Subscribing is the best way to get our best stories immediately.
لاہور: چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان پر قاتلانہ حملے کی ایف آئی آر کی نقل لیک ہوگئی ہے۔
سپریم کورٹ کے حکم پر پیر کی شام مقدمہ درج ہونے کے بعد ایف آئی آر سیل کر دی گئی تھی تاہم اس کی نقل لیک ہو گئی اور پی ٹی آئی نے شدید ردعمل ظاہر کیا ہے۔
عمران خان پر قاتلانہ حملے کی ایف آئی آر تھانہ سٹی وزیر آباد کے سب انسپیکٹر عامر شہزاد کی مدعیت میں انسداد دہشتگردی ایکٹ 1997 سمیت دفعہ 302، 324 اور 440 کے تحت درج کی گئی ہے۔
ایف آئی آر کے متن کے مطابق مقدمہ ملزم نوید کے خلاف قتل، اقدام قتل اور دہشتگردی کی دفعات کے تحت درج کیا گیا، ملزم نوید کی فائرنگ سے معظم جاں بحق جب کہ عمران خان سمیت 11 افراد زخمی ہوئے۔
یہ بھی پڑھیں: عمران خان پر قاتلانہ حملے کا مقدمہ درج، ایف آئی آر سیل
ایف آئی آر میں عمران خان کے نامزد کردہ تین افراد میں سے کسی ایک کا نام بھی شامل نہیں کیا گیا۔
پولیس ذرائع کا کہنا تھا کہ قاتلانہ حملے کی ایف آئی آر کو سیل کر دیا گیا ہے، ایف آئی آر کو کل سپریم کورٹ میں پیش کیا جائے گا۔
سپریم کورٹ میں پیش ہونے کے بعد ایف آئی آر کو عام ہونا تھا تاہم ایف آئی آر مقدمہ درج ہونے کے چند گھنٹوں بعد ہی لیک ہوگئی ہے۔
ترجمان پنجاب حکومت مسرت چیمہ نے لیک ایف آئی آر پر رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ یہ ایف آئی آر کے نام پر وہ مذاق ہے جو اس قوم کے ساتھ کھیلا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایف آئی آر میں ان اشخاص کے نام ہی نہیں جن پر مدعی کو شک ہے، چئیرمین کی جانب سے ایف آئی آر زبیر نیازی نے جمع کروانی تھی لیکن یہ پولیس اہلکار کی مدعیت میں درج کی گئی۔
اس سے قبل مقدمہ درج ہونے پر پی ٹی آئی رہنما بشمول فواد چوہدری اور مسرت چیمہ اس ایف آئی آر کو کاغذ کا تُکڑا قرار دے چکے ہیں۔
دوسری جانب پی ٹی آئی کا مطالبہ ہے کہ عمران خان پر قاتلانہ حملے کا مقدمہ تین افراد کے خلاف درج کیا جائے۔ یہ افراد وزیراعظم شہباز شریف، وزیرداخلہ رانا ثنا اللہ اور ایک اہم پوزیشن پر فائز ایک سینئر فوجی افسر ہیں۔
پنجاب حکومت اور پولیس کو شہباز شریف اور رانا ثنا اللہ کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے پر اعتراض نہیں تاہم ان کا کہنا ہے کہ سینئر فوجی افسر کا نام ایف آئی آر میں شامل نہ کیا جائے۔
تھانہ وزیرآباد کی پولیس نے پی ٹی آئی رہنماؤں کو بتایا تھا کہ اگروہ تیسرا نام نکال دیں تو فوری طور پر ایف آئی آر درج کر لی جائے گی۔ تاہم پی ٹی آئی اس کے لیے تیار نہیں ہوئی۔
افغانستان کی کاروباری شخصیت اور ”کوچی“ قبیلے کے سربراہ نور رحمان کوچی نے پی ٹی آئی رہنماء مراد سعید کے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو قتل کرنے کے دعوے کومسترد کر دیا۔
نور رحمان نے مطالبہ کیا کہ حکومت پاکستان اور سپریم کورٹ معاملے کی شفاف اور آزاد انکوائری کیلئے کمیشن قائم کرے، الزام سچ ثابت ہونے پر چاہے جو مرضی سزا سنائی جائے، لیکن الزام غلط ہونے پر الزام لگانے والے کو نشان عبرت بنایا جائے۔
نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں اپنے بیٹے طلعت رحمان کوچی کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے نور رحمان کوچی کا کہنا تھا کہ میں گزشتہ 40 سال سے پاکستان میں رہ رہا ہوں، اسلام آباد کا رہائشی ہوں، میرے 15 بچے ہیں، میرا افغانستان میں کاروبار ہے اور اپنے کاروبار کے ذریعے پاکستان کی معیشت میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
انوہں نے بتایا کہ 18 مئی 2022ء کو خیبرپختونخوا حکومت نےمیرے نام سے تھریٹ الرٹ لیٹ جاری کیا، خط میں لکھا تھا کہ میں عمران خان کو قتل کرنا چاہتا ہوں جس پر مجھے اٹھوا لیا گیا اور تفتیش کے بعد پوری تسلی ہونے پر واپس باعزت طریقے سے گھر پر چھوڑ دیا گیا، مراد سعید نے پریس کانفرنس میں میرا نام لیا۔
انہوں نے کہا کہ مراد سعید نے مجھے افغانی کہا، میرے حوالے سےتھریٹ خط میری فیملی کے لیے خطرہ ہے، میں ایک تاجر ہوں، اپنے قبیلے کا سربراہ ہوں، اپنے تحفظ کے لیے حکومت اور سپریم کورٹ سے مطالبہ کرتا ہوں، میرا کسی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں میرے خلاف کوئی ثبوت ہے تو سامنے لے آئیں۔
نور رحمان نے کہا کہ میں نے مراد سعید کو دیکھا ہی نہیں میرے پاس مراد سعید کی کوئی ویڈیوز نہیں،عمران خان سے مطالبہ ہے کہ اپنے اردگرد لوگوں کی نہ سنیں۔
انہوں نے سپریم کورٹ آف پاکستان سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ مراد سعید کی جانب سے مجھ پر لگائے جانے والے الزامات کی شفاف انکوائری کیلئے آزاد کمیشن تشکیل دیا جائے اور اگر الزامات ثابت جائیں تو بے شک جو چاہے سزا دی جائے۔
وزیر آباد پولیس نے تھانہ سٹی میں لانگ مارچ کے دوران عمران خان پر قاتلانہ حملے کا مقدمہ چار روز بعد درج کرلیا ہے۔
ایف آئی آر میں موقعے سے گرفتار ملزم نوید کو نامزد کیا گیا ہے۔ مقدمے میں قتل، اقدام قتل اور انسداد دہشتگردی کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔
پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ قاتلانہ حملے کی ایف آئی آر کو سیل کر دیا گیا ہے۔ ایف آئی آر کو کِل سپریم کورٹ میں پیش کیا جائے گا۔ سپریم کورٹ میں پیش کرنے کے بعد ایف آئی آر کو عام کیا جائے گا۔
پولیس ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ مقدمے کے اندراج کے بعد کل ہی مرکزی ملزم نوید کی باقاعدہ گرفتاری ڈال دی جائے گی۔
ملزم نوید اس وقت سی ٹی ڈی کی حراست میں لاہور چونگ کے ایک سیل میں موجود ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ایف آئی آر میں حساس ادارے کے افسر کا نام، پرویز الہٰی اور عمران خان کی دو ملاقاتوں کی اندرونی کہانی
سپریم کورٹ نے عمران خان پر حملے کا مقدمہ 24 گھنٹے میں درج کرنے کا حکم دیا تھا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایف آئی آردرج نہ ہوئی توسو موٹو لیں گے۔
پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف اپنا مؤقف دے چکی ہے، اگر عمران خان کے نامزدہ کردہ ملزمان کے نام شامل ہیں تو یہ مقدمہ قانونی ہے، ان ناموں میں کوئی بھی تحریف پی ٹی آئی کو قبول نہیں، ہمارے نزدیک ایف آئی آر کاغذ کا بے وقعت ٹکڑا ہوگی۔
پی ٹی آئی رہنما مسرت جمشید چیمہ کا کہنا ہے کہ عمران خان پر قاتلانہ حملے میں تحریک انصاف کے نامزد ملزمان کے علاوہ کسی اور پر ایف آئی آر وقت کا ضیاع اور کیس کو الجھانے کے مترادف ہے۔
انہوں نے لکھا، ”ایسا کور اپ عمران خان سمیت پوری قوم کو منظور نہیں۔ یہ پاکستان کے سب سے مقبول لیڈر کی زندگی کا معاملہ ہے، کوئی مذاق نہیں۔ ایسی ایف آئی آر ہم مسترد کرتے ہیں۔“
پی ٹی آئی کا مطالبہ ہے کہ عمران خان پر قاتلانہ حملے کا مقدمہ تین افراد کے خلاف درج کیا جائے۔ یہ افراد وزیراعظم شہباز شریف، وزیرداخلہ رانا ثنا اللہ اور ایک اہم پوزیشن پر فائز ایک سینئر فوجی افسر ہیں۔
پنجاب حکومت اور پولیس کو شہباز شریف اور رانا ثنا اللہ کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے پر اعتراض نہیں تاہم ان کا کہنا ہے کہ سینئر فوجی افسر کا نام ایف آئی آر میں شامل نہ کیا جائے۔
تھانہ وزیرآباد کی پولیس نے پی ٹی آئی رہنماؤں کو بتایا تھا کہ اگروہ تیسرا نام نکال دیں تو فوری طور پر ایف آئی آر درج کر لی جائے گی۔ تاہم پی ٹی آئی اس کے لیے تیار نہیں ہوئی۔
آج بروز پیر عمران خان نے وزیراعلیٰ پنجاب پرویزالہٰی سے ملاقات میں سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں سانحہ وزیرآباد کی ایف آئی آر درج کرنے کا مطالبہ کیا، وزیراعلیٰ نے عمران خان کو باور کرایا کہ سپریم کورٹ نے چوبیس گھنٹے میں ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا ہے، یہ حکم نہیں دیا کہ اس میں حساس ادارے کے افسر کا نام بھی شامل کیا جائے۔
مونس الہٰی نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ کے علاوہ کسی تیسری شخصیت کو نامزد کرنے کی بجائے نامعلوم ملزمان لکھ لیتے ہیں، تحقیقات میں کچھ شواہد ملے تو انہیں بعد ازاں نامزد کردیا جائے گا۔
تین نومبر 2022 کو لانگ مارچ کے دوران وزیر آباد میں قاتلانہ حملے میں سابق وزیرِ اعظم عمران خان فائرنگ سے زخمی ہوگئے تھے۔
واقعے میں ایک شخص جاں بحق اور پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان و دیگر رہنماؤں سمیت 13 افراد زخمی ہوئے تھے۔
فائرنگ کرنے والے شخص نوید کو بعد میں کنٹینر کے قریب سے پکڑ لیا گیا تھا جس نے عمران خان پر فائرنگ کا اعتراف بھی کیا تھا۔
پاکستان تحریک انصاف نے فیصل آباد اور سرگودھا ڈویژن سے بھی مارچ شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
فیصل آباد ڈویژن کے مارچ کی قیادت اسد عمر کریں گے، سیکرٹری جنرل اسد عمر نے مارچ کے شیڈول کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ مارچ کا آغاز جمعہ کو ٹوبہ ٹیک سنگھ سے ہوگا، ہفتے کو مارچ جھنگ، اتوار کو فیصل آباد اور پیر کو جڑانوالہ پہنچے گا۔
منگل کو مارچ چنیوٹ اور سرگودھا جائے گا اور بدھ کو راولپنڈی پہنچے گا۔
پاکستان تحریک اںصاف کا گورنر ہاؤس پنجاب کے باہر احتجای مظاہرہ جاری ہے۔
جاری احتجاج میں صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد، مسرت جمشید چیمہ کنٹینر پر موجود ہیں جب کہ پولیس کے 200 سے زائد اہلکار سکیورٹی پر معمور ہیں۔
مظاہرے میں پی ٹی آئی کارکنان کی بڑی تعداد بھی شریک ہے، اس دوران مال روڈ کو دونوں اطراف سے بند کردیا گیا ہے۔
پولیس نے گورنر ہاؤس کے گیٹ پر بیریئر لگا دئیے، گورنر ہاؤس کے باہر پولیس کی بھاری نفری تعینات ہے جس میں اینٹی رائٹ فورس اورخواتین اہلکار بھی شامل ہیں۔
خیال رہے کہ ایک پریس کانفرنس کے دوران پارٹی کے نائب چیئرمین شاہ محمود قریشی کی جانب سے گورنر ہاؤس پنجاب کے باہر احتجاج کا اعلان کیا گیا تھا۔
دوسری جانب لاہورکے علاوہ راولپنڈی کے مختلف مقامات پر احتجاج کا سلسلہ جاری ہے، کارکنان کی جانب سے سڑکوں پر ٹائر نذر آتش کئے گئے ہیں جس کے باعث سڑکوں پر بدترین ٹریفک جام ہوچکا ہے اور گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ گئی ہیں۔
چیئرمین تحریک انصاف عمران خان اور وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الہٰی کی آج ہونے والی دو ملاقاتوں کی اندرونی کہانی سامنے آگئی ہے، پرویز الہٰی کے مشورے سے عمران خان نے لانگ مارچ کو جمعرات تک ملتوی کرنے کا فیصلہ کیا، وزیراعلیٰ پنجاب نے لانگ مارچ ملتوی کرنے کی ٹھوس وجہ بھی بتا دی۔
وزیراعلیٰ پنجاب پرویزالہٰی آج دو بار اپنے بیٹے مونس الہٰی کے ہمراہ چیئرمین عمران خان سے ملاقات کیلئے ان کی رہائش گاہ زمان پارک گئے۔
ذرائع کے مطابق عمران خان نے پرویزالہٰی سے سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں سانحہ وزیرآباد کی ایف آئی آر درج کرنے کا مطالبہ کیا، وزیراعلیٰ نے عمران خان کو باور کرایا کہ سپریم کورٹ نے چوبیس گھنٹے میں ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا ہے، یہ حکم نہیں دیا کہ اس میں حساس ادارے کے افسر کا نام بھی شامل کیا جائے۔
ذرائع کے مطابق کپتان نے ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے پرویزالہٰی سے کہا ہے حملہ ہم پر ہوا ہے، ملزمان کو نامزد کرنا ہمارا قانونی حق ہے۔
مونس الہٰی نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ کے علاوہ کسی تیسری شخصیت کو نامزد کرنے کی بجائے نامعلوم ملزمان لکھ لیتے ہیں، تحقیقات میں کچھ شواہد ملے تو انہیں بعد ازاں نامزد کردیا جائے گا۔
مگر عمران خان نے وزیراعلیٰ پر زور دیا کہ وہ اتحادی ہونے کے ناطے اپنی ذمہ داری پوری کریں۔
پرویزالہٰی کچھ وقت مانگ کر پہلی ملاقات سے روانہ ہوگئے۔
عمران خان نے قانونی ماہرین سے الگ ملاقات میں بھی مشاورت کی۔
ذرائع کے مطابق قانونی ماہرین کی رائے تھی کہ ایسی شخصیت کا نام قانونی طریقے سے شامل کیا تو جاسکتا ہے، مگر اس کا پراسس طویل ہے، اگر شواہد نہ ملے تو تمام کیس خراب ہو جائے گا۔
ذرائع کے مطابق دوسری ملاقات میں پرویزالہٰی اپنے موقف پر قائم رہے، انہوں نے واضح کردیا کہ اگر تحریک انصاف سپریم کورٹ سے تین نام شامل کرانے کا حکم لے لے تو وہ ایف آئی آر درج کرلیں گے، دوسری صورت میں یہ ناممکن ہے۔
دوسری ملاقات میں پرویزالہٰی نے چیئرمین کو مشورہ دیا کہ لانگ مارچ کیلئے ابھی بھی سخت سیکیورٹی خدشات موجود ہیں، اس لئے کچھ روز کیلئے لانگ مارچ ملتوی کردیا جائے۔
وزیراعلیٰ نے یہ بھی مشورہ دیا کہ جب تک تحقیقات میں پہلے واقعے میں ملوث حملہ آور گروپ یا ماسٹر مائنڈ کی درست نشاندہی نہیں ہوجاتی، اس وقت تک مزید حملوں کا خدشہ رہے گا۔
انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ اگر چند روز تک لانگ مارچ ملتوی کردیا جائے تو وہ سیکیورٹی کو از سر نو ترتیب دے سکتے ہیں۔ ایسے پولیس افسروں کو لانگ مارچ سیکورٹی کی ذمہ داری سونپی جائے گی، جن کا کردار شک و شبہے سے بالا تر ہو تاکہ پنجاب حکومت سیکورٹی کی مکمل ذمہ داری نبھا سکے۔
ذرائع کے مطابق پرویزالہٰی نے یہ بھی مشورہ دیا کہ آپ کی صحتیابی کے بعد لانگ مارچ کو براہ راست اسلام آباد میں دھرنے کی شکل میں شروع کیا جائے تو بہتر ہوگا۔
دوسری ملاقات کے اختتام پر عمران خان نے شاہ محمود قریشی سے کہا ہے کہ میڈیا کو آگاہ کردیں کہ لانگ مارچ جمعرات کو ہوگا۔
عمران خان پر حملے کے بعد لانگ مارچ میں شامل پی ٹی آئی کارکنان کے صبر کا بند بظاہر ٹوٹتا نظر آرہا ہے، پی ٹی آئی قیادت بارہا کہہ چکی ہے کہ لانگ مارچ پُرامن ہے لیکن ملک کی صورت حال اور حالات و واقعات پر کارکنان اب خون خرابے کے بیانات پر اتر آئے ہیں۔
ایک طرف عمران خان کی جانب سے پی ٹی آئی لانگ مارچ کے شرکاء کو راولپنڈی پہنچنے کا حکم دیا گیا ہے تو دوسری جانب شہر میں ہونے والے مظاہرے شدت اختیار کرتے جارہے ہیں اور مظاہرین اشتعال انگیز بیانات اور افعال اختیار کرتے جارہے ہیں۔
فائرنگ کے نتیجے میں عمران خان کے زخمی ہونے پر راولپنڈی میں کئے جانے والے احتجاج اور مظاہروں کے باعث شہر کی مختلف اہم شاہراہیں اور سڑکیں بندش کا شکار ہیں، جبکہ ٹریفک جام ہونے کی وجہ سے گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ چکی ہیں۔
مشتعل مظاہرین کی جانب سے جہاں ٹائر نذرِ آتش کئے جارہے ہیں وہیں شمس آباد میں ایک شخص احتجاج کرتے ہوئے اپنی جان سے کھیل گیا۔
ایک شخص احتجاجًا بجلی کے کھمبے پر چڑھ گیا اور مین ٹرانسمیشن لائن سے لگنے والے بجلی کے جھٹکے کے باعث چند سیکنڈ میں سیدھا زمین پر آگرا۔
ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ بجلی کا جھٹکا لگنے سے قبل متاثرہ شخص کے کپڑوں میں آگ لگتی ہے۔
دوسری جانب لانگ مارچ میں شامل پی ٹی آئی کی ایک سپورٹر کا کہنا ہے کہ ”لوگ نکلیں عمران خان کیلئے، توڑ پھوڑ کریں، مار پیٹ کریں ، ایم این اے ، ایم پی ایز کو ماریں۔“
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے خاتون سپورٹر نے کہا کہ ”ایک ایک کو چوک پر لٹکا دیں، روڈوں پر مت نکلیں، منسٹرز کے گھر جائیں ان کے گھروں کو توڑیں ان کی عورتوں کی ویڈیوز بنائیں وہ ان کو دیں ، جیسے اعظم سواتی کے ساتھ ہوا انتہائی غلط ہوا ہے۔“
اپنے بیان کے آخر میں انہوں نے فوج مخالف نعرہ بھی لگایا۔
دوسری جانب راولپنڈی کے علاقے شمس آباد میں پی ٹی آئی کے کارکنوں دھرنے سے قیادت کے غائب ہونے کے بعد آپے سے باہر ہوگئے اور نجی ٹی وی چینل کی ڈی ایس این جی پر چڑھ گئے۔
ایمبولنس روکنےکی خبر دینے پر کارکن مشتعل ہوگئے اور نجی چینل کے عملے سے تلخ کلامی کی۔ پی ٹی آئی ایم پی اے سمابیا طاہر کی موجودگی میں کارکنان نے حملہ کیا۔
پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے راولپنڈی کے مختلف مقامات پر احتجاج کا سلسلہ جاری ہے، کارکنان کی جانب سے سڑکوں پر ٹائر نذر آتش کئے گئے ہیں جس کے باعث سڑکوں پر بدترین ٹریفک جام ہوچکا ہے اور گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ گئی ہیں۔
پی ٹی آئی رہنما فیاض الحسن چوہان نے میڈیا سے گفتگو میں کہا تھا کہ آج راولپنڈی میں چار مقامات پر مظاہرے کئے جائیں گے، لیکن بظاہر احتجاج کا دائرہ کار بڑھتا ہوا نظر آرہا ہے۔
شمس آباد میں ایک شخص احتجاجًا بجلی کے کھمبے پر چڑھ گیا اور مین ٹرانسمیشن لائن کے باعث بجلی کا جھٹکا لگنے سے چند سیکنڈز میں زمین پر آگرا، متاثرہ شخص کی حالت تشویشناک ہے۔
راولپنڈی کے مری روڈ، آئی جے پی روڈ، ڈبل روڈ اور فیض آباد کے درمیان مکمل ٹریفک جام ہے۔
آئی جے پی روڈ پر صوبائی وزیر محمد بشارت راجہ کی قیادت میں عمران خان پر قاتلانہ حملے کے خلاف احتجاج کیا جا رہا ہے۔
اس کے علاوہ پی ٹی آئی احتجاج کے پیشِ نظر ڈپٹی کمشنر راولپنڈی نے دو روز کے لئے شہر کے تعلیمی ادارے بند رکھنے کا اعلان کردیا، نوٹیفکیشن کے مطابق 8 اور 9 نومبر کو تمام تعلیمی ادارے بند رہیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: لانگ مارچ دوبارہ شروع کرنے کی تاریخ مزید آگے
دوسری جانب سابق وفاقی وزیر غلام سرور خان کی قیادت میں موٹروے پر احتجاج جاری ہے جس کی وجہ سے ٹھیلیاں کے مقام پر دونوں اطراف سے موٹروے کو ٹریفک کے لیے بند کر دی گیا ہے۔
گلزارِ قائد میں پرانے ایئرپورٹ روڈ پر احتجاج کے باعث سڑک دونوں اطراف سے بند کر دی گئی ہے، جبکہ جی ٹی روڈ ٹیکسلا میں احتجاج کے باعث مارگلہ چوک پر دونوں اطراف سے ٹریفک جام ہے۔
اس کے علاوہ جی ٹی روڈ پر روات کے مقام پر پی ٹی آئی کے احتجاج اور دھرنے کے باعث جی ٹی روڈ دونوں اطراف سے بند کر دی گئی ہے۔
پی ٹی آئی کے چئیرمین عمران خان کہہ چکے ہیں کہ وہ مارچ کے راولپنڈی پہنچنے پر وہاں سے اس کی قیادت کریں گے۔
پاکستان تحریک انصاف نے اپنا لانگ مارچ دوبارہ شروع کرنے کے لیے تاریخ میں مزید تبدیلی کردی ہے۔
لاہور میں پی ٹی آئی قیادت کا زمان پارک میں ایک اور مشاورتی اجلاس ہوا جس میں وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی، اسد عمر، شاہ محمود قریشی، یاسمین راشد سمیرت عمر سرفراز و دیگر رہنما شریک ہوئے۔
مشاورتی اجلاس میں بدھ کے روز ہونے والےحقیقی آزادی مارچ سے متعلق مشاورت، ایف آئی آر اور آزاری مارچ کے لئے سیکیورٹی پلان پر بات کی گئی۔
پی ٹی آئی اجلاس کے بعد نائب چیئرمین پی ٹی آئی شاہ محمود قریشی نے حقیقی آزادی مارچ کو مزید ایک دن آگے بڑھانے کا اعلان کردیا۔
شاہ محمود نے کہا کہ حقیقی آزادی مارچ بروز جمعرات دوپہر 2 بجے وزیر آباد سے ہی دوبارہ روانہ ہوگا جب کہ ہماری مکمل توجہ ایف آئی آر کے اندراج کی طرف ہے۔
اس سے قبل ایک ٹوئٹ میں فواد چوہدری نے مارچ سے متعلق اعلان کیا تھا کہ مارچ کل یعنی منگل کو شروع ہونے کے بجائے بدھ کو شروع کیا جائے گا تاہم اس تاریخ کو بعدِ ازاں تبدیل کرکے نئی تاریخ کا اعلان کردیا گیا ہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان پر حملے کی ایف آئی آر درج نہ ہونے سے متعلق آئی جی پنجاب کے بیان پر (ق) لیگ کے رہنما مونس الہیٰ نے الگ ہی موقف پیش کردیا۔
سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے آج عمران خان کیخلاف توہین عدالت کی سماعت کے دوران حملے کی ایف آئی آر 24 گھنٹے میں درج کرنے کا حکم دیا ہے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایف آئی آر درج نہ ہوئی توازخود نوٹس لیں گے۔
اس حوالے سے چیف جسٹس آف پاکستان چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی جانب سے مقدمہ درج نہ کیے جانے سے متعلق استفسار پر آئی جی پنجاب فیصل شاہکار کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ پنجاب سے بات کی، جنہوں نے کچھ تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
اس پر چیف جسٹس نے آئی جی پنجاب کو قانون کے مطابق کام کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے ریمارکس دیے تھے کہ عدالت آپ کے ساتھ ہے، آپ افسران سے تفتیش کروائیں جب تک عہدے پر ہیں کوئی آپ کے کام میں مداخلت نہیں کرے گا، کسی نے مداخلت کی تو عدالت اس کے کام میں مداخلت کرے گی۔
مونس الہیٰ نے اسی حوالے سے صحافی کی ٹویٹ کے جواب میں لکھا کہ، “ پولیس کو پولیس کی مدعیت میں پولیس کی مرضی کی FIR کرنے سے روکا۔“
آئی جی پنجاب کی جانب سے عدالت میں پنجاب حکومت کے حکم پر ایف آئی آر درج نہ کرنے کے بیان پر مونسس الہٰی نے لکھا، “ نامعلوم افراد پہ (مقدمہ) کرنے سے روکا ہے۔“
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ آج شام سات بجے گورنر ہاؤس لاہور کے باہر احتجاج کیا جائے گا۔
لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ کل ایک بجے وزیرآباد سے آزادی مارچ کا آغاز شہید کارکن کی فاتحہ سے ہوگا، جس میں زخمی کارکن احمد چٹھہ بھی ریلی میں شریک ہوگا۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پی ڈی ایم کے ایک رہنما نے وزیرآباد کے واقعے کو ڈراما کہا، معظم کی بیگم اور بچوں سے پوچھیں کہ واقعہ ڈراما تھا یا نہیں۔
انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کہہ رہی ہے کہ اللہ کی عدالت سے انصاف ملے گا، ہم حالات سے اتنے پرامید نہیں ہیں، ہم اپنا مقدمہ عوامی عدالت میں پیش کریں گے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ فیصل آباد میں شارٹ نوٹس پر احتجاج ہوا اور آج شام سات بجے گورنر ہاؤس کے سامنے مظاہرہ کیا جائے گا۔
شاہ محمود نے کہا کہ عمران خان راولپنڈی میں مارچ کی قیادت خود کریں گے۔
راولپنڈی میں پی ٹی آئی کے مری روڈ پرجاری احتجاج کے دوران فیاض الحسن چوہان نے کارکن کوتھپڑ دے مارا۔
کارکن کی جانب سے پیٹرول چھڑک کر ٹائرجلانے کے دوران چند چھینٹیں فیا ض الحسن چوہان پرپڑیں جس پرانہوں نے اشتعال میں آکرکارکن کو تھپڑ دے مارا۔
سوشل میڈیا پروائرل ویڈیومیں دیکھا جاسکتا ہے کہ تھپڑمارے جانے کے بعد کارکن غصے میں فیاض الحسن سے پوچھ رہا ہے کہ آپ نے ایسا کیوں کیا؟ ۔
مزید پڑھیے:پی ٹی آئی کارکنوں نے شمس آباد کے مقام پر مری روڈ بند کردیا
اس موقع پرفیاض الحسن اس کے گال پرتھپکی دیتے ہوئے واضح کرتے ہیں کہ ایسا آپ کی حفاظت کیلئے تھا کیونکہ پیٹرول سے آگ لگنے کا خطرہ تھا۔
کارکن کی جانب سے بحث کرنے پر فیاض الحسن وہاں سے روانہ ہوگئے۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری نے آج نیوز سے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ وزیرِ آباد سے مارچ کی قیادت شاہ محمود قریشی کے سپرد کردی گئی ہے، عمران خان راولپنڈی میں مارچ کو جوائن کریں گے۔
فواد چوہدری نے کہا کہ کراچی سے قافلوں کی قیادت علی زیدی کریں گے اور خیبرپختونخوا سے قافلوں کی قیادت پرویز خٹک کریں گے۔
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی کارکنوں نے شمس آباد کے مقام پر مری روڈ بند کردیا
شاہ محمود قریشی نے پریس کانفرنس میں کہا کہ کل ایک بجے شہید کارکن کی فاتحہ سے آزادی مارچ کا آغاز وزیرآباد سے ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ زخمی کارکن احمد چٹھہ بھی ریلی میں شریک ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں: حقیقی آزادی مارچ وزیرآباد سے دوبارہ شروع کرنے کا اعلان، عمران آن لائن خطاب کریں گے
گزشتہ روز چئیرمین پی ٹی آئی عمران خان نے اسپتال سے ڈسچارج ہونے سے پہلے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ مارچ وہیں سے شروع ہوگا جہاں رُکا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ راولپنڈی پہنچیں گے اور وہاں سے مارچ کی قیادت خود کریں گے۔
پشاور میں 3 نومبر کو تحریک انصاف کے مظاہرے کے خلاف ایف آئی آر درج کرلی گئی، پولیس نے ملزمان کی شناخت کے لئے نادرا سے رابط کیا ہے۔
پشاور کے ایس پی کینٹ اظہر خان نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ 3 نومبر کو پشاور میں خیبر روڈ پر پی ٹی آئی کی جانب سےکیے جانے والے احتجاج میں مظاہرین نے سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا تھا جس کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا۔
ایس پی کینٹ نے مزید بتایا کہ سی سی ٹی وی فوٹیج کے ذریعے ملزمان کی شناخت کا عمل جاری ہے اور ملزمان کی شناخت کے لئے نادرا سے رابط کیا ہے،مقدمے میں سرکاری املاک کو نقصان پہچانے کی دفعات شامل کی ہیں،قانون کے مطابق ملزمان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
وزارت داخلہ نے حقیقی آزادی مارچ کے دوران چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان پر فائرنگ کے واقعے پر پنجاب حکومت کو خط لکھ دیا۔
وزارت داخلہ نے چیف سیکرٹریز، ایڈیشنل چیف سیکرٹری اور آئی جی پنجاب کے نام خط لکھا ہے، جس میں ہائی پروفائل کیس میں مس ہینڈلنگ پر خدشات کا اظہار کیا گیا۔
خط میں کہا گیا ہے کہ 36 گھنٹے گزر جانے کے باوجود ایف آئی آر درج نہیں ہوئی، عمران خان کا میڈیکولیگل ٹیسٹ ابھی تک نہیں ہوا، اسلحے کے حوالے سے بھی کوئی اپڈیٹ نہیں ہے، کرائم سین کو بھی محفوظ نہیں کیا گیا، متاثرین کے زخموں کی نوعیت کے حوالے سے بھی کوئی معلومات نہیں۔
خط میں مزید کہا گیا ہے کہ پنجاب حکومت فوری طور پر درست تناظر میں کیس درج کرے۔
واضح رہے کہ 3 نومبر کو لانگ مارچ کے دوران وزیر آباد میں قاتلانہ حملے میں سابق وزیرِ اعظم عمران خان فائرنگ سے زخمی ہوگئے تھے۔
واقعے میں ایک شخص جاں بحق اور پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان و دیگر رہنماؤں سمیت 13 افراد زخمی ہوئے تھے۔
فائرنگ کرنے والے شخص نوید کو بعد میں کنٹینر کے قریب سے پکڑ لیا گیا تھا جس نے عمران خان پر فائرنگ کا اعتراف بھی کیا تھا۔
پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان پر قاتلانہ حملے کا مقدمہ اب تک درج نہیں ہو سکا ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے عمران خان توہین عدالت کیس کی سماعت کے دوران اعظم سواتی سے مکالمہ کیا اور کہا کہ سواتی صاحب آپ کی درخواست کا جائزہ لے رہے ہیں، معاملے کو قانون کے مطابق ہی دیکھا جائے گا۔
اعظم سواتی نے ججوں سے مکالمے کے دوران اور عدالت کے باہر صحافیوں سے گفتگو ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ان کی ویڈیو اصلی ہے، جعلی نہیں۔
یاد رہے کہ ایف آئی اے نے اعظم سواتی کی نازیبا ویڈیو کو جعلی قرار دیا تھا۔
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں عمران کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی، دوران سماعت پی ٹی آئی سینیٹر اعظم سواتی روسٹرم پر آگئے۔
چیف جسٹس نے اعظم سواتی سے مکالمہ کیا کہ سواتی صاحب آپ کا مقدمہ ہیومن رائیٹس سیل نے ٹیک اپ کیا ہوا ہے، آپ کی درخواست کا جائزہ لے رہے ہیں، معاملے کو قانون کے مطابق ہی دیکھا جائےگا۔
چیف جسٹس نے مکالمہ کیا کہ آپ کبھی سپریم کورٹ کے ریسٹ ہاؤس میں نہیں ٹھہرے، اس پر اعظم سواتی نے جواب دیا کہ جی آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں، میں کوئٹہ فیڈرل لاج میں ٹھہرا تھا۔
اعظم سواتی نے سوال کیا کہ کیا میں اپنی ویڈیو صرف سپریم کورٹ ججز کو دکھا سکتا ہوں ،جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کا ایچ آرسیل سارا معاملہ دیکھ رہا ہے، کہتے ہیں تو آج ہی آپ کو دوبارہ بلا لیتے ہیں، ضرورت ہوئی تو ضرور مداخلت کریں گے ۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ پیمرا اور پی ٹی اے کو مبینہ ویڈیو ہٹانے کا حکم دے دیتے ہیں، جس پر اعظم سواتی کا کہنا تھا کہ ہوسکتا ہے جوویڈیوہٹائی جائے وہ ویڈیو وہ نہ ہوجو مجھے بھیجی گئی۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے ارشد شریف قتل کیس کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ارشد شریف کے قتل پر ان کی والدہ کے خط پربھی ایچ آر سیل تحقیق کررہا ہے، قتل پرفیکٹ فائنڈنگ کمیشن کی رپورٹ کو دیکھیں گے، تحقیقاتی کمیشن معاملے کی تحقیق کے لئے کینیا گیا تھا، اس کمیشن سے رپورٹ منگوا رہے ہیں، سپریم کورٹ خود تحقیقات نہیں کرسکتی، پہلے مواد آجائے پھر معاونت میں آسانی ہوگی، مواد کے بغیر تو عدالت ادھر ادھر سر مارتی رہے گی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سواتی صاحب پتہ نہیں آپ کے کتنے دشمن ہوں گے، سچ جھوٹ کی تہوں کے نیچے دبا ہوا ہے، سواتی صاحب آپ کہہ رہے ہیں تویقینا اس کی وجہ ہوں گی۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور سینیٹراعظم سواتی نے تصدیق کی ہے کہ ان کی اہلیہ اور بیٹے کو بھیجی گئی ویڈیو اصلی ہے، تاہم اس میں چند چیزوں کا اضافہ کیا گیا ہے۔
سینیٹر اعظم سواتی نے سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ افواہ پھیلائی جارہی ہے کہ ویڈیو جعلی ہے، میری زبان جواب دے چکی ہے، یہ ویڈیو میری بیوی اور بیٹے کو بھیجی گئی ہے۔
پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ اس ویڈیو میں چند اضافی چیزیں ڈالی گئی ہیں، باقی وہ ویڈیو اصلی ہے، یہ ویڈیو کوئٹہ میں 2 راتوں کے دوران اس وقت بنائی گئی جب میں چیئرمین سینیٹ کا مہمان تھا۔
سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان پر حملے کی ایف آئی آر 24 گھنٹے میں درج کرنے کا حکم دے دیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایف آئی آردرج نہ ہوئی توسو موٹو لیں گے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہ میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کی۔
دورانِ سماعت سپریم کورٹ نے آئی جی پنجاب اور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو طلب کر لیا، عمران خان کے وکیل سلمان اکرم راجہ عدالت میں پیش ہوئے۔
عمران خان کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے عدالت کو حملے سے متعلق بتاتے ہوئے کہاکہ عمران خان کے ساتھ مختصرملاقات ہوئی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جمعرات کو تکلیف دہ مسئلہ ہوا،مزید وقت دینے کی استدعا درست لگی ہے۔
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ عمران خان کا جواب تیار ہے، عدالت کہے توجواب جمع کروا سکتا ہوں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 90گھنٹے گزر گئے لیکن مقدمہ درج نہیں ہوا، جس کے بغیرتفتیش کیسے ہوگی؟ ایف آئی آر کے بغیر تو شواہد تبدیل ہوسکتے ہیں ۔
عدالت کی جانب سے طلب کیے جانے پرآئی جی پنجاب لاہور رجسٹری سے ویڈیو لنک کے ذریعے پیش ہوئے۔
چیف جسٹس نے استفسارکیا کہ عمران خان حملے کی ایف آئی آرکیوں درج نہیں ہوئی ،ایف آئی آر اندراج میں اور کتنا وقت لگے گا، ہمیں وقت بتائیں ،درج مقدمہ نہ ہونے کی ٹھوس وجہ ہونی چاہیئے۔
آئی جی پنجاب فیصل شاہکار نے مؤقف اپنایاکہ واقعے کی ایف آئی آردرج کرنے کے لئے وزیراعلیٰ پنجاب سے بات کی، جنہوں نے کچھ تحفظات کا اظہار کیا ہے، واقعے میں ایک شخص کی شہادت ہوئی،لواحقین کی شکایت پر ایف آئی آردرج ہونی چاہیئے، پنجاب میں 4سال میں پنجاب میں 8 آئی جیز تبدیل ہوئے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ہمیں یہ نہ بتائیں کہ پولیس کے پاس کون کون سے آپشنزموجود ہیں، اس وقت ازخود نوٹس نہیں لے رہے، فوجداری نظام انصاف کی فراہمی ہماری اولین ترجیح ہے، پولیس کے قانون کے تحت اقدامات کوسپورٹ کریں گے۔
چیف جسٹس نے آئی جی پنجاب کو مخاطب کرتے ہوئے مزید کہاکہ قانون کے مطابق کام کریں، عدالت آپ کے ساتھ ہے، آپ افسران سے تفتیش کروائیں جب تک عہدے پرہیں کوئی آپ کے کام میں مداخلت نہیں کرے گا،کسی نے مداخلت کی توعدالت اس کے کام میں مداخلت کرے گی۔
سپریم کورٹ نےعمران خان پر حملے کی ایف آئی آر 24 گھنٹوں میں درج کرنے کا حکم دے دیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 24گھنٹے میں ایف آئی آردرج نہ ہوئی تو ازخود نوٹس لیں گے۔
عدالت نے عمران خان کو جواب جمع کرانے کے لئے ایک ہفتے کی مہلت دیتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔
سپریم کورٹ کے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے پی ٹی آئی رہنما شاہ محمود قریشی نے کہا کہ سپریم کورٹ کےفیصلےپرشکرگزارہیں،ہم چاہتے ہیں کہ فل الفورایف آئی آردرج کی جائے،مطمئن تب ہوں گے جب منشاء کے مطابق مقدمہ درج ہوگا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم پہلےہی درخواست دےچکےہیں،پولیس کواحکامات کی روشنی میں کارروائی کرنا چاہیئے،سپریم کورٹ کےحکم کونہیں ماناجاتاتوقانون کی حکمرانی نہیں رہےگی، ہماری جدوجہدقانون کی حکمرانی کے لئے ہے۔
پی ٹی آئی رہنما نے بتایا کہ آج دوپہر2بجےاجلاس بلایاہے اور3بجےپریس کانفرنس کریں گے۔
واضح رہے کہ 3 نومبر کو لانگ مارچ کے دوران وزیر آباد میں قاتلانہ حملے میں سابق وزیرِ اعظم عمران خان فائرنگ سے زخمی ہوگئے تھے۔
واقعے میں ایک شخص جاں بحق اور پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان و دیگر رہنماؤں سمیت 13 افراد زخمی ہوئے تھے۔
فائرنگ کرنے والے شخص نوید کو بعد میں کنٹینر کے قریب سے پکڑ لیا گیا تھا جس نے عمران خان پر فائرنگ کا اعتراف بھی کیا تھا۔
پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان پر قاتلانہ حملے کا مقدمہ اب تک درج نہیں ہو سکا ہے۔
پی ٹی آئی کا مطالبہ ہے کہ عمران خان پر قاتلانہ حملے کا مقدمہ تین افراد کے خلاف درج کیا جائے۔ یہ افراد وزیراعظم شہباز شریف، وزیرداخلہ رانا ثنا اللہ اور ایک اہم پوزیشن پر فائز ایک سینئر فوجی افسر ہیں۔
پنجاب حکومت اور پولیس کو شہباز شریف اور رانا ثنا اللہ کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے پر اعتراض نہیں تاہم ان کا کہنا ہےکہ سینئر فوجی افسر کا نام ایف آئی آر میں شامل نہ کیا جائے۔
تھانہ وزیرآباد کی پولیس نے پی ٹی آئی رہنماؤں کو بتایا تھا کہ اگروہ تیسرا نام نکال دیں تو فوری طور پر ایف آئی آر درج کر لی جائے گی۔ تاہم پی ٹی آئی اس کے لیے تیار نہیں ہوئی۔
چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے صدرِمملکت ڈاکٹر عارف علوی کوخط کرخود پرحملے کے ذمہ داروں کے محاسبے کا مظالبہ کردیا۔
خط میں ملک میں آئین و قانون کے انحراف کی راہ روکنے کیلئے اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کرنے والے چیئرمین پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ جب سے تحریک انصاف کی حکومت کو گرایا گیا ہے، قوم میری حقیقی آزادی کی پکار پر کھڑی ہوچکی ہے۔ ہمیں جھوٹے الزامات، حراسگی، بلاجواز گرفتاریوں حتیٰ کہ زیر حراست تشدد جیسے ہتھکنڈوں کا سامنا ہے۔
چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے خط میں صدر کو بتایا کہ وزیر داخلہ بار بار مجھے جان سے مارنے کی دھمکیاں دیتے رہے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف، وزیرِداخلہ رانا ثناءاللہ اور فوجی افسر کی جانب سے میرے قتل کا منصوبہ میرے علم میں لایا گیا۔ گزشتہ ہفتے ہمارے حقیقی آزادی مارچ کے دوران اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی گئی۔
عمران خان نےلکھا کہ بطور سربراہِ ریاست اور دستور کے آرٹیکل 243(2) کے تحت افواجِ پاکستان کے سپریم کمانڈر کے طور پر آپ سے قومی سلامتی سے جڑے ان معاملات کا فوری نوٹس لیتے ہوئے ذمہ داروں کے تعین کیلئے تحقیقات اور ان کے محاسبے کا مطالبہ کیا۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے مزید کہا کہ بطور وزیراعظم میرے، آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کے مابین گفتگو میڈیا کو جاری کرکے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دھجیاں اڑائی گئیں لیکن سنجیدہ ترین سوال پیدا ہوتا ہے کہ وزیراعظم کی محفوظ گفتگو پر نقب لگانے کا ذمہ دار کون ہے جبکہ وزیراعظم کی محفوظ لائن پر یہ نقب قومی سلامتی پر اعلیٰ ترین سطح کا حملہ ہے۔
انہوں نے لکھا کہ امریکا سے ہمارے سفیر نے حکومت تبدیل کرنے کی دھمکی پر مشتمل خفیہ مراسلہ بھجوایا، میری وزارتِ عظمیٰ کے دوران اس مراسلے پر قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں واضح فیصلہ کیا گیا کہ یہ ہمارے اندرونی معاملات میں ناقابلِ قبول مداخلت ہے۔ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے فیصلے کے تحت دفترِ خارجہ نے امریکی سفیر کو احتجاجی مراسلہ (ڈی مارش) دینے کا فیصلہ کیا۔
خط میں مزید لکھا گیا ہے کہ شہبازشریف کے دورِ حکومت میں منعقد ہونے والے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں اس اجلاس کی کارروائی/فیصلوں کی توثیق کی گئی، 27 اکتوبر کو آئی ایس پی آر اور آئی ایس آئی کے ڈی جیز نے مشترکہ پریس کانفرنس میں قومی سلامتی کمیٹی کے دونوں اجلاسوں کے فیصلوں سے یکسرمتضاد نکتۂ نظر اپنایا ۔
عمران خان کے مطابق سوال پیدا ہوتا ہے کہ دو فوجی افسران کیونکر کھلے عام قومی سلامتی کمیٹی کے فیصلوں کو جھٹلا سکتے ہیں اور ان فوجی افسران کی جانب سے جان بوجھ کر غلط بیانیے کی تخلیق کی کوشش کا سنجیدہ ترین معاملہ بھی پیدا ہوتا ہے۔
انہوں نے لکھا کہ اس حوالے سے قابلِ غور اور جواب طلب دو اہم ترین سوالات بھی جنم لیتے ہیں۔ اوّل یہ کہ پاکستان کی سب سے بڑی خفیہ ایجنسی کا سربراہ پریس کانفرنس سے مخاطب ہو کیسے سکتا ہے۔ دوسرا سوال عسکری افسران کیسے مکمل طور پر ایک سیاسی پریس کانفرنس میں وفاقِ پاکستان کی سب سے بڑی اور واحد سیاسی جماعت کے سربراہ کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔
عمران کان نے خط میں کہا کہ عسکری ادارے کے ترجمان آئی ایس پی آر کے حدودِ کار کو دفاعی و عسکری معاملات پر معلومات کے اجراء تک محدود کرنے کی ضرورت ہے اور افواجِ پاکستان کے سپریم کمانڈر کے طور آپ سے التماس ہے کہ آپ آئی ایس پی آر کی حدودِ کار کے تعین کے عمل کا آغاز کریں۔
چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے لاہور میں اپنی رہائش گاہ پر پارٹی رہنماؤں کا اجلاس طلب کرلیا ہے۔
ذرائع کے مطابق اجلاس میں کل دوبارہ شروع ہونے والے حقیقی آزادی مارچ کے حوالے سے مشاورت کی جائے گی۔
اجلاس میں فیصلہ آج کیا جائے گا کہ حقیقی آزادی مارچ کی راولپنڈی تک قیادت کون کون کرے گا جبکہ عمران خان سے تحریک انصاف کی لیگل ٹیم بھی ملاقات کرے گی۔
اس کے علاوہ شوکت خانم اسپتال کی میڈیکل ٹیم بھی عمران خان کا دوبارہ معائنہ کرے گی جبکہ ٹیم نے چیئرمین پی ٹی آئی کو مزید 10دن آرام کی ہدایت کی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے حقیقی آزادی مارچ پر حملے کے دوران 14زخمی افراد میں سے نظام آباد کا رہائشی 13سالہ اریب بھی شامل ہے۔
13سالہ اریب شکیل وزیرآباد کے علاقہ نظام آباد کا رہائشی اور 8 ویں جماعت کا طالب علم ہے، وہ عمران خان کا شیدائی ہے، 3 نومبر کو عمران خان کے وزیرآباد میں پہنچنے والے حقیقی آزادی لانگ مارچ کے موقع پر خوب تیار ہو کر اللہ والا چوک پہنچ گیا جہاں کنٹینر پر ہونے والے حملے کے نتیجے میں اندھی گولی کا شکار ہو کر زخمی ہو گیا، گولی اریب کے پیٹ میں ایک جانب سے داخل ہو کر دوسری جانب نکل گئی۔
اریب کی والدہ کا کہنا ہے کہ اریب نے اسے اسپتال میں بتایا کہ عمران خان نے حملے سے پہلے اسے دیکھ کر 2بار وکٹری کا نشان بنایا جبکہ اریب کی بہن کا کہنا ہے کہ اریب عمران خان کو بہت پسند کرتا ہے۔
اریب ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتال گوجرانوالہ میں زیرعلاج ہے، اس کے اہلخانہ شکوہ کررہے ہیں کہ اریب عمران خان سے جنون کی حد تک محبت کرتاہے لیکن مرکزی اور مقامی قیادت میں سے کسی نے اریب کا حال تک نہیں پوچھا۔
اریب کے اہلخانہ نے مطالبہ کیا ہے کہ اسے بہترین طبی سہولیات فراہم کی جائیں اور کپتان سے ملوایا جائے اور اسے تعلیمی وظائف سے نوازا جائے۔
پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی جانب سے لانگ مارچ دوبارہ شروع کرنے کے اعلان کے بعد اسلام آباد میں ایک بار پھر خبروں اور افواہوں کا بازار گرم ہوگیا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ ایک اہم ملاقات ناکام ہونے کے بعد پی ٹی آئی چیئرمین نے مارچ دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور یہ کہ اس کا تعلق رواں ماہ ہونے والی ایک اہم تعیناتی سے ہے۔
گذشتہ ہفتے عمران خان پر حملے کے بعد لانگ مارچ معطل ہوگیا تھا۔ حملے کے بعد اپنے پہلے خطاب میں عمران خان کا کہنا تھا کہ وہ صحت یاب ہونے کے بعد سڑکوں پر نکلیں گے تاہم اتوار کو انہوں نے کہاکہ مارچ منگل سے دوبارہ شروع ہوگا اور دس بارہ دن میں راولپنڈی پہنچے گا جہاں سے وہ اس کی قیادت شروع کریں گے۔
اسلام آباد میں معاملات سے باخبر لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ اعلان ایک اہم ملاقات کی ناکامی کے بعد کیا گیا ہے جس میں پی ٹی آئی کی جانب سے صدر عارف علوی شریک تھے۔
اینکرپرسن عاصمہ شیرازی نے اپنے ایک وی لاگ میں کہا ہے کہ اب یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ عمران خان کے مارچ کا تعلق آرمی چیف کی تعیناتی سے ہے اور مارچ ان تاریخوں میں اسلام آباد پہنچے گا جب نئے آرمی چیف کی تعیناتی ہونی ہے۔ نئے انتخابات کا مطالبہ عمران خان تقریباً بھول چکے ہیں۔
عاصمہ شیرازی کا دعویٰ ہے کہ ”ممکنہ طور پر، مینہ طور پر کسی شخصیت کے پیغام پر ہی لانچ کیا جا رہا ہے لانگ مارچ کو۔“
عاصمہ کے بقول حکومت حالیہ دنوں نئے آرمی چیف کا اعلان کرنے والی تھی لیکن فوری طور پر اعلان اس وجہ سے نہیں کیا گیا کہ تاثر بنے گا کہ شاید حکومت مارچ کی وجہ سے دباؤ میں آگئی ہے۔ اب تعیناتی 27 نومبر کے لگ بھگ ممکن ہے۔
پی ٹی آئی کے ہدف پر موجود سینئر فوجی افسر کون ہے
ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ مارچ کے ذریعے پی ٹی آئی اس اہم تعیناتی میں اپنی رائے شامل کرانا چاہتی ہے ۔
کئی دیگر تجزیہ کاروں کا بھی کہنا ہے کہ لانگ مارچ دوبارہ شروع کرنے کا تعلق اس اہم تعیناتی کے سوا کسی چیز سے نہیں۔
حتیٰ کہ پی ٹی آئی کے بعض سوشل میڈیا حامی بھی کہہ رہے کہ پارٹی کی جانب سے اس معاملے پر واضح موقف کیوں نہیں اپنایا جا رہا۔
عمران خان اپنے اوپر ہونے والے قاتلانہ حملے کی ایف آئی آر اپنی مرضی سے درج کرانا چاہتے تھے اور جب اس میں شامل ایک نام خارج کیے بغیر ایف آئی آر درج کرنے سے پنجاب پولیس نے انکارکیا تو پی ٹی آئی نے اس معاملے کو بھی ایک مخصوص رنگ دے دیا ہے۔
وزیرآباد سے منگل کو شروع ہونے والا مارچ 18 سے 20 تاریخ کے درمیان اسلام آباد کے قریب پہنچنے کی توقع کی جا رہی ہے۔ خیبرپختونخواہ سے آنے والے پی ٹی آئی کے کارکن اس دوران اسلام آباد کے راستے بند کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ پنجاب میں بھی پی ٹی آئی کی حکومت ہے۔
نجی ٹی وی کو انٹرویو میں پرویز خٹک نے جو بتایا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی خاصی تعداد میں کارکن خیبرپختونخوا سے اسلام آباد لانے کا ارادہ رکھتی ہے۔
پرویز خٹک کے مطابق خیبر پختونخوا کو چار ریجن میں تقسیم کیا گیا ہے، جنوبی اضلاع میں ڈی آئی خان تک لانگ مارچ کی قیادت علی امین گنڈاپورکریں گے، مالاکنڈ ڈویژن میں مراد سعید اور ہزارہ میں لانگ مارچ کی قیادت اسدقیصر اور شاہ فرمان سمیت پرویز خٹک خودکریں گے۔
وزیرآباد سے آنے والا مارچ جی ٹی روڈ کے ذریعے اسلام آباد کے قریب روات تک پہنچے گا۔ یہاں سے اسلام آباد ایکسپریس وے کے ذریعے سیدھا فیض آباد پہنچا جا سکتا ہے۔ تاہم پی ٹی آئی نے اکتوبر میں مارچ شروع کرتے وقت جو روٹ دیا تھا اس کے مطابق مارچ پہلے راولپنڈی آئے گا اور پھر مری روڈ کے راستے اسلام آباد میں داخل ہوگا۔
حالیہ دنوں وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الہیٰ اور پنجاب پولیس نے ایف آئی آر کے معاملے پر عمران خان کا ایک حد سے زیادہ ساتھ نہیں دیا۔ راولپنڈی میں مارچ اور پی ٹی آئی کارکنوں کی نقل و حرکت پر پنجاب پولیس اورانتظامیہ کیا کرتی ہے یہ دیکھنا باقی ہے۔
پاکستان تحریک انصآف نے آج (پیر کی) شب سے اسلام آباد کے داخلی راستے بند کرنے کا اعلان کردیا ہے جس پر اسلام آباد پولیس الرٹ ہوگئی ہے اور اسلام آباد میں مقیم باہر سے آئے پی ٹی کارکنوں کی گرفتاری کا اعلان کردیا ہے۔
اسلام آباد پولیس کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعت کے رہنماؤں نے راستے مسدود کرنے کااعلان کیا ہے۔ اگلے دو ہفتے تک شہریوں، طلبا اورمریضوں کومشکلات کاسامناکرناپڑسکتاہے، سندھ اورایف سی کی نفری اسلام آبادطلب کی جارہی ہے۔
پی ٹی آئی کی جانب سے اسلام آباد کے راستوں کی بندش کا اعلان پرویز خٹک نے کیا۔ نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ پارٹی کارکن پیر کی رات سے اسلام آباد کے داخلی و خارجی راستے بند کریں گے اور منگل سے خیبرپختونخوا کے تمام اضلاع میں لانگ مارچ شروع ہوگا۔
یاد رہے کہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے وزیرآباد سے منگل کو مارچ دوبارہ شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔
حقیقی آزادی مارچ وزیرآباد سے دوبارہ شروع کرنے کا اعلان، عمران آن لائن خطاب کریں گے
اسی دوران اتوار کی شب اسلام آباد پولیس کی جانب سے جاری دو بیانات میں کہا گیا ہےکہ ”سیاسی جماعت کے رہنماؤں نے اسلام آباد آمد و رفت کے راستے مسدود کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اسلام آباد کے شہریوں ، طلباء اور مریضوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ سفر شروع کرنے سے پہلے شاہراہوں کی تازہ ترین صورتحال جاننے کےلئے پکار 15 پر کال کریں۔“
بیان میں مزید کہا گیا کہ ”اسلام آباد میں بلا اجازت احتجاج کرنے والوں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ جن سیاسی کارکنان کی شناخت کی جاچکی اور مقدمات درج ان کی گرفتاری کے لیے اسلام آباد کیپیٹل پولیس کارروائی کررہی ہے۔“
اسلام آباد پولیس نے کہاکہ اسلام آباد انٹرنیشنل ائیرپورٹ سے آنے والے قومی اور بین الاقوامی مہمانوں کےلیے راستے کھلے رکھے جائیں گے۔ ائیر پورٹ کےلیے بلا رکاوٹ آمد و رفت قومی تشخص کےلیے اہمیت کی حامل ہے۔وفاقی قانون نافذ کرنے والے ادارے ائیرپورٹ اور موٹر وے تک آمد و رفت کے راستوں کی نگرانی کریں گے۔
پولیس نے یہ بھی کہا کہ تمام سیاسی احباب سے گذارش ہے کہ انتظامیہ سے اجازت کے ساتھ مختص مقام پر احتجاج کریں۔ عوام سے گذارش ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں سے تعاون کریں۔ کسی بھی شر پسندانہ سرگرمی اور افراد کی اطلاع پکار 15 پر دیں۔
اسلام آباد پولیس نے کہاکہ ”اگلے دوہفتوں میں عوام کوممکنہ درپیش مشکلات پرمعذرت خواہ ہیں۔متوقع امن عامہ کے پیش نظرعوام کورکاوٹیں درپیش آسکتی ہیں۔“
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے منگل سے دوبارہ لانگ مارچ شروع کرنے کا اعلان کردیا ہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ وزیرآباد میں جہاں مجھے گولیاں لگیں مارچ وہیں سے شروع ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ آئندہ 10 سے 15 روز میں راولپنڈی پہنچیں گے، شاہ محمود قریشی جی ٹی روڈ پر مارچ کو لیڈ کریں گے، میں ہر روز مارچ سے خطاب کروں گا اور مارچ 14 دن میں پنڈی پہنچے گا، میں خود راولپنڈی آؤں گا، پورے ملک سے لوگ آئیں گے، راولپنڈی پہنچ کر مارچ کو میں خود لیڈ کروں گا۔
پی ٹی آئی رہنما یاسمین راشد نے بعد میں بتایا کہ عمران خان روزانہ آن لائن مارچ سے خطاب کریں گے۔
پریس کانفرنس میں عمران خان نے کہا کہ میں اپنی پارٹی اور قوم سے تین ایشوز پر بات کرنا چاہتا ہوں، تین دن ہوگئے ہیں پنجاب میں ہماری حکومت ہے ایف آئی آر درج نہیں کرا پائے، ایف آئی آر درج کرانا میرا حق ہے، تفتیش ہوگی تو سب پتہ چلے گا، یہ کیسے ہو سکتا ہے ہماری اپنی پولیس منع کررہی ہے۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ میں سب سے بڑی سیاسی جماعت کا سربراہ ہوں، میں سابق وزیر اعظم رہ چکا ہوں، میں اپنی ایف آئی آر درج نہیں کراسکتا تو عام آدمی کا کیا ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ ابھی ایف آئی آر بھی نہیں کٹی کہ سوشل میڈیا پر ٹوئٹس آنی شروع ہوگئیں، مجھ پر حملے کے بعد ایک کے بعد ایک جھوٹ بولا گیا، مجھ پر حملے کے بعد چھ بجکر ایک منٹ پر پہلی ٹوئٹ آتی ہے، وقار ستی کی چھ بجکر دو منٹ پر ٹوئٹ آئی، حامد میر چھ بجکر تین منٹ، نجی چینل کی چھ بجکر چار منٹ پر ٹوئٹ آئی۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ پولیس اور حکومت ہماری اور گرفتار ملزم کی ویڈیو بنا کر لیک کرتی ہے ، آئی جی سے جب پوچھا کیسے ملزم کی ویڈیو لیک ہوئی تو کہتا ہے کہ یہ ہیک ہوگئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پہلے ایک ویڈیو نکلتی ہے جس میں کہا گیا مذہب کی توہین کرتا ہوں، وہ ویڈیو کہاں سے نکلتی ہے، کون نکالتا ہے تحقیقات ہونی چاہئیں۔
عمران خان نے کہا کہ مجھے پتہ ہے انہوں نے سلمان تاثیر کی طرح مجھے قتل کرنا ہے، میرے خلاف مذہبی اشتعال انگیزی کی گئی، کسی نے ایکشن نہیں لیا۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ جن تین کے نام لیے ان کے ہوتے ہوئے شفاف تحقیقات نہیں ہوسکتیں، تین لوگ استعفا دیں تاکہ شفاف تحقیقات ہوسکیں، جس پر الزام لگا اس کے ماتحت شفاف انکوائری کیسے ہوگی؟
انہوں نے کہا کہ تفتیش ہوگی تو پتہ چلے گا کہ اس سب میں کون ملوث ہے، مجھے یقین ہے ان تین لوگوں نے سب کچھ کیا ہے۔
عمران خنا نے مزید کہا کہ مریم صفدر، مریم اورنگزیب، جاوید لطیف سے پریس کانفرنسز کس نے کرائیں، پریس کانفرنس میں کہا گیا میں نے مذہبی توہین کی۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ اعظم سواتی کو برہنہ کر کے تشدد کیا گیا، سب سے زیادہ شرمناک اعظم سواتی کی اہلیہ کو ویڈیو بھیجنا ہے، اعظم سواتی کی ویڈیو جعلی نہیں، کوئٹہ میں بنائی گئی۔
عمران خان نے کہا کہ چیف جسٹس اعظم سواتی کی ویڈیو کا نوٹس لیں، اعظم سواتی ویڈیو کے معاملے کی تحقیقات ہونی چاہئیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اعظم سواتی نے فون کر کے کہا وہ سپریم کورٹ کے باہر دھرنا دیں گے، اعظم سواتی انصاف فراہم کرنے کا مطالبہ کریں گے، پی ٹی آئی سینیٹرز، وکلاء اعظم سواتی کے ساتھ کورٹ کے باہر بیٹھیں گے۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ وزیراعظم کے جوڈیشل کمیشن کے اعلان کا خیرمقدم کرتا ہوں، جوڈیشل کمیشن ارشد شریف قتل کیس کی تحقیقات کرے، ارشد شریف ملک چھوڑنے اور دبئی سے نکلنے پر کیوں مجبور ہوا۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ ارشد شریف نے سب لوگوں کو بتایا ہوا ہے کہ ملک کیوں چھوڑا۔ ان کی والدہ، صحافیوں کو پتہ تھا ارشد شریف کو کس سے خطرہ ہے۔
عمران خان نے مزید کہا کہ بات کی جارہی ہے کہ اس طرح کے سائفر تو آتے رہتے ہیں، چیف جسٹس صاحب آپ کے پاس سائفر آیا ہوا ہے، چیف جسٹس صاحب تحقیقات کرائیں سازش تھی یا نہیں، پوری قوم عدلیہ کی طرف دیکھ رہی ہے۔