برسوں سے نہیں، دہائیوں سے مالیاتی بد انتظامی اور قرضہ معیشت کے ذریعے پرتعیش اخراجات کی صورتحال سے دوچار ہے۔ یہ واضح طور پر ناپائیدار صورتحال ہے، لہذا یہ بات حیران کن نہیں کہ قومی معیشت شدید جھٹکوں کی زد میں ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس صورتحال کا حل سادہ اور واضح ہے۔ ہمیں اخراجات میں اس حد تک کمی لانی ہوگی جتنی ہماری آمدنی برداشت کرتی ہے، اور درآمدات کو بھی اتنا کم کرنا ہوگا جتنی برآمدات اور بیرونی ترسیلات زر برداشت کرتی ہیں، ایسا کرنا اس لیے لازم ہے کہ قرضوں کی ادائیگی، مالیاتی خساروں سے پیدا ہونے والے تناسب کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔ اگر اخراجات آمدنی سے مستقل بڑھتے رہے تو، خسارے بھی بڑھتے رہیں گے، اضافی خساروں کے نتیجے میں ہمارا قرض بھی بڑھتا رہے گا۔ چناچہ اضافی قرضہ جات کی پیداوار کو فی الفور روکنے کی ضرورت ہے۔

اس رپورٹ میں پیش کی گئی تجاویز مختلف پیشہ ورانہ حلقوں اور اداروں میں زیر بحث رہی ہیں۔ ان تجاویز کو تکنیکی اور اقتصادی جائزہ کے مرحلے سے ایک بار پھر گزارنا لازمی ہے۔ تاہم کچھ تجاویز پرعمل ناگزیر ہے۔ بعض تجاویز مختصرا یہاں پیش کی جارہی ہیں۔ سول انتظامیہ کے اخراجات میں کمی کرنے کی ضرورت ہے۔ ان میں توانائی کی رعایتیں، دفائی رعایتیں، سول انتظامیہ کو دی جانے والی رعایتیں شامل ہیں۔

• توانائی کے شعبے میں دی گئی رعایتوں کا سب سے ظالمانہ پہلو یہ ہے کہ یہ ماضی میں کیے گئے معاہدوں کے نتیجے میں پیدا ہوئی ہیں، اوران معاہدوں میں توانائی کی اصل خریداری کی بجائے، بجلی کی پیداواری صلاحیت کی بنیاد پر پہلے سے متعین کردہ قیمت کی ادائیگی کو لازمی قرار دیا گیا تھا۔ ان معاہدوں پر نظر ثانی، ان میں ترامیم یا منسوخی کی ضرورت ہے۔ اگر اس کے نتیجے میں ہمیں یک وقتی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے، تو ہمیں اس بحران سے نکلنے کے لیے اس کو ادا کردینا چاہیے۔

رپورٹ کے مطابق ایک دوسرا حل duty/equity swap ہے یعنی قرض دار کمپنی کا قرض نہ ادا ہونے کی صورت میں قرض دہندہ انہی قرضوں کی مالیت حصص خرید لے گا اور کمپنی میں حصہ داربن جائے گا: اس کے معنی قرض کو حصص یا حصص کی ملکیت میں منتقل کرنا ہے۔ تاہم، یہ تجویز صرف پاکستانی سرمایہ کاروں پر لاگو ہونی چاہیے اور غیر ملکی سرمایہ کاری پر اس کا اطلاق نہٰں ہونا چاہیے تاکہ ہم مستقبل میں زر مبادلہ کے خساروں سے چھٹکارا حاصل کر سکیں اور بیرونی ترسیلات زر کے فوائد سے محروم نہ ہوں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دفاعی اخراجات ایک حساس معاملہ کیونکہ ان کا تعلق ملک کی سلامتی سے ہے۔ اس کے باوجود جن اخراجات کا تعلق غیر محارب دفائی اخراجات سے ہے ان پر کٹوتی لگنی چاہیے۔ ہمین یقین ہے کی عسکری قیادت ان ضروری اقدامات پر عمل پیرا ہو سکتی ہے۔ سول انتظامیہ میں اخراجات کی کمی فی الوقت زیر غور ہے۔ اٹھارویں ترمیم نے تقریبا چالیس محکمے صوبوں کو منتقل کیے تھے، جس سے ایسے اقدامانت کا راستہ کھل گیا ہے کہ وفاق میں کچھ وزارتوں، ڈویژنوں، اور بڑی تعداد میں ( خود مختار اور نیم خودمختار) اداروں کو بند کیا جا سکتا ہے۔ یہ اقدام ایک عرصے سے حل طلب ہے اور اب اس پر عمل کر ہی لینا چاہیے۔

ڈالر اور روپے کا خسارہ: پیٹرولیم مصنوعات ( پیٹرولیم، تیل، چکنے مواد) کی درآمدات، ہماری کل درآمدی تخمینہ کا تقریبا ایک چوتھائی حصہ ہیں۔ ان میں سے فرنیس آئل (بھٹی کا تیل) اور ڈیزل پیٹرولیم ان درآمدات کا دوتہائی حصہ بنتے ہیں۔ اعلیٰ نوعیت کے فرنیس آئل درآمدات کی طلب بجلی کی پیداوار کے لیے مزید بڑھ جاتی ہے۔ اس مقدار کو نیچے لایا جا رہا ہے۔ لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کو بالکل صفر کر دیا جائے۔

• ہماری دور دراز فاصلوں تک اشیاء کی ترسیل کا 95 فیصد انحصارروڈ ٹراسپورٹ پر ہے، اور سڑک کے ذریعے آمدورفت میں ڈیزل کا استعمال سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ تکنیکی طور پر روڈ ٹرانسپورٹ میں ریل ٹرانسپورٹ کے مقابلے میں فی کلومیٹرتیل ایک تہائی زیادہ استعمال ہوتا ہے۔ چناچہ ریلوے کی بحالی، اور دور دراز کے فاصلوں تک اشیاء کی ترسیل سڑک کے بجائے ریل کے ذریعے ہونی چاہیے تاکہ ڈیزل کم استعمال ہو اور اس کے نتیجے میں اس کی درآمدات اورزر مبادلہ پر بوجھ میں بھی کمی آئے۔ ان اتنہائی اقدامات کے لیے، کسی نئے جائزے کا سوال غیر متعلق سا لگتا ہے۔غربت سے مارا، قرض کے نیچے دبا خاندان، جس کی آمدنی محدود ہے، اس کے پاس سوائے اس کے کوئی چارا باقی نہیں رہا کہ وہ دن میں تین کھانوں کی بجائے دو وقت کھانا کھائیں، وہ بھی اگر اس کی آمدنی اس کی اجازت دیتی ہو۔ غریب اور اب نچلا متوسط طبقہ بھی اب دو وقت روٹی کھانے پر مجبور ہیں۔ ریاست پاکستان اور اشرافیہ کو بھی لہذا اب دو وقت کے کھانے پر اکتفا کرنا چاہیے۔

بیوروکریٹس اور ملٹری آفیشلز کو پراپرٹی بیچنے پر ٹیکس سے استثنیٰ دینے کا اقدام چیلنج

آئین کے تحت سب شہری برابر ہے، ٹیکس سے استثنی آئین کے آرٹیکل 2 کیخلاف ہے، درخواست
اپ ڈیٹ 03 جولائ 2024 12:17pm

وفاقی بجٹ میں بیوروکریٹس اور ملٹری آفیشلز کو پراپرٹی بیچنے پر ٹیکس سے استثنیٰ دینے کا اقدام لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کر دیا گیا۔

لاہور ہائیکورٹ میں درخواست شہری مشکور حسین نے ندیم سرور ایڈووکیٹ کی وساطت سے دائر کی، درخواست میں وفاقی حکومت اور وفاقی بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو فریق بنایا گیا ہے۔

درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ وفاقی حکومت نے بجٹ میں بیورو کریسی اور ملٹری آفیشلز کو بڑا ریلیف دیا ہے، بیورو کریٹس اور ملٹری آفیشلز کو پراپرٹی بیچنے پر انکم ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دے دیا ہے۔

درخواست میں مزید کہا گیا کہ آئین کے تحت سب شہری برابر ہے، ٹیکس سے استثنی آئین کے آرٹیکل 2 کے خلاف ہے۔

درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی کہ انکم ٹیکس آرڈیننس کے سیکشن 236 سی کو بذریعہ فنانس ایکٹ ترمیم غیر قانونی قرار دیا جائے، درخواست کے حتمی فیصلے تک سیکشن 236 سی پر عملدرآمد روکا جائے۔

مقدس گائیں کیلئے بڑے قصائی کی ضرورت ہے، بجٹ غلطیوں کے مرتکب محمد اورنگزیب نہیں، مفتاح اسماعیل

مجھے نہیں لگتا کہ یہ بجٹ پورا سال برقرار رہے گا، مفتاح اسماعیل
اپ ڈیٹ 03 جولائ 2024 08:22am
After budget 2024, inflation is out of control again!| Spot Light | Aaj News

سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا پاکستان مسلم لیگ (ن) چھوڑ کر اپنی نئی سیاسی جماعت لانچ کرنے پر کہنا ہے کہ میں نے سیاست چھوڑی نہیں تھے، میں سیاست سے پیچھے ہٹا تھا۔

مفتاح اسماعیل نے آج نیوز کے پروگرام ”اسپاٹ لائٹ“ میں خصوصی شرکت کے دوران اپنی نئی سیاسی جماعت اور موجودہ ملکی معاشی صورت حال پر گفتگو کی۔

انہوں نے کہا کہ انتخابات سے قبل شاہد خاقان عباسی، میں اور دیگر ”ری امیجننگ پاکستان“ کر رہے تھے، ہماری کوشش تھی کہ اس وقت جو سیاسی جمود تھا اس میں کچھ بہتری آئے، ہم بار بار کہتے رہے کہ تمام سیاسی لیڈرز اور اسٹیک ہولڈرز کو ایک ساتھ بیٹھ کر راستہ نکالنا چاہئیے ورنہ الیکشن بھی بے مقصد ہوجائیں گے، لیکن یہ بات نہیں سنی گئی اور پھر آپ نے دیکھا کہ الیکشنز کیا ہوئے اور اس کا نتیجہ کیا نکلا۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں نہیں ؛گتا کہ اس وقت کوئی سیاسی جماعت ایسی ہے جو پاور پالیٹکس کے علاوہ اصولی بنیادوں پر سیاست کر رہی ہے، ہم نے اس بجٹ میں دیکھ الیا کہ عوام کی کسی کو فکر نہیں ہے تو ہم نے اب آپنی آواز کھڑی کی ہے۔

ایک سوال کے جواب میں مفتاح اسماعیل نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں اگر آپ کے پاس پارلیمان میں اکثریت نہیں تو آپ کو وزیراعظم نہیں بننا چاہئیے۔ غیر جمہوری طریقے سے کسی وزیراعظم کو ہتانا مناسب نہیں لیکن جمہوری طریقے سے وزیراعظم کو ہٹانے میں کوئی بری بات نہیں۔

نئی پارٹی میں مصطفیٰ نواز کھوکھر اب ساتھ کیوں نہیں؟ اس سوال کے جواب میں مفتاح اسماعیل نے بتایا کہ مصطفیٰ نواز کا کہنا تھا کہ الیکشن سے پہلے پارٹی بنائیں، اس وقت شاہد خاقان نہیں سمجھ رہے تھے کہ پارٹی کا کوئی چانس ہے کیونکہ ہم نے حلقوں میں دیکھا تھا کہ عمران خان کے علاوہ کوئی اور بات نہیں کر رہا تھا، اب مصطفیٰ نواز کا خیال ہے کہ سیاست میں اسپیس تو بہت ہے لیکن وقت ٹھیک نہیں ہے ،کیونکہ سیاست میں بہت سی چیزیں ہو رہی ہیں، اداروں کا آپس میں ٹکراؤ ہے، جبکہ میرا اور شاہد خاقان کا خیال ہے کہ اسی وقت ہمیں اپنی آواز بلند کرنی چاہئیے۔

انہوں نے کہا کہ ’مصطفیٰ اور ہمارا ٹائمنگ کے اوپر تھوڑا سا فرق ہے، باقہ وہ ہمارے سے دور نہیں ہے۔‘

آپ کی پارٹی ”عوام پاکستان“ کا ویژن کیا ہوگا؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے مفتاح اسماعیل نے کہا کہ 1990 کی دہائی میں پاکستان جنوبی ایشیا کا سب سے امیر ملک تھا، آج سب ہم سے آگے نکل گئے ہیں، سوائے افغانستان کے ہم سب سے پیچھے رہ گئے ہیں، ہمیں سمجھنا چاہئیے کہ ہم کچھ نہ کچھ غلط کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہماری سیاست ٹھیک نہیں ہے، مسلح افواج اور عدالت کا سیاست میں بہت عمل دخل ہے، ہماری ملک کی معیشت بہت زیادہ اشرافیہ کے قبضے میں ہے، یہ صرف کہنے کی بات نہیں ہے، بجٹ، قوانین اور آئینی ترامیم دیکھ لیں کہ ہم جاگیرداروں اور امیر ترین لوگوں کو تحفظ دیتے ہیں اور ٹیکس غریبوں پر لگاتے ہیں، تعلیم کا نظام ناقص ترین ہے، حکومتی خدمات اور ادارے ٹھیک نہیں ہیں، ہم جب یہ چیزیں دیکھتے ہیں تو سمجھ آتی ہے کہ اس نظام کو بدلنا ہوگا، ہمیں اشرافیہ سے اس نظام ہو ہٹکا کر غریبوں کو تحفظ دینا ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں تمام پاکستانیوں چاہے وہ مرد ہو یا عورت یا ملک کے کسی بھی حصے سے ہو اسے بلا تفریق آگے بڑھنے کا موقع دینا ہے۔ نوجوانوں کا ان کی زندگی پر کنٹرول دینا ہے، تاکہ وہ کسی ایس ایچ او یا پٹواری کے آگے این او سیز کیلئے کھڑے نہ ہونا پڑے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وزیراعظم تنخواہ لے لیں لیکن فیصلے ٹھیک کریں، 500 ارب روپیہ ترقیاتی بجٹ کا بہت بڑی رقم ہے، اسے ٹھیک کریں، 30 ہزار ارب روپیہ چاروں صوبے اور وفاق کی حکومتی اپنے اخراجات پر خرچ کر رہی ہیں جو ہماری قومی آمد کے 25 فیصد کے برابر ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایک طرف یہ حالت ہوگئی ہے کہ آپ بچوں کے دودھ اور دل کے مریض کے اسٹنٹ پر ٹیکس لگا رہے ہیں دوسری طرف آپ ایم این ایز اور ایم پی ایز کے پروجیکٹس پر 500 ارب روپیہ خرچ کر رہے ہیں یہ شرم کی بات نہیں ہے؟ پھر آپ 24 فیصد جاری اخراجات بڑا رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ملک میں ایک ہزار 18 ارب روپے پنشن ہے، جس میں سے 600 یا 662 ارب روپے دفاعی اداروں کی پنشن ہے باقی 350 ارب روپے باقی سویلین کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پنشنز میں ریفارمز ہونی چاہئیں، دو دو پنشنیں نہیں ملنی چاہئیں، پنشن تنخواہ سے زیادہ نہیں ہونی چاہئیے، جس اسپیڈ سے پنشن بڑھ رہی ہے آٹھ سال میں پنشن دفاع سے زیادہ ہوجائے گی پھر ہم پنشن نہیں دے پائیں گے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بجٹ میں جو غلطیاں کی گئی ہیں، محمد اورنگزیب صاحب اس کے مرتکب نہیں ہوسکتے، جب آپ قوم سے اتنی قربانی مانگ رہے ہیں تو پی ایس ڈی پی کا اتنا خرچہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی، اگر اورنگزیب صاحب کی یا فنانس منسٹری کی سنی جاتی تو وہ این ایف سی ایوارڈ کی بھی بات کرتے، صوبوں کے پیسے کچھ کم کرتے، زراعت اور پراپرٹی ٹیکس بھی بھی صوبوں سے لے کر وفاق کو دے دیتے، جب حالات اتنے خراب ہیں تو ہمیں نظر تو آئے کہ وفاق اور صوبوں نے کوئی حصہ ڈالا۔

ان کا کہنا تھا کہ بجٹ میں بہت ساری چیزیں ایسی ہیں جو آئی ایم ایف کی شرائط نہیں تھیں اور فضول ڈالی گئی ہیں، آئی ایم ایف نے کہا تھا این ایف سی ایوارڈ کو دیکھو، براپرٹی اور زراعت کو ٹیکس کرو، آئی ایم ایف نے کہا ایران سے اسمگل ہوکر پٹرول آرہا ہے اس پر پی ڈی ایل لگاؤ، وہ آپ نے نہیں کیا۔

انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف نے نہیں کہا تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس لگائیں۔

مفتاح اسماعیل نے کہا کہ مجھے نہیں لگتا کہ یہ بجٹ پورا سال برقرار رہے گا، اس میں بہت سے ایسے سقم ہیں کہ انہیں اس پر نظر ثانی کرنی پڑے گی۔

انہوں نے کہا کہ جب ان کی نااہلیوں کی وجہ سے دنیا نے قرض دینا بند کردیا تو آئی ایم ایف نے انہیں کہا کہ ہم آپ کو قرض دیں گے آپ اپنی نااہلی عوام پر منتقل کر دو۔

ایک اور سوال کے جواب میں مفتاح اسماعیل نے کہا کہ آپ بجٹ کے کسی حصے کو چھیڑ نہیں سکتے، اگر دفاع آپ کو معلومات نہیں دیتا تو ریلوے بھی نہیں دے رہا ہوتا، یہاں سب مقدس گائیں ہیں اور ان مقدس گائیوں کیلئے ایک بڑے قصائی کی ضرورت ہے۔

عوام پر 4 ہزار ارب ٹیکسز کا بوجھ ڈال کر حکومت نے اخراجات 25 فیصد بڑھا لیے، شاہد خاقان

پاکستان پہلا ملک ہے جہاں ٹیکس ادا کریں گے تو اس پر بھی ٹیکس ہے، سابق وزیراعظم
اپ ڈیٹ 02 جولائ 2024 03:26pm

سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے ایک بار پھر وفاقی بجٹ کو مسترد کردیا اور کہا کہ عوام پر 4 ہزار ارب ٹیکسز کا بوجھ ڈال کر حکومت نے اپنے اخراجات 25 فیصد بڑھا لیے، پاکستان پہلا ملک ہے جہاں ٹیکس ادا کریں گے تو اس پر بھی ٹیکس ہے، نیب کے رہنے تک ملک مفلوج رہے گا۔

کراچی کی احتساب عدالت میں پاکستان اسٹیٹ آئل میں غیر قانونی بھرتیوں کے ریفرنس کی سماعت ہوئی، سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سمیت دیگر شریک ملزمان عدالت میں پیش ہوئے۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ جب تک سپریم کورٹ کا حتمی فیصلہ نہیں آتا، ریفرنس کی سماعت میں پیش رفت نہیں ہوسکتی۔

عدالت نے نیب ریفرنس کی سماعت بناکسی کارروائی کے 7 اگست تک کے لیے ملتوی کردی۔

یاد رہے کہ نیب ریفرنس میں نامزد ملزمان کے خلاف پی ایس او میں ایم ڈی اور ڈی ایم ڈی کی غیرقانونی اپائنمنٹ کا الزام ہے ۔

بعدازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ بجٹ میں نئی چیز لوگوں پر ٹیکس کا بوجھ ہے، پاکستان کی کوئی ایک کمپنی بتا دے کہ یہ ایک بزنس فرینڈلی بجٹ ہے، حکومت کی ناقص پالیسی کے باعث آج پاکستان سے ایکسپورٹ کا کام کرنا بھی مشکل ہوگیا ہے، دنیا میں ایسی مثال نہیں کہ ٹیکس کی ادائیگی کے لئیے بھی ٹیکس لگا دیا گیا ہو، بہت سے انوکھے طریقوں سے عوام کا بوجھ بڑھایا جارہا ہے ۔

سابق وزیراعظم نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ آج حکومت قرضے لے کر اپنے اخراجات کو پورا کررہے ہیں، آپ لوگوں نے کوئی تیاری کی ہے اگلے سال کے لئیے، اسمگلنگ کو کوئی اس ملک میں روکنے والا نہیں ہے، سگریٹ کی اسمگلنگ ابھی بھی جاری ہے، جو آپریشن ملک دشمن کے خلاف ہوگا ہمیں اسکی حمایت کرنی پڑے گی۔

2 ہزار اشیا پر 2 فیصد اضافی کسٹم ڈیوٹی عائد، 657 لگژری اشیا پر ریگولیٹری ڈیوٹی میں اضافہ

ایف بی آر نے 2 فیصد کسٹم ڈیوٹی ان اشیا کی درآمد پرعائد کی جن پر پہلے صفر فیصد ڈیوٹی عائد تھی
اپ ڈیٹ 02 جولائ 2024 09:58am

فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے یکم جولائی 2024 سے 2 ہزار 200 اشیا کی درآمد پر 2 فیصد اضافی کسٹم ڈیوٹی عائد کی ہے اور 657 لگژری اور غیر ضروری اشیا کی درآمد پر ریگولیٹری ڈیوٹی میں بھی اضافہ کردیا۔

بزنس ریکارڈر کی رپورٹ کے مطابق 2 فیصد کسٹم ڈیوٹی ان اشیا کی درآمد پرعائد کی گئی ہے جن پر پہلے صفر فیصد ڈیوٹی عائد تھی۔ ایس آر او 929 (1) 2024 کے مطابق کسٹم ڈیوٹی کا اطلاق 2، 4، 6 اور 7 فیصد کی شرح سے ہوگا۔

خواجہ آصف نے بھی ٹیکسوں کی بھرمار والے وفاقی بجٹ پر سوال اٹھا دیا

علاوہ ازیں یکم جولائی 2024 سے سینکڑوں اشیا کی درآمد پر 5 فیصد سے 55 فیصد تک ریگولیٹری ڈیوٹی لگائی گئی ہے۔

یکم جولائی 2024 سے ایف بی آر نے متعدد درآمدی اشیا پر اضافی کسٹم ڈیوٹی (اے سی ڈی) بھی نافذ کر دی ہے۔ ہزار سی سی سے زائد سی کے ڈی والی کاروں ، جیپوں اور کمرشل گاڑیوں پر 7 فیصد اے سی ڈی عائد ہوگی۔

اس ضمن میں ایف بی آر نے تازہ ایس آر او میں اپنے پرانے نوٹی فکیشن نمبر ایس آر او کو منسوخ کردیا جس میں مخصوص اشیا کی درآمد پر ریگولیٹری ڈیوٹی لگانے کا تذکرہ تھا۔

ایف بی آر نے مالی سال 2024 کے مقررہ ہدف سے زائد ٹیکس اکٹھا کرلیا

مندرجہ ذیل اشیا پر عائد کی گئی ریگولیٹری ڈیوٹی کی تفصیل

درآمدی پرفیوم اور سپرے پر 20 فیصد گھڑیاں پر 30 فیصد دھوپ کے چشمے پر 30 فیصد درآمد شدہ سائیکل پر 10 فیصد درآمد شدہ ڈیری مصنوعات پر 20-25 فیصد قدرتی شہد پر 30 فیصد درآمد شدہ کھجور اور دیگر پھل پر 25 فیصد کاسمیٹکس پر 55 فیصد درآمد شدہ شیونگ کریم اور صابن پر 50 فیصد جینٹس کیپس، اوور کوٹ، جیکٹس، ٹراؤزر اور شرٹس پر 10 فیصد خواتین کا اوور کوٹ، جیکٹس، اسکرٹس/ٹراؤزرپر 10 فیصد درآمد شدہ زیورات پر 45 فیصد ڈینچر فکسٹیو پیسٹ اور پاؤڈ، ڈینٹل فلاس پر 50 فیصد پنیراور دہی پر 25 فیصد آلو/دیگر سبزیاں اور سبزیوں کا مرکب پر 50-55 فیصد چینی کنفیکشنری (سفید چاکلیٹ سمیت) 40 فیصد تمباکو وغیرہ پر 50 فیصد کتے یا بلی کی خوردہ پر 50 فیصد ملبوسات اور ملبوسات کی اشیا، چمڑے یا کمپوزیشن لیدر کی اشیا پر 50 فیصد آر ڈی اور ویڈیو گیم کنسولز اور مشینیں، ٹیبل یا پارلر گیمز پر 50 پر فیصد

علاوہ ازیں کمرشل پراپرٹی، اوپن پلاٹ یا رہائش کیلئے پلاٹ کی خریداری پر فائلرز کیلئے ایکسائز 3 فیصد، کمرشل پراپرٹی، اوپن پلاٹ یا رہائش کیلئے پلاٹ کی خریداری پر لیٹ فائلرز کیلئے ایکسائز 5 فیصد ڈیوٹی عائد کردی گئی ہے۔

کمرشل پراپرٹی، اوپن پلاٹ یا رہائش کیلئے پلاٹ کی خریداری پر نان فائلرز کیلئے ایکسائز 7 فیصد ڈیوٹی ہوگی۔

مزید تفصیلات کے مطابق چینی مینوفیکچرر کیلئے سپلائی پر 15 روپے فکسڈ ڈیوٹی اور سگریٹس میں استعمال ہونے والے فلٹر پر 44 ہزار روپے فی کلو ، نیکوٹین پاؤچز پر 1200 روپے فی کلو اور موبل آئل پر بھی 5 فیصد ایکسائز ڈیوٹی عائد کردی گئی ہے۔

محصولات کا ہدف: ایف بی آر نے 1300 ارب روپے کے نئے ٹیکس اقدامات کی تجویز پیش کردی

ایس آر او کے مطابق اندرون ملک استعمال یا سپلائی کے لیے آٹوموٹیو گاڑیوں کے ذیلی اجزا، آٹوموٹیو کلائمیٹ کنٹرول آلات اور آٹو موٹیو بیٹریوں کی درآمد پر 2 اضافی کسٹم ڈیوٹی عائد کی گئی ہے۔

مزید برآں، زرعی ٹریکٹروں کی تیاری کے لیے ٹائروں/ٹیوبوں سمیت کسی بھی کٹ کی شکل میں اسمبلی/مینوفیکچرنگ کے اجزا کی درآمد پر 2 اضافی کسٹم ڈیوٹی عائد کی گئی ہے۔

خواجہ آصف نے بھی ٹیکسوں کی بھرمار والے وفاقی بجٹ پر سوال اٹھا دیا

بجٹ میں ٹیکس آئی ایم ایف دباؤ پر لگایا، آئی ایم ایف پاکستان کی خود مختاری کے لیے خطرہ ہے، وزیر دفاع
شائع 02 جولائ 2024 08:39am
—فائل فوٹو
—فائل فوٹو

اپوزیشن کے بعد اب حکمراں جماعت کے سینئر رہنما اور وزیردفاع خواجہ آصف نے بھی ٹیکسوں کی بھرمار والے وفاقی بجٹ پر سوال اٹھا دیا۔

نجی چینل کے پروگرام میں دوران گفتگو خواجہ آصف نے تسلیم کیا کہ بجٹ میں ٹیکس عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی ایما اور دباؤ پر لگایا گیا۔ انہوں نے اقرار دیا کہ ’آئی ایم ایف پاکستان کی خود مختاری کے لیے خطرہ ہے‘۔

جماعت اسلامی کا بجٹ میں ٹیکسز کیخلاف اسلام آباد میں دھرنا دینے کا اعلان

خواجہ آصف نے اپنے شہر سیالکوٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’میرا شہر ایکسپورٹ کا مرکز ہے، ایکسپورٹرز پر جو ٹیکس لگایا گیا ہے اس سے ایف بی آر کی کرپٹ مافیا کو فائدہ پہنچے گا‘۔

واضح رہے کہ ملک میں یکم سے مہنگائی کا سونامی آگیا ہے کیونکہ نئے مالی سال کا آغاز کے ساتھ ہی قومی اسمبلی سے منظور بجٹ بھی نافذ العمل ہوگیا۔

فنانس ترمیمی بل کی منظوری سے گوشت، موبائل فون، ہربل اور ہومیوپیتھک ادویات مہنگی ہوجائیں گی۔ بچوں کے تعلیمی اخراجات بھی بڑھ جائیں گے۔

ترمیمی بل کی منظوری کے بعد مرغی، گائے اور بکرے کے گوشت کی قیمت میں بھی اضافہ ہوگا، جب کہ موبائل فونز کی قیمتوں میں بھی اضافہ متوقع ہےاور جہاں ہربل اور ہومیوپیتھک ادویات مہنگی ہوں گی وہاں نزلہ زکام ہوا تو جوشاندہ خریدنا بھی بھاری پڑے گا۔

18 فیصد سیلز ٹیکس عائد ہونے پر موبائل فونز کی قیمتوں میں بڑا اضافہ

موبائل فون مہنگے ہونے پر دکاندار کیوں پریشان ہیں ؟
شائع 01 جولائ 2024 07:18pm

فاقی بجٹ میں موبائل فونز پر اٹھارہ فیصد سیلز ٹیکس کے نفاذ کے ساتھ ہی قیمتیں بڑھا دی گئیں ۔ کی پیڈ موبائل 500 سے 700 روپے مہنگے ہوگئے۔ جب کہ اسمارٹ فونز کی قیمتوں میں 7 سے 10ہزار روپے تک اضافہ کردیا گیا۔

بجٹ کے آفٹر شاکس میں متعدد دیگر اشیا کے ساتھ ہی موبائل فون سیٹس بھی مہنگے ہوگئے۔

موبائل فونز کی قیمتوں میں اضافے سے شہری پریشان ہیں۔ عوام کا کہنا ہے کہ گھر سے رابطہ رکھنے کے لئے سادہ فون کی خریداری بھی مشکل ہوگئی ہے۔

دوسری طرف دکانداروں کا کہنا ہے کہ موبائل فون مہنگے ہونے سے فروخت میں بھی کمی ہوگی۔

یہ بھی پڑھیں :

مہنگائی میں اضافے کی شرح پھر بڑھ گئی، جون میں 12.6 فیصد ریکار

نیا مالی سال شروع، ٹیکسز نافذ ہونے کے بعد آج سے کیا کچھ مہنگا ملے گا؟

فنانس بل کے اطلاق کے بعد سیمنٹ کی بوری بھی مہنگی ہوگئی، نئی قیمت جاری

عطا تارڑ کی حکومتی اخراجات میں کمی پر وضاحت، شاہد خاقان، مفتاح اسماعیل کی تنقید کا جواب

وفاقی وزیر کا شاہد خاقان اور مفتاح اسماعیل کی بجٹ اور حکومت پر تنقید کا ترکی بہ ترکی جواب
شائع 01 جولائ 2024 05:58pm
فوٹو۔۔۔۔اسکرین گریب
فوٹو۔۔۔۔اسکرین گریب

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا تارڑ نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے حکومتی اخراجات میں کمی پر بات کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی اور مفتاح اسماعیل کی تنقید کا جواب بھی دیا۔ انھوں نے کہا کہ سابق وزیر اعظم اور سابق وزیر خزانہ ہمارے بھائی ہیں، لیکن لگتا ہے دونوں نے بجٹ کتاب نہیں پڑھی کیونکہ 1500 ارب کا پی ایس ڈی پی ہے۔

واضح رہے کہ پیر کو عطا تارڑ کی نیوز کانفرنس سے قبل نوتشکیل شدہ سیاسی جماعت ”عوام پاکستان“ کے کنوینر اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کے ہمراہ اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم کس قسم کی حکومت چلا رہے ہیں، ہماری سوچ کیا ہے کہ ہم اپنے اخرجات کم نہیں کریں گے لیکن عوام پر مزید بوجھ ڈالتے رہیں گے۔

وفاقی بجٹ پر تنقید کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان کی تاریخ کا بدترین بجٹ پاس کیا گیا، بجٹ میں پھر مفاد پرست ٹولے کو چھوٹ دے دی گئی ہے، حکومت کو سب سے پہلے اپنے اخراجات میں کمی کرنی چاہیے تھی۔

وفاقی وزیر عطا تارڑ نے اپنی پریس کانفرنس میں شاہد خاقان اور مفتاح اسماعیل کو تُرْکی بَہ تُرْکی جَواب دیتے ہوئے کہا کہ شاہد صاحب نے اخراجات میں کمی کا کہا، اخراجات ایسے ہی کم نہیں ہوتے، ڈاؤن سائزنگ کی جاتی ہے۔

عطا تارڑ نے مزید کہا کہ وزیراعظم خود بھی مراعات نہیں لیتے، کابینہ اراکین بھی نہ مراعات اور نہ تنخواہیں لے رہے ہیں، بہت سارے محکمے اور ڈویژن بند ہوں گے یا انہیں ضم کیا جائے گا، اخراجات میں کمی واضح طور پر کی جارہی ہے۔

اطلاعات و نشریات کے وفاقی وزیر نے شاہد خاقان کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے مزید کہا کہ آپ کی بہت بڑی ائیرلائن ہے، آپ کو بھی تو یہ کرنا چاہیے تھا، انہیں پی آئی اے کی نجکاری خود کرنی چاہیے تھی، پی آئی اے کی نجکاری کا معاملہ اگست میں شفاف طریقے سے مکمل ہوگا۔

اپنی توپوں کا رُخ ن لیگ کے سابق دور حکومت میں وزیر خزانہ کی خدمات انجام دینے والے مفتاح اسماعت کی جانب کرتےہوئے عطا تارڑ نے کہا کہ مفتاح صاحب کے دور سے مہنگائی اب کم ہوئی ہے، ایف بی آر کی ڈیجیٹائزیشن کا معاملہ چل پڑا ہے۔

جماعت اسلامی کا بجٹ میں ٹیکسز کیخلاف اسلام آباد میں دھرنا دینے کا اعلان

دھرنا بجلی کے بلوں میں سلیب سسٹم کے خلاف بھی ہوگا، حافظ نعیم الرحمان
شائع 01 جولائ 2024 05:32pm
فوٹو۔۔۔فائل
فوٹو۔۔۔فائل

جماعت اسلامی نے بجٹ میں ٹیکسز کے خلاف 12 جولائی کو اسلام آباد میں دھرنا دینے کا اعلان کردیا۔

منصورہ، لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان نے کہا کہ دھرنا ٹیکس اور بجلی کے بلوں میں سلیب سسٹم کے خلاف بھی ہوگا۔

حافظ نعیم الرحمان نے یہ بھی کہا کہ حکومت کو ظالمانہ ٹیکس لگانے پر کوئی شرمندگی نہیں، غریب آدمی سے جینے کا حق بھی چھینا جارہا ہے۔

نیا مالی سال شروع، ٹیکسز نافذ ہونے کے بعد آج سے کیا کچھ مہنگا ملے گا؟

دوسری طرف لاہور کے علاقے ٹاون شپ میں جماعت اسلامی نے مہنگے پیڑول کو مزید مہنگا کرنے پراحتجاج کیا۔ نائب امیر جماعت اسلامی جنوبی لاہور احمد سلمان بلوچ نے احتجاج کی قیادت کرتے ہوئے کہا کہ ملکی تاریخ میں دیکھنے کو ملا، ایک گاڑی کے نمبر کیلئے اشرافیہ نے دس کروڑ دیے، بجٹ میں ٹیکس ان اشرافیہ پر کیوں نہیں لگتا، غریب آدمی کی تنخواہ پر، موٹر سائیکل میں پیڑول لیوی ٹیکس ہی کیوں لگتا ہے۔

صدر آصف زرداری نے فنانس ترمیمی بل 2024 کی توثیق کردی

سندھ کے آئندہ مالی سال کے بجٹ کی منظوری دے دی گئی

گورنر سندھ فنانس بل 25-2024 پر دستخط کر دیے، نئے بجٹ کا یکم جولائی سے نفاذ ہوگا
شائع 30 جون 2024 03:03pm

گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری نے سندھ کے آئندہ مالی سال کے بجٹ کی منظوری دے دی۔

گورنر سندھ فنانس بل 25-2024 پر دستخط کر دیے، ان کے دستخط سے بجٹ کی منظوری کاعمل مکمل ہو گیا، جس کے بعد سندھ کے نئے بجٹ کا یکم جولائی سے نفاذ ہوگا۔

سندھ اسمبلی میں 3 ہزار 56 ارب سے زائد کا بجٹ منظور، سروس سیلز ٹیکس میں اضافہ

سندھ بجٹ: تنخواہ میں 30، پینشن میں 15 فیصد اضافہ، کم ازکم اجرت 37 ہزار روپے مقرر

سندھ اسمبلی نے فنانس بل 25-2024 کی کثرت رائے سے منظوری چند روز قبل دی تھی۔

سندھ اسمبلی میں فنانس بل کی منظوری کے وقت اپوزیشن لیڈر علی خورشیدی نے احتجاج کرتے ہوئے کہا تھا کہ عجلت میں فنانس بل منظور نہ کیا جائے ورنہ ہم ایوان کی کارروائی کا حصہ نہیں بنیں گے۔

فنانس بل کی مرحلہ وار منظوری کے بعد وزیر اعلیٰ سندھ کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کے پاس کافی وقت تھا کہ وہ فنانس بل کے خلاف اعتراضات جمع کراتے مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔

آئی ایم ایف کا 10 جولائی سے قبل بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مزید اضافے کا مطالبہ

آئی ایم ایف نے بجٹ کی منظوری کیساتھ ہی ڈومور کا کہہ دیا
اپ ڈیٹ 30 جون 2024 07:55pm
فوٹو۔۔۔ فائل
فوٹو۔۔۔ فائل

عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف نے بجٹ کی منظوری کیساتھ ہی ڈومور کا مطالبہ کردیا ہے، ذرائع وزارت خزانہ کے مطابق آئی ایم ایف نے 10 جولائی سے قبل بجلی و گیس کے قیمت میں اضافے کا مطالبہ کیا ہے۔ اور بجلی مہنگی کرنے کیلئے نیپرا کے فیصلے پر فوری عملدرآمد کا بھی کہا ہے۔

پاکستان کے ساتھ پروگرام پر آئی ایم ایف اپنی شرائط پر ڈٹ گیا ہے، کسی بھی قسم کی لچک دکھانے پر راضی نہیں ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے نے پاکستان پر واضح کیا ہے کہ نہ تو تنخواہوں پر لگے ٹیکس پر کوئی سمجھوتا ہوگا اور نہ ہی بجلی کی قیمتوں پر۔

ذرائع وزارت خزانہ کے مطابق آئی ایم ایف نے بجٹ میں سخت معاشی فیصلوں کو سراہا ہے تاہم بجٹ کی منظوری کیساتھ ڈومورکا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ نرخوں میں اضافے پرعملدرآمد کیا جائے۔ بجلی مہنگی کرنے کیلئے نیپرا کے فیصلے پر فوری عملدرآمد کیا جائے۔ آئی ایم ایف مطالبہ کیا کہ نئے مالی سال میں گیس کے ریٹ بڑھا کر سبسڈی کنٹرول کی جائے۔

وزارت خزانہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ نئے قرض پروگرام کیلئے آئی ایم ایف پیشگی تمام شرائط پر عملدرآمد چاہتا ہے، آئی ایم ایف کا وفد جولائی کے دوسرے ہفتے میں پاکستان آنے کا امکان ہے۔

تاہم ذرائع کا یہ بھی کہنا ہےکہ آئی ایم نے اپنے دورہ پاکستان کو بھی مشروط کردیا ہے، حکومت سے کہا گیا ہے کہ بجٹ تجاویز پر عمل درآمد کر کے دستاویزی شکل میں پیش کریں تو اسی صورت میں جولائی کے دوسرے ہفتے میں وفد کی پاکستان آمد ممکن ہوسکے گی۔

ہم الف ’انار‘ ب ’بکری‘ پر ہی کھڑے ہیں، وزیر اعلی بلوچستان

بلوچستان کا یہ حال اپنے ہی لوگوں نے کیا باہر کے لوگوں نے نہیں، سرفراز بگٹی
شائع 29 جون 2024 06:07pm

اسمبلی اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعلی بلوچستان سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ اگلے 15 سال بعد ترقیاتی بجٹ کے لئے ایک روپیہ کی بھی رقم نہیں ہوگی اخراجات کو کم کرنے کی ضرورت ہے ہر 15 دن بعد ترقیاتی منصوبوں کا جائزہ لیں گے تمام اداروں میں کام کرنے والوں کا احتساب ہوگابلوچستان کا یہ حال اپنے ہی لوگوں نے کیا باہر کے لوگوں نے نہیں کیا۔

وزیر اعلی بلوچستان نے کہا کہ بلوچستان اسمبلی نے 5کھرب 79ارب روپے سے زائد کے 53 غیر ترقیاتی مطالبات زرمنظور کرلیے ہیں ۔لے 15 سال بعد ترقیاتی بجٹ کے لئے ایک روپیہ کی بھی رقم نہیں ہوگی اخراجات کو کم کرنے کی ضرورت ہے اپنے ریونیو بڑھا کر آگے بڑھ سکتے ہیں بڑے شہروں میں مزید شہر آباد کرنے ہوں گےنیاکوئٹہ آباد کرنے کی ضرورت ہے تاریخ میں پہلی بار 70فیصد منظور شدہ اسیکمز شامل کی گئی ہیں یکم جولائی تک ترقیاتی کاموں کے ٹینڈرنگ شروع ہو جائے گی دستیاب فنڈز کو خرچ کرنے کے لئے لائحہ عمل طے کیا ہر 15 دن بعد ترقیاتی منصوبوں کا جائزہ لیں گے۔

انھوں نے کہا کہ بلوچستان دوسرے صوبوں سے پیچھے رہے گیا ہے امن و امان کی صورتحال بہت بڑا مسئلہ ہے جو قانون ہاتھ میں لیگا اس سے سختی سے نمٹا جائے گا ہم ان سے کیسے مزاکرات کریں جو بندوق کی نوک پر اپنا نظریہ قائم کرنا چاہتے ہیں اگر کوئی مذاکرات کرنے کو تیار نہیں چاہتے کہ وہ سیاحوں کو اغواء کریں یاسیکورٹ فورسز پرحملے کریں اس چیز کی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ شناختی کارڈ دیکھ کرلوگوں کو مارا جائے۔

وزیر اعلی بلوچستان کا کہنا تھا کہ ریاست کی رٹ قائم کریں گے عوام ان کے خلاف کھڑے ہو جائین جو آئین پاکستان کے خلاف ہے ہماری حکومت معصوم لوگوں کے ساتھ کھڑی ہوگی، سی ٹی ڈی کی مستحکم کریں گے انھو ں نے کہا کہ عام بلوچستانی کو گلے لگائیں گے نوکریاں بغیر پیسوں کے دیں گے بلوچستان کے لوگ تکلیف میں ہیں 300 فیصد تعلیم کے بجٹ کو بڑھایاہے۔ کیاسکول ہمیں آوٹ پٹ دے رہے ہیں 130 ارب روپے لگانے کے باوجود زرلٹ صفرہے لوگ کہا پہنچ گئے اور ہم الف انار ب بکری پر ہی کھڑے ہیں عام بچے کو کوالٹی ایجوکیشن دینی ہے۔

سرفراز بگٹی کا مزید کہنا تھا کہ بلوچستان کو ترقی دینے کے لئے ذاتی مفادکو پس پشت ڈالنا ہوگا، تمام اداروں میں کام کرنے والوں کا احتساب ہوگابلوچستان کا یہ حال اپنے ہی لوگوں نے کیا باہر کے لوگوں نے نہیں کیا بلوچستان اسمبلی نے مالی سال 2024- 25 کے کل 93 مطالبات منظور کرلیے۔

فنانس ترمیمی بل کی منظوری سے موبائل فون، اسٹیشنری، گوشت، ادویات اور دیگر اشیاء مہنگی ہوجائیں گی

بچوں کے تعلیمی اخراجات بھی بڑھ جائیں گے، یکم جولائی سے مہنگائی کا سونامی آنے کا امکان
شائع 28 جون 2024 11:22pm
فوٹو۔۔۔فائل
فوٹو۔۔۔فائل

ملک میں یکم جولائی سے مہنگائی کا سونامی آنے کا امکان ہے۔ فنانس ترمیمی بل کی منظوری سے گوشت، موبائل فون، ہربل اور ہومیوپیتھک ادویات مہنگی ہوجائیں گی۔ بچوں کے تعلیمی اخراجات بھی بڑھ جائیں گے۔

ترمیمی بل کی منظوری کے بعد مرغی، گائے اور بکرے کے گوشت کی قیمت میں بھی اضافہ ہوگا، جب کہ موبائل فونز کی قیمتوں میں بھی اضافہ متوقع ہےاور جہاں ہربل اور ہومیوپیتھک ادویات مہنگی ہوں گی وہاں نزلہ زکام ہوا تو جوشاندہ خریدنا بھی بھاری پڑے گا۔

یکم جولائی سے بین الاقوامی سفر کیلئے اکانومی ٹکٹ پر بڑا اضافہ

فنانس بل میں اسٹیشنری پر دس فیصد ٹیکس عائد ہوگا اور کلر پینسل کے سیٹ، روشنائی، ای ریزر، پینسل، شاپنرز ، پن، بال پین، اور مارکرز پر بھی دس فیصد سیلز ٹیکس عائد ہوگا۔

وفاقی بجٹ: پراپرٹی پر اب ڈیوٹی کی شرح کیا ہوگی؟

جانوروں کے لیے کھل اور دیگر سولڈ باقیات، پولٹری، مویشیوں کی فیڈ اور سورج مکھی کے بیج اور کینولا بیج سے تیار خوراک پر دس فیصد سیلز ٹیکس عائد ہوگا، جبکہ پانچ سو ڈالر سے کم قیمت والے درآمدی موبائل فون ، پرزہ جات اور مقامی تیار موبائل فونز پراٹھارہ فیصد سیلز ٹیکس عائد ہوگا۔

حکومت ٹیکس چوری، فراڈ کی روک تھام کے لیے ونگ تشکیل دے گی

ٹیکس چوروں کو بھاری جرمانے اور دس سال تک قید کی سزائیں ہوں گی، پچیس ہزار یا چوری شدہ ٹیکس کی مالیت کے برابر سو فیصد جرمانہ عائد ہوگا۔ پچاس کروڑ کی ٹیکس چوری پر پانچ سال تک قید کی سزا دی جائے گی ، ایک ارب یا زائد کی ٹیکس چوری یا فراڈ پر دس سال قید کی سزا متعارف کروادی گئی۔