ثناء اللہ خان مستی خیل کے خلاف کارروائیوں پر احتجاج، پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے ارکان کا اجلاس منعقد کرنے سے انکار
پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کا اجلاس چیئرمین جنید اکبر خان کی صدارت میں منعقد ہوا، جو کسی آڈٹ اعتراض پر غور کیے بغیر ہی رکن قومی اسمبلی ثناء اللہ مستی خیل کے خلاف مبینہ انتقامی کارروائی کے خلاف احتجاج کے باعث ختم کر دیا گیا۔ اراکین نے اجلاس کا بائیکاٹ کرتے ہوئے کہا کہ اگر عوامی نمائندے ہی محفوظ نہیں تو پارلیمان کا کوئی فائدہ نہیں۔
ثناء اللہ خان مستی خیل نے انکشاف کیا کہ انہوں نے گزشتہ دنوں واپڈا میں موجود ایک جنرل کے کردار پر سوال اٹھایا تھا، جس کے فوراً بعد ان کے گاؤں سے واپڈا اہلکار ان کا میٹر اور ٹرانسفارمر اکھاڑ کر لے گئے۔ چیئرمین جنید اکبر خان نے اس واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ’اگر یہی رویہ رکھا جائے گا تو پی اے سی کا اجلاس جاری رکھنا ممکن نہیں۔‘
اجلاس میں موجود خواجہ شیراز محمود نے کہا، ’جو بھی فیصلہ ہو، ہم ثناء اللہ خان مستی خیل کے ساتھ کھڑے ہیں۔‘
کمیٹی ممبر سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ ’یہ قابل قبول نہیں ہے، سیشن احتجاج میں نہیں کرنا چاہئے، آپ کو اسپیکر کو لکھنا چاہئے۔‘
رکن اسمبلی حنا ربانی کھر نے کہا، ’اگر ممبر کے سوال اٹھانے پر ایسے ردعمل آئیں گے تو پھر ہمیں اپنے کام کرنے چاہئیں، نہ کہ پارلیمان میں بیٹھیں۔‘
نوید قمر نے معاملے کی سنگینی کو محسوس کرتے ہوئے کہا، ’بالکل، اس معاملے کو اسپیکر کے ساتھ فوری اٹھایا جانا چاہئے۔‘
ثناء اللہ خان مستی خیل نے جذباتی انداز میں کہا، ’ہم پاکستان کے وفادار ہیں، میں 22، 23 سال سے پارلیمان میں ہوں، اگر کسی کو اعتراض ہے تو میرے گھر کو گرا کر ویڈیو بنا لیں، مگر ہم دباؤ میں نہیں آئیں گے۔‘
نوید قمر نے اس واقعے کو صرف ایک فرد کا مسئلہ نہیں بلکہ پورے ایوان کی توہین قرار دیتے ہوئے کہا، ’ایک پہ حملہ، سب پہ حملہ ہے۔‘
سینیٹر افنان اللہ خان نے کہا، ’میں بھی اس کی شدید مذمت کرتا ہوں، اس کے خلاف ایکشن لیا جانا چاہئے۔‘
جبکہ حنا ربانی کھر نے اس کارروائی کو ’غنڈہ گردی‘ قرار دیتے ہوئے سخت الفاظ میں احتجاج کیا۔
صورتحال کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے چیئرمین جنید اکبر خان نے اعلان کیا، ’میں سیکرٹری کو فوری بلا لیتا ہوں۔‘
بعدازاں، پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کے چیئرمین جنید اکبر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حالیہ واقعہ صرف پی اے سی نہیں بلکہ پارلیمنٹ اور جمہوریت پر حملہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پوری کمیٹی نے اس واقعے کی شدید مذمت کی ہے۔
جنید اکبر نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’کل ایک جنرل صاحب ناراض ہوئے، اس کا فیسکو سے براہ راست کوئی تعلق نہیں تھا۔ دراصل یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو پسِ پردہ ہوتے ہیں اور نامعلوم رہتے ہیں، انہی کے کہنے پر معلوم لوگ کام کرتے ہیں۔‘
چیئرمین پی اے سی کا کہنا تھا کہ آج انہوں نے سیکریٹری پاور کو طلب کیا ہے جبکہ کل فیسکو چیف کو بھی طلب کیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ماضی میں ہم سے بھی غلطیاں ہوئی ہوں گی لیکن اب ہم اسپیکر سے گزارش کریں گے کہ تمام فریقین کو ساتھ لے کر پارلیمنٹ کو مزید مضبوط کیا جائے۔‘
دوسری جانب پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے رکن ثناء اللہ مستی خیل نے بھی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ نہ تو نادہندہ ہیں اور نہ ہی پاکستان کے خلاف کوئی اقدام کیا ہے۔ انہوں نے کہا، ’بطور پی اے سی ممبر میرا فرض ہے کہ بلاامتیاز احتساب کروں۔‘
ثناء اللہ مستی خیل نے واضح کیا کہ احتساب اور شفافیت کے لیے وہ آئندہ بھی سوالات اٹھاتے رہیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’بجلی کا میٹریل یا ٹرانسفارمر کوئی بڑا مسئلہ نہیں، لیکن سوال پر جو ردعمل آیا، وہ دراصل پارلیمنٹ کی توہین ہے۔‘
ادھر ترجمان واپڈا نے معاملے پر وضاحت جاری کر دی، کہا کہ بجلی کی ترسیل اور تقسیم این ٹی ڈی سی اور پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کی ذمہ داری ہے۔ کسی مقام پر میٹر اور ٹرانسفارمر لگانا یا اتارنا واپڈا کے دائرہ اختیار میں نہیں۔