آئی ایم ایف نے پراپرٹی ٹیکس اور بجلی نرخوں میں کمی کی اجازت سے انکار کر دیا
پراپرٹی ٹیکس کا نفاذ پھر کھٹائی کا شکارہو گیا، آئی ایم ایف نے ودہولڈنگ ٹیکس میں 2 فیصد کمی کی درخواست پر تحفظات کا اظہارکر دیا۔ ذرائع کے مطابق تمباکو اور مشروبات پر ٹیکس میں نرمی نہ کرنے اور گندم کی خریداری میں مداخلت روکنے کی ہدایت کی گئی جبکہ اسٹاف لیول معاہدے کے لیے پاکستان کو مزید یقین دہانیاں کرانی ہوں گی۔
ذرائع کے مطابق بین الاقوامی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) نے جائیداد لین دین پر ٹیکس میں کمی کی درخواست پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے، مارچ 2025ء کے اہداف کم کرنے پر بھی اتفاق نہیں ہو سکا۔
آئی ایم ایف نے ودہولڈنگ ٹیکس میں 2 فیصد کمی کی درخواست کو بھی مسترد کر دیا، اور فی الحال ٹیکس میں کمی پر کسی بھی معاہدے پر دستخط نہیں ہوئے۔
اس کے علاوہ، تمباکو اور مشروبات پر ٹیکس میں نرمی کی درخواست بھی مسترد کر دی گئی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اسٹاف لیول معاہدے کے لیے پاکستان کو مزید یقین دہانیاں کرانی ہوں گی، آئی ایم ایف نے صوبوں کو گندم کی خریداری میں مداخلت سے روکنے کی شرط عائد کی ہے۔
اس کے علاوہ، آئی ایم ایف نے کلائمیٹ فنانس کو فنڈز سہولت میں شامل کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے، جس سے پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹنے میں مدد ملے گی۔
آئی ایم ایف نے بینکوں سے 1257 ارب روپے اکٹھا کرنے کی اجازت دے دی، پراپرٹی پر ٹیکس کی شرح 2 فیصد کم کرنے کی جزوی رعایت دینے پر بھی رضامندی ظاہر کردی۔
واضح رہے کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے اصولی طور پر ایف بی آر کی درخواست پر پراپرٹی کی خریداری پر عائد ود ہولڈنگ ٹیکس کی شرح اپریل 2025 سے 2 فیصد کم کرنے کی جزوی رعایت دینے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔
تاہم فروخت کنندگان پر عائد ود ہولڈنگ ٹیکس کی شرح برقرار رہے گی۔ بجلی کے شعبے میں سرکلر ڈیٹ کے مسئلے کو کم کرنے کے لیے بینکوں سے 1257 ارب روپے اکٹھا کرنے کی اجازت بھی دے دی۔
حکومت کی جانب سے بجلی کے ٹیرف میں بڑی کمی کا وعدہ آئی ایم ایف کی منظوری سے نہ گزر سکا، جس کی وجہ سے 7ارب ڈالر کے ایکسٹینڈڈ فنڈ فسیلٹی (EFF) کے پہلے 6 ماہ کے جائزے کے سلسلے میں اسٹاف لیول ایگریمنٹ (SLA) پر معاہدہ نہیں ہو سکا۔
میڈیا میں یہ خبریں آئیں کہ وزیراعظم 23 مارچ کو اپنے خطاب میں بجلی کے ٹیرف میں 8 روپے فی یونٹ کمی کا اعلان کریں گے، مگر وزیراعظم نے اپنے خطاب میں پاکستان ڈے کے موقع پر ایسا کوئی ریلیف پیکیج نہیں اعلان کیا۔
اس کے بجائے، وزیراعظم نے توانائی کے شعبے کے حوالے سے ایک اجلاس کی صدارت کی جس میں توانائی، اقتصادی امور اور نجکاری کے وزیروں سمیت دیگر حکام نے شرکت کی۔ اجلاس کے دوران توانائی کے شعبے کے مسائل پر تبادلہ خیال کیا گیا، اور وزیراعظم کے دفتر کی طرف سے اس اجلاس کے بعد ایک بیان جاری کیا گیا۔
وزیراعظم آفس نے 15 مارچ کو اعلان کیا کہ وزیراعظم نے پیٹرولیم قیمتوں کو موجودہ سطح پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے، حالانکہ آئل ریگولیٹر اور پیٹرولیم ڈویژن کی جانب سے پیٹرولیم قیمتوں میں 13 روپے فی لیٹر تک کمی کی تجویز دی گئی تھی۔ اس فیصلے میں یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ اس مالی اثرات کو بجلی کے صارفین تک منتقل کیا جائے گا۔
وزیراعظم آفس نے اعلان کیا تھا کہ بجلی کی قیمتوں میں کمی کے لیے ایک جامع اور مؤثر حکمت عملی کے تحت ایک پیکیج تیار کیا جا رہا ہے، مزید کہا گیا کہ بین الاقوامی تیل کی قیمتوں میں تبدیلیوں اور دیگر اقدامات کے ذریعے صارفین کے لیے ایک بڑا ریلیف پیکیج تیار ہے۔
تاہم، اس ٹیرف پیکیج کو آئی ایم ایف کی منظوری سے گزرنا تھا، جو اس وقت پاکستان کی معیشت کی کارکردگی کا جائزہ لے رہا ہے، جو جاری مالی سال کے پہلے چھ ماہ اور 30 جون 2025 تک کے متوقع منظرنامے پر مبنی ہے۔ ایک حکومتی عہدیدار نے نجی اخبار کو بتایا کہ ’مذکورہ اعداد و شمار آئی ایم ایف کے غیر سیاسی سافٹ ویئر میں نہیں فٹ ہوئے۔‘
رواں ماح 4 سے 14 مارچ تک جاری رہنے والی جائزہ بات چیت کے دوران، آئی ایم ایف کے عملے کے ساتھ ایک منصوبہ شیئر کیا گیا جس میں آزاد پاور پروڈیوسرز کے ساتھ معاہدوں کی دوبارہ مذاکرات کے ذریعے کچھ بچتوں کے عوض تقریباً 2 روپے فی یونٹ ٹیرف میں کمی کی تجویز دی گئی تھی۔
بعد ازاں حکام نے پیٹرول اور ڈیزل پر پیٹرولیم لیوی میں 10 روپے اضافہ کرنے پر غور کیا، جو فنانس ایکٹ 2025 کے تحت زیادہ سے زیادہ 70 روپے تک منظور ہے، تاکہ اس آمدنی کو بجلی کے ٹیرف میں مزید کمی کے لیے استعمال کیا جا سکے۔ اس کا اثر تقریباً 2 سے 2.50 روپے فی یونٹ کے درمیان ہو سکتا ہے۔
ایک حکومتی عہدیدار نے کہا کہ “آئی ایم ایف کو اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ پیٹرولیم لیوی میں اضافے اور اسے بجلی کے ٹیرف میں کمی کے لیے استعمال کرنے کا یہ ایک متوازن اقدام تھا۔ یہ ریونیو نیوٹرل تھا، اس کا کوئی سبسڈی یا مالی اثر نہیں تھا۔
نیپرا کی مشکلات
نیپرا اس وقت ڈسکوز کی طرف سے سالانہ بیس ٹیرف میں تبدیلی کے لئے درخواستوں پر غور کر رہی ہے۔ عملی طور پر صرف 6-7 آئی پی پیز نے نیپرا کے پاس دوبارہ مذاکرات کے بعد ٹیرف ایڈجسٹمنٹ کی درخواستیں پیش کی ہیں۔ اس کے علاوہ، پاور ڈویژن کی طرف سے سولر نیٹ میٹرنگ پالیسی میں تبدیلیوں کے بارے میں بھی نیپرا کو فیصلہ کرنا ہے۔
حکومتی عہدیدار کہا کہنا ہے کہ حکومت کے ذہن میں نیک نیتی اور منصوبہ ہو سکتا ہے لیکن اسے قانونی، طریقہ کار اور ضابطہ کے لحاظ سے حقیقت کا روپ دینے کے لئے بہت کچھ کرنا ہوگا۔ چونکہ آئی ایم ایف ایک وسیع نقطہ نظر سے منظرنامہ دیکھ رہا ہے، اس لیے وہ فیصلے سے پہلے شفافیت چاہتا ہے۔
سرکاری ذرائع کے مطابق حکومت بالآخر صارفین کے لیے تقریباً 5 روپے فی یونٹ کے قریب ریلیف حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتی ہے، لیکن یہ تب ممکن ہوگا جب وہ اس ریلیف کو اعداد و شمار سے ثابت کر سکے۔
سولرنیٹ میٹرنگ پالیسی پر وزیراعظم کی میٹنگ
اتوار کو وزیراعظم کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں حکومت کی سولر نیٹ میٹرنگ پالیسی میں تبدیلیوں پر سابقہ 2 بار وزیر خزانہ و سابق مسلم لیگ ن کے رہنما مفتاح اسماعیل کی سوشل میڈیا پر ہونے والی تنقید کے اثرات پر بھی تفصیل سے بات چیت کی گئی۔
’سولر کی بجلی 22 روپے میں مہنگی لگ رہی ہے، کیا 60 روپے فی یونٹ بجلی سستی ہے؟‘
وزیراعظم آفس کی طرف سے اجلاس کے بعد جاری بیان میں وزیراعظم کا کہنا تھا کہ قابل تجدید توانائی کو فروغ دینا حکومت کی ترجیح ہے۔ انہوں نے حکام کو ہدایت کی کہ سولرائزیشن پالیسی کے حوالے سے جو بھی ابہام پیدا ہوا ہے، اسے حقائق اور اعداد و شمار کی مدد سے دور کیا جائے۔ حکومت کی سولر توانائی کی پالیسی اور ترجیحات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔
ای ای سی سی نے پہلے ہی مستقبل میں سولر نیٹ میٹرنگ صارفین سے خریداری کی قیمتوں میں دو تہائی کمی اور دیگر تصفیے کی شرائط کی منظوری دے دی ہے۔ وزیر توانائی نے صارفین سے نیٹ میٹرنگ کے بجائے نجی سرمایہ کاروں کے ذریعے بجلی کی پیداوار کے بڑے منصوبوں کی حمایت کی ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ وزیراعظم نے پاور جنریشن کمپنیوں کی نجکاری سے متعلق تمام قانونی اور دیگر امور کو جلدی حل کرنے کی ہدایت کی اور پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کی نجکاری کے عمل کو تیز کرنے کی بھی ہدایت کی۔
انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ بجلی کی قیمتوں میں کمی کے لیے ایک پیکج تیار کیا جا رہا ہے، جس کا اعلان جلد عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے کیا جائے گا۔ انہوں نے پاور ڈویژن، واٹر ریسورسز ڈویژن اور پیٹرولیم ڈویژن کو ہدایت کی کہ وہ توانائی کے شعبے میں ایک جامع حکمت عملی کے لیے اپنی ہم آہنگی کو بہتر بنائیں۔