کراچی میں حادثات: ڈمپر مافیا کہتی ہے تمہاری ایسی کی تیسی، کچھ کرکے دکھاؤ ہم پورا شہر بند کردیں گے، ظفر عباس
متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے رہنما خواجہ اظہار الحسن کا کہنا ہے کراچی می پے درپے ہونے والے حادثات اور ان کے نیتیجے میں ہونے والی اموات کی ذمہ دار شہری انتظامیہ ہے، اس میں ایکسائز ڈیپارٹمنٹ، پولیس اور صوبے کا چیف ایگزیکیوٹیو یعنی وزیراعلیٰ بھی شامل ہیں۔ غریب کو پولیس ناکے لگا کر لوٹتی ہے لیکن ان ٹینکرز کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس ساری ڈمپر مافیا کے پیچھے طاقتور ارباب اقتدار ہیں جو ایوانوں میں بیٹھے ہیں یا اس ملک کے کسی طاقتور اشرافیہ سے ان کا تعلق ہے۔
آج نیوز کے پروگرام ”نیوز انسائٹ وِد عامر ضیاء“ میں گفتگو کرتے ہوئے خواجہ اظہار الحسن نے کہا کہ کسی نہ کسی بہانے سے کراچی کا لہو بہتا رہتا ہے اور حکمران تاویلیں پیش کرتے رہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جے ڈی سی کے سربراہ ظفر عباس اس مسئلے کو بڑے شدومد سے اٹھا رہے ہیں اور اس کے نتائج بھی بھگت رہے ہوں گے انہیں فون بھی آرہے ہوں گے۔
خواجہ اظہار الحسن نے کہا کہ ایک عورت اور اس کا بچہ ڈمپر کے نیچے آکر ہلاک ہوگیا تو کیا ہمیں وزیراعلیٰ ہاؤس کا گھیراؤ کرکے ان کو احساس دلانا پڑے گا؟ یہ بے حسی، ڈھٹائی اور بے شرمی نہیں ہے؟ اتنی میٹنگز ہوئیں، کیا اس کے بعد ان ڈمپرز مافیا میں ڈر خوف بڑھا؟ بلکہ شہری مزید ڈر گئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت کا کراچی سے ایک علیحدہ بغض ہے، اٹھارہویں ترمیم کے بعد ہم حکومت کے رحم و کرم پر ہیں، کراچی علیحدہ ہے سندھ علیحدہ ہے، کیونکہ کراچی میں ان کا اپنا حلقہ نہیں اپنی اجارہ داری نہیں ہے، آپ کسی بھی پیپلز پارٹی کے عہدہ دار کا بیان لے لیں، یہ ہمیں ہی قصور وار ٹھہرائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ شہر میں پانی اسی طرح بک رہا ہے، سیوریج اسی طرح ابل رہی ہے، اوپر اب لگتا ہے کہ ڈمپر مافیا جان بوجھ کر مسلط کی گئی ہے، آپ ان کے سوشل میڈیا پر بیانات دیکھیں کہ کراچی والوں نے مشتعل ہوکر ڈمپر کو نقصان پہنچایا تو دھمکیاں دے رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پولیس کا پراسیکیوشن کمزور ہے، ایکسائز ڈیپارٹمنٹ اپنا کام نہیں کر رہا اور یہی وجہ ہے کہ عدالتوں سے بری ہوتے ہیں۔
ڈمپر مافیا کہتی ہے لاش نکالنے کے دوران ہمارے ٹائروں کو چھیڑا یا نقصان پہنچایا تو ہم تمہیں چھوڑیں گے نہیں، ظفر عباس
پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے سماجی تنظیم جے ڈی سی کے جنرل سیکریٹری ظفر عباس نے کہا کہ یکم جنوری سے 24 جنوری تک ملک کے کس شہر میں 208 تو کیا آٹھ گھروں میں بھی ڈمپر اور ٹرکوں کے ٹائروں سے کچلی ہوئی لاشیں بھیجی گئی ہیں؟ اس شہر میں کسی ایک قصور وار کو اگر سزا ہوئی ہے تو نام بتا دیں۔
انہوں نے کہا کہ ’جب آپ کسی انسان کو انسان نہیں سمجھیں گے، آپ کہیں گے اب ہمارے پاس اقتدار آگیا ہے روندو، عید آرہی ہے 208 لاشیں بھیج دو ان کے گھروں میں۔ بات سادہ سی ہے، آپ ایک پریس کانفرنس کرتے ہو، اس کے بعد ڈمپر مافیا آکر کہتی ہے تمہاری ایسی کی تیسی، تم کچھ کرکے دکھاؤ ہم تمہارا پورا شہر بند کردیں گے، تو عوام ان سے ڈرے گی نہیں کیا؟ وہ کہتے ہیں لاش نکالنے کے دوران ہمارے ٹائروں کو چھیڑا یا نقصان پہنچایا تو ہم تمہیں چھوڑیں گے نہیں‘۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ صرف یہ معلوم کرلے کہ اس ٹرالر مافیا، ڈمپر مافیا نے کتنی لاشیں بھیجیں آپ سر پکڑ کر بیٹھ جائیں گے کہ یہ ٹائر چاق گولی کا کام کر رہا ہے، یہ بھی یہاں کے لوگوں کی نسل کشی کر رہا ہے۔
ظفر عباس نے کہا کہ کوئی پوچھتا اس لئے نہیں کہ کراچی ہے، کوٹہ سسٹم کے نام پر نوکری نہیں دینی ہے، موبائل فون لے کر باہر نکلو تو ڈکیت چھین کر لے جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ پورے شہر میں آپ سڑک ڈھونڈ کر دکھائیں کہ کہاں ہے، ڈمپر والا کہتا ہے میں تو سیدھا چلا رہا تھا، بائیک والا گڑھے سے بچنے کیلئے آگے آیا تو میں گزر گیا اس پر سے، یہ مذاق ہے؟
ظفر عباس نے کہا کہ جو وزیر ہیں، جن کے پاس اختیار ہی وہ ہنس رہے ہیں، ان کو کسی چیز کی فکر ہی نہیں ہے، کہہ رہے ہیں عوام ہے مرجاؤ، کوئی نہیں پوچھے گا۔
انہوں نے کہا کہ ان وزیروں کے بچے ٹینکروں کے نیچے روندے گئے نا۔ آپ پُل کے اس طرف رہتے ہو، پل کے اِس طرف کی زندگی دیکھو۔ 12 گھنٹے گزر گئے کوئی وزیر ملیر ہالٹ حادثے کے متاثرین کے گھر نہیں گیا، کیسے جاتے ان کی افطار پارٹی چل رہی تھی سحری پارٹی چل رہی تھی۔