امریکہ کی خاموش مگر بڑی عسکری پیش قدمی، ایران کے قریب خفیہ بمبار طیاروں کی بڑی کھیپ تعینات
جب ایک طرف دنیا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ریسیپروکل ٹیرف اقدامات اور اس کے اثرات پر توجہ مرکوز کیے بیٹھی تھی، اس دوران پینٹاگون نے خاموشی سے بحرِ ہند اور انڈو پیسیفک ریجن میں اپنی تاریخ کی سب سے بڑی فوجی تعیناتی کا آغاز کر دیا۔
سیٹلائٹ تصاویر کے مطابق، امریکی فوج نے چھ بی-2 اسٹیلتھ بمبار طیارے ڈیگو گارشیا کے ہوائی اڈے پر تعینات کیے ہیں، جو امریکہ اور برطانیہ کی مشترکہ فوجی بیس ہے۔ یاد رہے، امریکہ کے پاس مجموعی طور پر صرف 20 بی-2 بمبار ہیں، جن میں سے 30 فیصد اب بحرِ ہند میں موجود ہیں۔
امریکہ نے اس کے ساتھ ساتھ انڈو پیسیفک خطے میں اپنے طیارہ بردار بحری جہازوں کی تعداد بھی ایک سے بڑھا کر تین کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
یو ایس ایس کارل ونسن کو مشرق وسطیٰ بھیجا جا رہا ہے، جبکہ یو ایس ایس ہیری ایس ٹرومین عرب سمندر سے کارروائیاں جاری رکھے گا، اور یو ایس ایس نیمٹز اور اس کا اسٹرائیک گروپ جنوبی چینی سمندر کی طرف روانہ کیا جائے گا۔
پینٹاگون کے ترجمان شان پارنیل کے مطابق، امریکی وزیر دفاع پیٹر ہیگسیتھ نے مزید اسکواڈرنز اور فضائی یونٹس کی تعیناتی کا بھی حکم دے دیا ہے تاکہ دفاعی صلاحیتوں میں اضافہ کیا جا سکے، تاہم ان اضافی اسکواڈرنز کی تفصیلات فی الحال فراہم نہیں کی گئیں۔
تعیناتی کی وجہ؟
پینٹاگون کا مؤقف ہے کہ یہ اقدام امریکہ کی دفاعی پوزیشن کو مضبوط بنانے کے لیے کیا گیا ہے۔ ترجمان نے کہا کہ امریکہ اور اس کے اتحادی خطے میں سیکیورٹی کے لیے پرعزم ہیں اور کسی بھی ریاستی یا غیر ریاستی خطرے کا منہ توڑ جواب دینے کے لیے تیار ہیں۔
یمن، حوثی باغی اور ایران
اگرچہ پینٹاگون نے کسی مخصوص ملک یا تنظیم کا ذکر نہیں کیا، لیکن دفاعی ماہرین اس تعیناتی کو مشرق وسطیٰ میں جاری کشیدگی، خاص طور پر ایران اور یمن کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں امریکہ نے ایران کے حمایت یافتہ یمن میں سرگرم حوثی باغیوں کے خلاف اپنی کارروائیوں میں اضافہ کیا ہے۔
صدر ٹرمپ نے اپنی سوشل میڈیا پوسٹ میں حوثیوں اور ایران کو خبردار کرتے ہوئے کہا، ’اگر آپ ہمارے بحری جہازوں پر حملے روک دیں، تو ہم بھی حملے روک دیں گے، ورنہ اصل تکلیف ابھی شروع نہیں ہوئی۔‘
ایران کی جوہری تنصیبات
ٹرمپ انتظامیہ ایران پر جوہری معاہدے کی دوبارہ مذاکرات کے لیے دباؤ بڑھا رہی ہے۔ اگر مذاکرات ناکام ہوئے تو امریکہ فوجی کارروائی کا راستہ بھی اختیار کر سکتا ہے۔ 2018 میں ٹرمپ نے ایران سے جوہری معاہدے سے علیحدگی اختیار کی تھی اور سخت پابندیاں دوبارہ نافذ کی تھیں۔
چین اور روس کو پیغام
امریکہ کی یہ وسیع فوجی تعیناتی نہ صرف مشرق وسطیٰ بلکہ چین اور روس کے لیے بھی ایک واضح پیغام ہے۔ جنوبی چینی سمندر میں یو ایس ایس نیمٹز کی موجودگی بیجنگ کو خبردار کرتی ہے کہ امریکہ انڈو پیسیفک میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے پرعزم ہے۔ اسی طرح یو ایس ایس کارل ونسن کی مشرق وسطیٰ تعیناتی ماسکو کے لیے ایک سٹریٹیجک اشارہ سمجھی جا رہی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس تعیناتی کی نوعیت اور پیمانہ ظاہر کرتا ہے کہ امریکہ ایک وسیع عسکری حکمتِ عملی پر عمل پیرا ہے، جو صرف حوثیوں یا ایران تک محدود نہیں بلکہ پورے خطے میں امریکی اثر و رسوخ کے تحفظ کے لیے کی جا رہی ہے۔