صحافی فرحان ملک کیخلاف پیکا ایکٹ کے تحت مقدمہ؛ عدالت نے ضمانت مسترد کر دی
کراچی میں جوڈیشل مجسٹریٹ شرقی سٹی کورٹ میں صحافی فرحان ملک کے خلاف پیکا ایکٹ کے تحت مقدمے میں عدالت نے ان کی درخواست ضمانت مسترد کر دی۔ گذشتہ روز عدالت نے صحافی فرحان ملک کی درخواست ضمانت پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
صحافی فرحان ملک کے وکیل عبدالمعیز جعفری عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ جج نے ہماری درخواست ضمانت مسترد کر دی ہے، تحریری حکم نامہ کل صبح ملے گا، اس کے بعد آئندہ کا لائحہ عمل طےکریں گے۔
وکیل عبدالمعیز جعفری کا کہنا ہے کہ جوڈیشل مجسٹریٹ شرقی کے فیصلے کے خلاف اپیل کریں گے، فرحان کوعدالتی ریمانڈ پر نہ بھیجنے پر عدالت نے انکوائری کا حکم دیا ہے، ڈائریکٹر ایف آئی اے سے 15 دن میں انکوائری کر کے رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا۔
واضح رہے کہ گذشتہ روز کراچی میں جوڈیشل مجسثریٹ ایسٹ یسری اشفاق کی عدالت میں صحافی فرحان ملک کی درخواست ضمانت کی سماعت ہوئی۔ عدالت نے ڈائریکٹر ایف آئی اے کو آج ذاتی طورپر طلب کیا ہے۔
سماعت کے دوران عدالت نے اجازت کے بغیرملزم کو دوسرے مقدمے میں گرفتار کرنے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے تفتیشی افسر کو شوکاز نوٹوٹس جاری کیا۔
وکیل صفائی معیز جعفری نے مؤقف اپنایا کہ مقدمہ بدنیتی پر مبنی ہے، ایف آئی اے اب تک یہ نہیں بتا سکی کہ جرم کیا ہے، صرف یہ کہہ دینا اینٹی اسٹیٹ مواد کافی نہیں، یہ تو بتایا جائے کہ کون سی رپورٹ یا خبر اینٹی اسٹیٹ ہے، کسی ایک لفظ کی نشاندہی نہیں کی گئی جو اینٹی اسٹیٹ ہے۔
وکیل نے دلائل دیے کہ ایف آئی اے کی کہانی سے لگتا ہے کہ ویب سائٹ چلانا جرم ہے، یہ بھی نہیں بتا رہے فرحان نے کس ادارے کی بے حرمتی کی، فرحان ملک کے خلاف کسی ادارے نے شکایت نہیں کی، چھاپا ضلع ایسٹ میں مارا گیا، مقدمہ ملیر کا بنا دیا گیا۔
وکیل صفائی نے کہا کہ ملزم کو جیل منتقل کرنے کے بجائے دوسری عدالت سے ریمانڈ لے لیا گیا جس پر عدالت نے سوال کیا کہ یہ کیسے ممکن ہے؟ جیل کسٹڈی کے بعد ملزم کو کہاں لے جانا تھا؟
تفتیشی افسر نے جواب دیا کہ میں دوسرے مقدمے کیلئے عدالت میں موجود تھا، مجھے پتا چلا کہ ملزم کو دوسرے مقدمے میں گرفتار کر لیا گیا، اس پر عدالت نے کہا کہ یہ تو قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے، کس کے حکم پر ملزم کو جیل کی بجائے دوسرے کیس میں گرفتارکیا گیا؟ نام بتائیں جس نے یہ حرکت کی ہے۔
تفتیشی افسر نے جواب دیا کہ مجھے آفس سے فون آیا تھا، اس پر عدالت نے کہا کہ کس کا فون تھا، نام بتاو؟ تفتیشی افسر نے جواب دیا کہ منشی کا فون آیا تھا۔
جج نے حکم دیا کہ بلائیں ان افسران کو جنہوں نے فیصلے کی خلاف ورزی کی۔
سماعت کے دوران تفتیشی افسر نے عدالت سے کہا کہ فرحان ملک نے پاکستان کے نام کا مذاق اڑایا، اس پوسٹ پر انتہائی نامناسب کمنٹس تحریرہیں، کیا کوئی ذمے دارصحافی ایسا کرسکتا ہے، ملزم کو بلا کر ہر بات سے آگاہ کیا گیا۔
سندھ ہائی کورٹ میں سماعت
دوسری جانب سندھ ہائیکورٹ میں صحافی فرحان ملک کے خلاف مقدمہ کالعدم قرار دینے کی درخواست پر سماعت ہوئی، عدالت نے فریقین کو 23 اپریل کے لیے نوٹس جاری کردیے ۔
وکیل نے عدالت کو بتایا کہ صحافی کے خلاف مقدمات بدنیتی کی بنیاد پر درج کیے جا رہے ہیں، مقدمات کے تسلسل سے لگتا ہے تفتیشی افسر ذاتی طور پر ملوث ہیں۔
عدالت نے کہا کہ پندرہ دن میں انکوائری کر کے رپورٹ پیش کریں، عدالتی حکم کی خلاف ورزی کس نے کی، ملزم فرحان کو جیل منتقل کرنے کے بجائے دوسرے مقدمے میں گرفتار کیوں کیا گیا۔
صحافی فرحان ملک کے خلاف پیکا ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا ، پہلے مقدمے میں جسمانی ریمانڈ کی مدت ختم ہوتے ہی غیرقانونی کال سینٹر چلانے کا مقدمہ درج کر دیا۔