بنگلہ دیشی حکومت کا بھارتی میڈیا کو طمانچہ، فوج نے طلبہ تنظیم کے بھی تمام دعوے مسترد کردئے
بنگلہ دیش کی فوج نے نیشنل سٹیزن پارٹی (این سی پی) کے پرنسپل کوآرڈینیٹر حسنات عبداللہ کے اس دعوے کو ”انتہائی مضحکہ خیز اور غیر سنجیدہ کہانیوں کا مجموعہ“ قرار دیا ہے، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ فوج کی جانب سے ایک ”ریفائنڈ عوامی لیگ“ بنانے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔
یہ تنازعہ اس وقت شروع ہوا جب حسنات عبداللہ نے 11 مارچ کو ایک فیس بک پوسٹ میں دعویٰ کیا کہ انہیں اور ان کے دو ساتھیوں کو ڈھاکہ کنٹونمنٹ میں طلب کر کے عوامی لیگ کی بحالی کے لیے ایک منصوبے میں شامل ہونے کی تجویز دی گئی۔ ان کے مطابق، یہ منصوبہ بھارت کے تعاون سے صابر حسین چوہدری، شیرین شرمین اور تاپوش کے گرد گھوم رہا ہے۔
حسانت عبداللہ کے اس بیان کو بھارتی میڈیا نے خوب اچھالا اور اسے بنگلہ دیش میں ملٹری کے قبضے کی جانب قدم قرار دیا۔
بنگلہ دیشی فوج کی وضاحت
سویڈن میں قائم نیٹرا نیوز نے بنگلیہ دیشی فوج کے ہیڈکوارٹر کا مؤقف شائع کیا، جس میں اس بات کی تصدیق کی گئی کہ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل وقار الزمان نے 11 مارچ کو حسنات عبداللہ سے ملاقات کی تھی۔ تاہم، فوجی بیان میں اس الزام کو مسترد کیا گیا کہ یہ ملاقات عوامی لیگ کی بحالی پر دباؤ ڈالنے کے لیے تھی۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ یہ ملاقات حسنات عبداللہ اور ان کے ساتھی سرجیس عالم کی درخواست پر ہوئی، جو طویل عرصے سے جنرل وقار الزمان سے ایک ”کورٹیسی ملاقات“ کے خواہاں تھے۔
حسنات عبداللہ کی وضاحت اور سیاسی پس منظر
27 سالہ حسنات عبداللہ ایک سابقہ طالب علم رہنما ہیں، جنہوں نے اینٹی ڈسکریمینیشن اسٹوڈنٹ موومنٹ کی قیادت کی تھی۔ یہ تحریک اس وقت شروع ہوئی جب ایک عدالت نے سرکاری ملازمتوں کے لیے کوٹہ نظام بحال کرنے کا حکم دیا۔ یہ احتجاج شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کا ایک اہم سبب بھی بنا، جس کے بعد 5 اگست 2024 کو حکومت ختم ہو گئی۔
اس تحریک کے کئی رہنماؤں نے عبوری کابینہ میں بھی شمولیت اختیار کی۔ بعد ازاں، ناہید اسلام نے استعفیٰ دے کر نیشنل سٹیزن پارٹی قائم کی، اور حسنات عبداللہ اور سرجیس عالم کو اہم عہدے دیے گئے۔
نیشنل سٹیزن پارٹی کا پریس کانفرنس میں مؤقف
حسنات عبداللہ کی فیس بک پوسٹ کے بعد، نیشنل سٹیزن پارٹی نے اسی رات ایک پریس کانفرنس کی۔ پارٹی رہنماؤں نے اپنے دعوؤں کو دہرایا لیکن اس بات کی تصدیق نہیں کی کہ ان کی ملاقات جنرل وقار الزمان سے ہی ہوئی تھی۔
جب نیٹرا نیوز کے رپورٹر نے سیدھا جواب مانگا تو حسنات عبداللہ نے کہا، ’میں نے صرف ”کنٹونمنٹ“ کا ذکر کیا ہے، آپ خود ان سے پوچھ سکتے ہیں۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ انہیں مقامی اختیارات اور امن و امان کے مسائل پر بات کرنے کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔
فوج کے مؤقف اور ملاقات کی تفصیلات
بنگلہ دیشی فوج کے بیان کے مطابق، 11 مارچ کو سرجیس عالم نے فوجی سربراہ کے مشیر کو فون کیا اور ملاقات کی درخواست کی۔ انہیں آرمی ہیڈکوارٹر آنے کے لیے کہا گیا، جہاں وہ سینا بھون میں انتظار کرتے رہے۔ فوجی سربراہ نے انہیں اپنے سرکاری امور مکمل کرنے کے بعد ملاقات کا وقت دیا۔
نیٹرا نیوز کا کہنا ہے کہ وہ اس ملاقات کی اندرونی تفصیلات کی تصدیق نہیں کر سکا۔ تاہم، فوجی ذرائع کے مطابق، اس ملاقات کا آغاز حسنات عبداللہ اور سرجیس عالم کی طرف سے ہوا تھا، نہ کہ فوج کی طرف سے۔
شیخ حسینہ کے زوال کے بعد فوج کا کردار
شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد، جنرل وقار الزمان مختلف سیاسی مذاکرات میں سرگرم رہے، جس کے نتیجے میں نوبل انعام یافتہ محمد یونس کی عبوری حکومت قائم ہوئی۔
بنگلہ دیش کی فوج تاریخی طور پر ملکی سیاست میں اہم کردار ادا کرتی آئی ہے، اور جنرل وقار الزمان نے مختلف مواقع پر کہا ہے کہ ’سیاسی قوتوں کے درمیان طویل تنازعے سے ملک کی استحکام اور خودمختاری خطرے میں پڑ سکتی ہے۔‘ تاہم، انہوں نے براہ راست فوجی مداخلت کی خواہش سے ہمیشہ انکار کیا ہے۔
بھارتی میڈیا کی رپورٹنگ پر ردعمل
اس دوران، بھارتی میڈیا نے بنگلہ دیشی فوج پر کئی الزامات عائد کیے، جنہیں چیف ایڈوائزر کے پریس ونگ نے ”جھوٹا اور بے بنیاد پروپیگنڈا“ قرار دیا۔
بھارت کے ایک مقامی اخبار ”آنند بازار پتریکا“ نے فوج سے متعلق ایک خبر شائع کی، جسے بعد ازاں اپنی ویب سائٹ سے ہٹا دیا۔ تاہم، رپورٹ ای پیپر میں صفحہ 7 پر بدستور موجود رہی۔
بنگلہ دیشی حکومت کے مطابق، ’بھارتی میڈیا ایک منظم مہم کے تحت بنگلہ دیشی عوام اور اداروں کے خلاف جھوٹ پھیلا رہا ہے، تاکہ شیخ حسینہ کی حکومت کی واپسی کے لیے راہ ہموار کی جا سکے۔‘
بنگلہ دیشی حکومت کے چیف ایڈوائزر کے پریس ونگ نے کہا، ’آنند بازار کی کہانی بالکل اسی طرح خیالی ہے جیسے کوئی بالی ووڈ رومانوی فلم!‘
بنگلہ دیشی حکام نے بھارتی میڈیا کو مشورہ دیا کہ ’صحافت میں سچائی اور شواہد کی بنیاد پر رپورٹنگ کی جائے، نہ کہ جھوٹے پروپیگنڈے کا حصہ بنا جائے۔‘