جاپان میں زیر سمندر 12 ہزار سال پرانا اہرام دریافت
جاپان کے ساحل کے قریب ایک پُراسرار 90 فٹ بلند زیرِ آب پتھریلا اہرام دریافت ہوا، جس نے ساری دنیا میں حیرت، بحث اور تجسس پیدا کردیا۔
اس قدیم ڈھانچے کی موجودگی موجودہ تاریخی معلومات کو چیلنج کر سکتی ہے اور انسانی تہذیب کی کہانی کو نئے سرے سے لکھنے پر مجبور کر سکتی ہے۔
سمندر کی سطح سے 82 فٹ نیچے، ریؤکیو جزائر کے قریب موجود یوناگونی یادگارنے 1986 میں دریافت ہونے کے بعد سے سائنسدانوں اور غوطہ خوروں کو حیرت میں ڈال رکھا ہے۔
دنیا کے سب سے بڑے یوٹیوبر کا اہرام مصر کرائے پر لینے کا دعویٰ، حکومت کے طوطے اُڑ گئے
اس دیوہیکل پتھریلی ساخت میں تیز دھار سیڑھیاں اور ہموار چھتیں شامل ہیں، جو ایک قدیم مندر کے کھنڈرات سے حیرت انگیز مشابہت رکھتی ہیں، حالانکہ یہ ڈھانچہ 10,000 سال سے بھی پرانا ہے۔
اگر یہ تخمینہ درست ثابت ہوتا ہے، تو یہ یادگار مصر کے اہراموں اور انگلینڈ کے اسٹون ہینج سے بھی ہزاروں سال قدیم ہوگی اور ممکنہ طور پر انسانوں کے ہاتھوں تعمیر کی گئی سب سے قدیم معلوم عمارت کہلائے گی۔
اہرامِ مصر کے اوپر سے گزرتے سیٹلائٹس بند کیوں ہوجاتے ہیں، گتھی سلجھ گئی
اس نظریے کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یوناگونی کی یہ ساخت جسے بعض لوگ ”جاپان کا اٹلانٹس“ بھی کہتے ہیں، کسی بھولی بسری تہذیب کا ثبوت ہو سکتی ہے جو زراعت کے آغاز سے بھی پہلے کی ہے۔ اگر یہ سچ ہو، تو یہ انسانی ترقی کی تاریخ کو ازسرِنو لکھنے پر مجبور کر دے گا۔
یہ یادگار جسے آج ’یوناگونی مونیومنٹ‘ کہا جاتا ہے، پہلی مرتبہ 1986 میں دریافت ہوئی تھی۔ یہ جاپان کے ریوکیو جزائر کے ساحل سے تقریباً 82 فٹ گہرے پانی میں واقع ہے۔ اس کی لمبائی تقریباً 50 میٹر اور چوڑائی 20 میٹر ہے جبکہ یہ اندازاً 90 فٹ بلند ہے۔
اہرامِ مصر کی چوٹی پر چڑھنے والے کتے کیساتھ کیا ہوا؟
اس کی سیڑھیوں کی مانند واضح زاویوں والی ساخت نے ماہرین کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا ہے، جو اس کے انسانی تخلیق ہونے کے امکانات پر غور کر رہے ہیں۔
یہ مقام ’جاپان کی اٹلانٹس‘ کے نام سے بھی مشہور ہے، کچھ سائنس دان اسے قدرتی چٹانی ساخت قرار دیتے ہیں جبکہ دوسروں کا کہنا ہے کہ ایسی منظم ہندسی اشکال فطرت کی تخلیق نہیں ہو سکتیں۔
پتھر کے تجزیے سے پتا چلتا ہے کہ یہ یادگار 10 ہزار سال سے بھی قدیم ہے۔ اگر یہ واقعی انسانوں کی تخلیق ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ اسے اُس وقت تعمیر کیا گیا تھا جب یہ علاقہ سمندر برد نہیں ہوا تھا، یعنی موجودہ سمندر برد ہونے سے تقریباً 12 ہزار سال قبل۔
عام طور پر ماہرین کا ماننا ہے کہ اس نوعیت کے بڑے ڈھانچے اس وقت تعمیر ہونا شروع ہوئے جب انسان نے زراعت کو اپنایا، اور یہ وقت تقریباً 12 ہزار سال قبل کا ہے۔
سمندر کنارے ایلین نما مچھلی نے ماہی گیر کو بھی خوفزدہ کردیا
تاہم اگر یوناگونی جیسا قدموں کی شکل والا عظیم الشان ہرم اس سے پہلے وجود رکھتا تھا تو یہ ہماری تاریخ نویسی کو مکمل طور پر بدلنے کا متقاضی ہوگا اور ممکنہ طور پر ایک گمشدہ تہذیب، جیسا کہ افسانوی ’اٹلانٹس‘، کے وجود کی طرف اشارہ کرے گا۔
بوسٹن یونیورسٹی کے پروفیسر رابرٹ شوک نے نیشنل جیوگرافک کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ان عجیب و غریب ساختوں کو ”بنیادی ارضیات اور ریتیلے پتھروں کی کلاسیکی تہہ دار ساخت“ قرار دیا۔
انہوں نے وضاحت کی ریت کے پتھروں (sandstones) کا رجحان ہوتا ہے کہ وہ مخصوص سطحوں پر ٹوٹیں اور اس سے یہ بالکل سیدھی کناروں والی شکلیں بن جاتی ہیں، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں زلزلے کے فالٹس اور زمین کی پرتوں میں سرگرمی زیادہ ہو۔
یوناگونی یادگار پر موجود جڑواں میگالتھ (بڑے پتھریلے ڈھانچے) کے ساتھ غوطہ خوروں کو قریب تیرتے اور سکوبا ڈائیونگ کرتے دیکھا جا سکتا ہے اور یہ منظر اب بھی سوال چھوڑتا ہے کہ کیا یہ قدرت کا کام ہے؟ یا کسی کھوئی ہوئی تہذیب کی نشانی؟
Comments are closed on this story.