برادری میں شادی اسقاط حمل اور بچوں میں دل اور دماغی بیماریوں کی وجہ قرار
ایشیا کے مختلف ممالک میں اندرونی شادیوں کا رواج عام ہے، جہاں لوگ اپنے ہی خاندان، کمیونٹی یا ذات کے افراد سے شادی کرتے ہیں۔
اس روایتی عمل کو ”اینڈوگامی“ کہا جاتا ہے، جو خاص طور پر جینیاتی بیماریوں کے پھیلاؤ کا باعث بنتا ہے۔
اندرونی شادیوں کی وجہ سے یہ بیماریوں نسل در نسل منتقل ہوتی ہیں، کیونکہ ایک ہی جینیاتی عوامل والے افراد میں شادی کرنے سے بیماریوں کی وراثت کا امکان بڑھ جاتا ہے۔
سگریٹ کی وہ پیکنگ، جس نے اسے نشے سے فیشن اسٹیٹمنٹ بنا دیا
خصوصاً ”قریبی رشتہ داروں سے شادی“ ایک عام رواج ہے، جو جنوبی ایشیا میں زیادہ پایا جاتا ہے اس عمل کے نتیجے میں دل کی بیماریوں، جوڑوں کی سوزش، اور دیگر جینیاتی بیماریوں کا خطرہ بڑھتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس عمل کی وجہ سے کئی جینیاتی بیماریوں کی نئی شکلیں سامنے آئی ہیں۔
بھارت کے بے تہاشہ تہوار کاروباریوں کو کھٹکنے لگے، انتہا پسندوں کی تنقید
ڈاکٹر پالانیپن مانیکم، کنسلٹنٹ گیسٹرو اینٹرولوجسٹ نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ”اگر دونوں والدین میں کسی بیماری کا جین موجود ہو، تو وہ جینیاتی بیماری بچوں میں منتقل ہو سکتی ہے، چاہے والدین میں اس بیماری کے آثار نہ ہوں۔“ اس طرزِ عمل کی وجہ سے خاص جینیاتی بیماریوں میں تبدیلیاں آ رہی ہیں، جو نسلوں کے لیے خطرہ بن سکتی ہیں۔
اس بڑھتے ہوئے خطرے کے پیشِ نظر، ماہرین اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ عوام میں اینڈوگامی کے مضر اثرات کے بارے میں شعور پیدا کیا جائے۔
والدین، نوجوانوں، اور برادری کے بڑوں کو یہ سمجھانا ضروری ہے کہ کمیونٹی سے باہر شادی نہ صرف صحت مند نسل کے لیے مفید ہے بلکہ اس سے معاشرتی ہم آہنگی بھی فروغ پاتی ہے۔
ڈاکٹروں کی رائے کے مطابق، شادی سے پہلے جینیاتی سکریننگ، یعنی جینیاتی معلومات کا تجزیہ، ممکنہ خطرات کو پہلے ہی ظاہر کر سکتی ہے۔ اس سے قبل از وقت بیماریوں کی تشخیص اور ان کے لیے بہتر علاج کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
مشاورتی مراکز اور اسپتالوں میں جینیاتی مشاورت کا عمل عام کیا جانا چاہیے تاکہ خاندانوں کو علمی اور سائنسی بنیادوں پر درست فیصلے کرنے میں مدد ملے۔
بھارتی جینیاتی منصوبے کے سربراہ، ڈاکٹر کماراسوامی تھانگرج کے مطابق، ہم نے کچھ ایسی جینیاتی تبدیلیاں دریافت کی ہیں جو مخصوص بیماریوں کا سبب بنتی ہیں۔ اگر ہم ان جینز کو شناخت کر لیں تو کم خرچ اور مؤثر طریقے سے ان بیماریوں کی تشخیص ممکن ہو سکتی ہے۔
ڈاکٹر تھانگرج مزید کہتے ہیں کہ جینیاتی تحقیق سے حاصل شدہ ڈیٹا نہ صرف بیماریوں کے سدِباب میں مددگار ہے بلکہ اس سے ذاتی نوعیت کی ادویات بھی تیار کی جا سکتی ہیں، جو ہر فرد کی جینیاتی ساخت کے مطابق کام کرتی ہیں۔
اینڈوگامی سے پیدا ہونے والے طبی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے، صرف سائنسی تحقیق کافی نہیں۔ ہمیں معاشرتی رویوں میں بھی تبدیلی لانا ہوگی۔
کمیونٹی سے باہرشادیوں کی حوصلہ افزائی، جینیاتی سکریننگ کا فروغ، اور عوامی سطح پر آگاہی مہمات اس مسئلے کے پائیدار حل کی جانب پہلا قدم ہیں۔
اس سلسلے میں حکومت، طبی اداروں، اور تعلیمی حلقوں کو مشترکہ طور پر کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ایک صحت مند، محفوظ اور ترقی یافتہ معاشرہ قائم ہو سکے۔
Comments are closed on this story.