Aaj News

بدھ, اپريل 09, 2025  
10 Shawwal 1446  

ٹرمپ سے قبل کونسے سال امریکہ نے دنیا کو معاشی سزا دی تھی؟

ایسا پہلی بار نہیں کہ امریکہ نے دنیا کو سزا دی بلکہ اس سے قبل بھی امریکہ کی جانب سے دنیا کو معاشی سزا دی گئی تھی
شائع 05 اپريل 2025 06:13pm

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دنیا کے مختلف ممالک پر ٹیرف عائد کیا جس کے بعد منفی رد عمل دیکھنے کو ملا۔ امریکہ کے اس عمل کو ایک معاشی سزا کے طور پر دیکھا گیا ہے۔

واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے پاکستان سمیت درجنوں ممالک پر کئی سالوں سے غیر منصفانہ تجارتی طریقوں کا حوالہ دیتے ہوئے دو طرفہ محصولات عائد کرنے کا اعلان کیا تھا۔

ٹیرف تمام بیرونی ممالک پر بیس لائن 10% ٹیرف کے ساتھ اثر ڈالیں گے، جبکہ کچھ کو نمایاں طور پر زیادہ شرحوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ امریکہ نے دنیا کو سزا دی بلکہ اس سے قبل بھی امریکہ کی جانب سے دنیا کو معاشی سزا دی گئی تھی۔

یہ اس وقت کی بات ہے جب سنہ 1803 اور 1815 کے درمیان دنیا نیپولین جنگوں کے واقعات کے زیر اثرات تھی جو ان جنگوں کی توسیع کی نمائندگی کرتی تھی جو یورپی براعظم نے انقلاب فرانس کے بعد دیکھی تھیں۔ اس عرصے کے دوران فرانس، نپولین بوناپارٹ کے دور میں پہلے قونصل اور پھر شہنشاہ کے طور پر، کو کئی یورپی طاقتوں کا سامنا کرنا پڑا جنہوں نے بنیادی طور پر فرانسیسی توسیع اور نپولین کے عزائم کو روکنے کی کوشش کی۔

امریکی صدر ٹرمپ نے ایران کو براہ راست مذاکرات کی پیش کش کردی

نپولین کی جنگوں کے اثرات دنیا کے کئی ممالک تک پھیلے اور لاطینی امریکہ کے علاوہ امریکہ نے بہت سی تبدیلیاں دیکھی۔ جن میں سے کچھ تبدیلیاں تجارتی اور اقتصادی نظام سے منسلک تھیں۔ جیسا کہ واشنگٹن نے اس عرصے کے دوران ایک قسم کی داخلی پابندیاں عائد کرنے کے لیے عالمی سطح پر پابندیاں عائد کیں اور تمام داخلی پابندیاں بھی عائد کی تھیں۔

19ویں صدی کے آغاز میں یورپی براعظم کیجانب امریکی جہاز رانی اور تجارتی نقل و حرکت میں اضافہ ہوا جس کی وجہ سے سرکاری خزانے کو بھرنے میں مدد ملی تھی۔

یورپی براعظم پر نپولین جنگ کے آغاز کیساتھ ہی برطانیہ اور فرانس کی جنگ چل رہی تھی۔ دونوں نے ایک دوسرے کی تجارت میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے امریکی بحری جہازوں کو نشانہ بنانا شروع کیا تھا، دونوں امریکہ پر الزام لگا رہے تھے کہ وہ اس کے دشمن کے ساتھ تجارت کر رہا ہے۔

ٹرمپ نے ٹک ٹاک پر پابندی مؤخر کر دی، معاہدے کے لیے 75 دن کی توسیع

اس دوران برطانیہ آگے بڑھ چکا تھا اور برطانویوں نے ایک سے زائد مواقع پر امریکی ملاحوں کو اس مقصد کے لیے اغوا کیا کہ وہ اس کے بحری جنگی جہازوں پر کام کریں اور بحر اوقیانوس میں فرانسیسیوں کا مقابلہ کریں۔ تاہم یہ سب دیکھ کر امریکہ بھت ناراض ہوا۔

امریکی کانگریس نے ایک سے زیادہ مواقع پر امریکی تجارتی بحری جہازوں کو نشانہ بنانے اور ملک کی خوشحالی کو لاحق خطرات سے متعلق گہری تشویش کا اظہار کیا۔ اس معاملے سے نمٹنے کیے لیے اس وقت کے امریکی صدر تھامس جیفرسن نے اقدام اٹھایا۔ فرانس اور برطانیہ کے مقابلے میں امریکی فوجی پسماندگی کا احساس کرتے ہوئے تھامس جیفرسن نے فرانسیسی اور برطانوی کو نقصان پہنچانے کے لیے تجارتی جنگ کا حل اپنانے کی سفارش کی۔

ایبمارگو ایکٹ 1807

امریکہ میں ایمبارگو ایکٹ کی توثیق 22 دسمبر 1907 کو ہوئیں جس کے بعد امریکہ نے تمام بیرونی ممالک پر تجارتی پابندیاں عائد کر دیں۔ یہ قانون اس وقت 1806 کے امپورٹیشن پریونشن ایکٹ کے ایک تکمیلی قانون کی نمائندگی کرنے کیلئے نافذ کیا گیا تھا۔ اس قانون نے برطانوی سامان کی درآمد پر پابندی عائد کردی تھی جس کا مقصد برطانیہ کو امریکی ملاحوں کی بھرتی کی پالیسی کو روکنے اور امریکہ کی خودمختاری کا احترام کرنے پر مجبور کرنا تھا۔

سفارتی طور پر امریکی پابندیوں نے عالمی سطح پر واشنگٹن کی پوزیشن کو بہتر نہیں بنایا کیونکہ اس عمل سے امریکہ اکیلا ہوگیا تھا اور برطانیہ کی پوزیشن مضبوط ہوگئی۔ امریکی پابندیوں اور نپولین بوناپارٹ کی طرف سے براعظمی ناکہ بندی کی وجہ سے برطانیہ نے امریکی براعظم کے جنوب میں پریشان حال ہسپانوی اور پرتگالی کالونیوں میں نئی منڈیوں کی تلاش شروع کردی ۔ تاہم اس کی بدولت امریکی تجارت میں تیزی سے کمی آئی اور برطانوی تجارت میں اضافہ ہوا۔

America

economic punishment