ترکیہ: متوقع صدارتی امیدوار امام اوغلو کی گرفتاری کے خلاف احتجاج 55 صوبوں تک پھیل گیا
امام اوغلو کی بدعنوانی اور دہشت گردی کے الزامات میں گرفتاری کے بعد سے احتجاج کا سلسلہ استنبول سے ترکی کے 55 سے زائد صوبوں تک پھیل چکا ہے، جہاں مظاہرین اور پولیس کے درمیان شدید جھڑپیں ہو رہی ہیں۔
امام اوغلو کی بدعنوانی اور دہشت گردی کے الزامات میں گرفتاری کے بعد سے احتجاج کا سلسلہ استنبول سے ترکی کے 55 سے زائد صوبوں تک پھیل چکا ہے، جہاں مظاہرین اور پولیس کے درمیان شدید جھڑپیں ہو رہی ہیں۔
حالیہ احتجاج میں گرفتار مظاہرین کی تعداد 14 سو سے تجاوز کرچکی ہے۔ پولیس نے استنبول میں مظاہرین پر واٹر کینن کا استعمال کیا ہے۔ ترک صدر کی مظاہرین سے صبر اور عقل سے کام لینے کی اپیل کی ہے۔
پیر کے روز استنبول اور انقرہ کی جامعات کے طلبہ نے احتجاجاً کلاسز کا بائیکاٹ کیا اور حکومت کے خلاف نعرے لگائے۔ اسی دوران، 1400 جی ایم ٹی پر بشکتاش پورٹ پر مظاہرے کی تیاریاں جاری ہیں، جبکہ 1730 جی ایم ٹی پر استنبول سٹی ہال کے باہر ایک بڑا احتجاجی اجتماع متوقع ہے۔
53 سالہ امام اوغلو کو ترکی کا وہ واحد سیاست دان سمجھا جاتا ہے جو انتخابات میں اردوان کو شکست دے سکتا تھا۔ ان کی گرفتاری کو سیاسی انتقام اور اردوان کے اقتدار کو مستحکم کرنے کی کوشش قرار دیا جا رہا ہے۔
امام اوغلو کی جیل میں منتقلی پر عالمی برادری بھی سخت ردعمل دے رہی ہے۔ جرمنی، یونان، فرانس اور یورپی یونین نے اس کارروائی کی مذمت کرتے ہوئے ترکی پر جمہوری اصولوں کو برقرار رکھنے کا دباؤ بڑھا دیا ہے۔
فرانسیسی وزارت خارجہ نے اس اقدام کو ”جمہوریت پر سنگین حملہ“ قرار دیا، جبکہ یورپی یونین نے کہا کہ ترکی کو جمہوری اقدار کے تحفظ کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔
ترکی میں جاری یہ بدترین سیاسی بحران اردوان حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے، جبکہ مظاہروں کے بڑھنے سے ملک میں مزید کشیدگی کا خدشہ ہے۔
دریں اثنا انقرہ کے گورنر نے کہا ہے کہ وہ وفاقی دارالحکومت میں کسی بھی قسم کے احتجاج پر پابندی میں یکم اپریل تک توسیع کر رہے ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اس حوالے سے گورنر کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ پابندی یکم اپریل کو رات 11 بج کر 59 منٹ تک جاری رہے گی۔